Sunday, September 22, 2019

جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

[جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں] :
................
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
................
1-سید نذیر حسین محدث دہلوی کا واقعہ :
"میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے والد ماجد کی خدمت میں ایک پڑھا لکھا برہمن آیا کرتا تھا، ایک دن اس نے میاں صاحب سے کہا :میاں صاحب زادے؟ تم اتنے بڑے ہوگئے ہو اور پڑھنے لکھنے سے محروم ہو، تمہیں پتہ نہیں کہ تمہارے خاندان کے تمام لوگ مولوی ہیں اور تم جاہل ہو!".
برہمن کی اس مختصر اور سیدھی بات نے دل پر اثر کیا کہ اسی آن دل طلب علم کی طرف مائل ہوگیا اور اس جذبے میں اس قدر تیزی آئی کہ پہلی تمام حرکات سے دست کش ہوگئے اور حصول تعلیم کے شوق نے ذہن پر پوری طرح قبضہ کر لیا...
اور آگے چل کر یہی لڑکا شیخ العرب والعجم اور شیخ الکل بن گیا. تفصیل کے لیے دیکھو [دبستان حدیث /28].
2-سید امیر علی اور علم دین کی طلب:
سید امیر علی ملیح آبادی پہلےاردو دان منشی اور بہرائچ کے کسی ڈاک خانے میں پوسٹ ماسٹر تھے،اس وقت ان کی عمر 18-19 برس کی تھی، علم دین سے بالکل بے بہرہ تھے، تاہم صوم وصلاۃ کے پابند تھے، ایک دن ایسا اتفاق پیش آیا کہ جس وقت یہ نماز پڑھنے مسجد گئے ہوئے تھے، کوئی افسر ڈاک خانہ دیکھنے آ پہنچا، پوسٹ ماسٹر کو غیر حاضر پاکر بہت نا خوش ہوا، کسی ڈاکئے نے دوڑ کر انہیں مسجد میں خبر دی، یہ وضو کر رہے تھے، مگر انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی، اطمینان سے نماز ختم کرکے واپس آئے، افسر نے اعتراض کیا، انہوں نے معذرت بھی نہیں کی بلکہ استعفا داخل کرکے ملازمت سے علیحدہ ہوگئے.
مولانا فرماتے تھے، اس واقعہ کا مجھ پر بڑا اثر پڑا، میرا خاندان اگرچہ غربت میں مبتلا تھا، تاہم ملازمت چھوٹنے اور ذریعہ رزق سے محروم ہوجانے پر کوئی افسوس نہیں ہوا، البتہ یہ خیال کرکے میری حسرت بے حساب تھی کہ جس دین کی پابندی پر میری نوکری گئی، اس سے بالکل جاہل ہوں، ٹکریں لگانا جانتا ہوں، مگر نماز کی حقیقت اور قرآن کے فہم سے بے بہرہ ہوں.اس خیال نے انہیں عربی اور دینی علوم کی تحصیل پر آمادہ کیا.
مولانا سید امیر علی ملیح آبادی بہت بڑے عالم، بہت بڑے مفسر، بہت بڑے مدرس، بہت بڑے مصنف اور بہت بڑے مترجم تھے.
ان کی ایک عالمانہ تصنیف"تفسیر مواہب الرحمن" ہے جو دس ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، اردو زبان کی تفسيروں میں اسے بڑی اہمیت حاصل ہے،ان کی دوسری بڑی خدمت فتاوی عالگیری کا اردو ترجمہ ہے، انہوں نے فقہ حنفی کی مشہور کتاب "ہدایہ" کا بھی اردو ترجمہ "عین الہدایہ" کے نام سے کیا ہے.[دیکھو قافلہ حدیث ص/13].
3-کسائی کی رگ غیرت بھڑک گئی:
فن ادب کے مشہور امام کسائی ایک مجلس میں گئے،چونکہ بہت تھکے ہوئے تھے،اس لئے کہا:"عييت"(بالتشديد)اہل مجلس نے ٹوکا کہ تم غلط لفظ استعمال کر رہے ہو،صحیح"عييت"(بالتخفيف) ہے، اس کے دل پر ایسی چوٹ لگی کہ اس فن کے سیکھنے کا تہیہ کر لیا، چنانچہ خلیل بصری کی خدمت میں گئے، اور پھر وہاں سے بنی تمیم وبنی آمد کے قبیلوں میں پھرے، یہاں تک کہ امام فن تسلیم کئے گئے. [علمائے سلف /حبیب الرحمن شیروانی، العلم والعلماء مولانا جھنڈا نگری ص/59].
4-سیبویہ کا واقعہ :
امامِ نحو سیبویہ کا واقعہ ہے کہ طالب علمی کے دور میں جبکہ حدیث پڑھا کرتے تھے،نحو سے اس وقت چنداں مناسبت نہ تھی، ایک روز ان کے استاد حماد بن سلمہ نے کسی حدیث کی روایت میں الفاظ "ليس أبا الدرداء" املا کرائے، سیبویہ نے ان کو ادا کرتے ہوئے اور طلبہ کے سامنے "لیس أبودرداء" کہا، شیخ نے کہا غلط لفظ نہ بتاؤ "ليس أبا الدرداء" ہے،اس گرفت سے سیبویہ کو ندامت ہوئی اور دل میں سوچا کہ میں وہ علم کیوں نہ سیکھوں جو ایسی غلطی سے بچا سکے، چنانچہ انہوں نے نحو سیکھی اور ایسی جانفشانی اور آمادگی سے سیکھی کہ "الكتاب=كتاب سيبويه" جیسی نامی اور ضخیم کتاب لکھ دی. [علمائے سلف ص/22،العلم والعلماء جھنڈا نگری ص/59].
5-مشہور شاعر امراء القیس کا واقعہ :
امرء القیس بن حجر الکندی نے اپنی بیوی سے کہا :"اقتلي السراج" - "چراغ کو گل کردو" عورت نے یہ سن کر کہا :"والله أنه أعجمي" - "یہ شخص عجمی ہے جو عرب کی زبان سے نا واقف ہے" کیونکہ عرب ایسے موقع پر بولا کرتے ہیں: "إطفي السراج" نہ کہ "اقتلي السراج" جو کہ خلاف استعمال ومحاورہ ہے. [دیکھو یہ واقعہ حاشیہ کافیہ ص/ 29,شرح جامی ص/104].
آخر یہی امرء القیس اس عورت کو ایک وجہ سے طلاق دے کر بیابان نوردی پر آمادہ ہوجاتا ہے اور اہل عرب کے تمام قبیلوں کی بولیوں کو ان کے محاورہ اور بدؤوں کے استعمال کے طریقوں کو ضبط کرتا ہے اور سالہاسال اسی تحقیق میں لگ جاتا ہے، آخر ایک جگہ ایک قبیلہ کی بولی اس موقع پر وہی نکلی جو امرء القیس نے چراغ بجھانے کے لئے اپنی شب عروسی میں کہا تھا، اور جس سے عورت چراغ پا ہوگئی تھی،یہ وہی امرء القیس کندی وہی تھا جو اپنی معشوقہ عنیزہ کا ذکر اپنے قصیدہ میں کرتا ہے جو قصیدہ کہ سبعہ معلقہ میں بہتر قصیدہ مانا گیا ہے.
مولانا عبد الرؤوف جھنڈا نگری مرحوم لکھتے ہیں :
"ان واقعات سے اسلاف کی بیداری اور ان کے احساس عالی کے زندہ ہونے کا ثبوت ملتا ہے اور جس سے یہ خوب معلوم ہوتا ہے کہ انہیں جاہل کا طعنہ حد درجہ ناگوار خاطر تھا، ان کا ایک جزئی مسئلہ میں غلطی کرنا اس امر کے لئے باعث ہوتا ہے کہ وہ ایک دفترِ عظیم اس کی تحقیق میں چھوڑ گئے اور انکشاف حقیقت کی خاطر سارا بیابان، قبیلہ قبیلہ چھانتے پھرے اور یہی حال دور جاہلیت کی بھی تھا".
تفصیل کے لیے دیکھو [العلم والعلماء ص/ 58-59]

No comments:

Post a Comment

جھوٹ ‏بولنے ‏والے ‏کا ‏منہ ‏کالا ‏ہو

اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین .......  ‏شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...