Thursday, September 12, 2019

علم اور کسب معاش

[ علم اور معاش]
............
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
..................
اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ ہم علم دین پڑھ کر مالدار بن جائیں گے تو میں کہوں گا آپ کا یہ خیال خام اور زعم باطل ہے، اس لئے کہ حدیث کی پڑھائی"فقیری پڑھائی یا فقیروں کی پڑھائی" ہے،جیساکہ ہمارے بعض سلف(غالباً یہ عبد اللہ بن مبارک کا قول ہے)نے کہا ہے:"علم الحديث صنعة المفاليس" - "علم حدیث پڑھنا مفلسوں کا کام ہے".
لیکن یہ وہ فقیری ہے جس میں بادشاہی چھپی ہوئی ہے،صرف دو مثالیں پیش کرتا ہوں. (ان شاء اللہ کبھی الگ سے اس پر لکھو گا) :
1-بکر بن منیر بیان کرتے ہیں کہ بخارا کے گورنر ابوالہیثم خالد بن احمد ذہلی نے امام بخاری کو پیغام بھیجا کہ آپ "الجامع الصحيح، التاريخ الكبير" اور اپنی دیگر کتب لے کر حرمِ شاہی میں آئیں اور یہاں درس دیں تاکہ میں بھی آپ سے استفادہ کر سکوں، آپ نے گورنر کے ایلچی کے ہاتھ یہ جواب کہلا بھیجا کہ میں علم دین کی ناقدری نہیں کر سکتا کہ اسے اٹھا کر لوگوں کے دروازوں کا طواف کرتا پھروں، اگر تم علم دین سیکھنا چاہتے ہو تو میری مسجد یا گھر آجاؤ، میں علم دین کو چھپا کر نہیں رکھتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے:
"من سئل عن علم فكتمه ألجم بلجام من نار يوم القيامة" - "جس شخص سے دین کا کوئی مسئلہ پوچھا گیا لیکن اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام ڈالی جائے گی"
اگر تمہیں میرا یہ انداز ناگوار محسوس ہو تو تم حاکمِ وقت ہو، تمہارے ہاتھ میں اقتدار کی طاقت ہے، میری درس گاہ کو بند کر دو تاکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں میرے پاس عذر موجود ہو" [سير أعلام النبلاء 464/12]
2-خلیفہ ہارون الرشید کے ساتھ مقام رقہ میں ملکہ زبیدہ بھی موجود تھی اتفاق سے حضرت عبد اللہ بن مبارک کی تشریف آوری رقہ میں ہوئی، امام کی آمد پر ایک شور وغل کی آواز بلند ہوئی، ملکہ زبیدہ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ حافظ الحدیث عبد اللہ بن مبارک رقہ میں آرہے ہیں، اہل شہر ان کے استقبال میں بھاگ دوڑ رہے ہیں، ملکہ نے کہا :هذا والله الملك - اللہ کی قسم بادشاہ تو ان کو کہتے ہیں، ان کے سامنے ہارون کی بادشاہت ہیچ ہے، کیونکہ امام کی تکریم وتعظیم میں آدمی بے تابی اور اشتیاق سے دوڑ رہا ہے اور ہارون کی آمد پر آدمی صرف پولیس و حکام کے ڈر سے آتے ہیں. [طبقات ابن سعد، العلم والعلماء ص/50].
بہرے حال علم دین کے ساتھ بھی وجہ معاش مل سکتا ہے اگر عالم کو حسب منشا کوئی مدرسہ، کوئی ادارہ نہ ملے تو اپنی تجارت، صنعت وحرفت اور مختلف پیشوں میں لگ کر اپنی زندگی اچھی طرح گزار سکتا ہے، چنانچہ علماء سلف اس طرح زندگی گزاری ہے، چند مثالیں ملاحظہ کیجئے:
1-امام بخاری کے کاتب اور خادم محمد بن ابی حاتم کہتے ہیں کہ امام بخاری کی کچھ زمین تھی، آپ اسے سات سو درہم سالانہ کے عوض ٹھیکے پر دیتے تھے. [سير أعلام النبلاء 449/12].
محمد بن ابی حاتم کہتے ہیں ایک دن امام بخاری بڑی بے تکلفی سے کہنے لگے :ابو جعفر! ہمیں سال بھر کے اخراجات کے لئے بہت زیادہ رقم درکار ہے، میں نے پوچھا :کتنی؟ فرمایا :مجھے سال بھر میں چار پانچ ہزار درہم درکار ہیں[سير أعلام النبلاء 450/12]
2-پندرہویں صدی ہجری کے مجدد، محدث عصر، فقیہ ملت شیخ علامہ ناصر الدین البانی کا تو آپ نے نام سنا ہی ہوگا، تقریباً بائیس سال کے عمر میں انہیں ان کے والد نے ان کے گھر اور دکان سے نکال دیا تھا، کسی سے قرض لے کر انہوں نے ایک دکان کرائے پر لی اور گھڑی سازی کا کام الگ کرنے لگے، تھوڑی سی زمین سستی قیمت پر خرید لی اور اسی پر اپنا گھر بھی بنا لیا اور دکان بھی کھول لی.[مجموعہ مقالات عبد الحمید رحمانی 323/3].
مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری حفظہ اللہ شیخ ناصر الدین البانی کے متعلق لکھتے ہیں:
"تین سال کی بھرپور اور ناقابل فراموش خدمات کے بعد شیخ(مدینہ یونیورسٹی چھوڑ کر) دمشق واپس جا رہے تھے، ہم لوگ رخصت کرنے گئے، وہی مانوس، ومبتسم چہرہ، حزن وملال اور فکر مآل کا کوئی اثر نہیں، پوچھا واپس پہنچ کر کیا کریں گے؟ فرمایا :"وہی جو یہاں آنے سے پہلے کرتا تھا، آنے سے پہلے کیا کرتے تھے؟ فرمایا :گھڑی کی میری ایک چھوٹی دکان ہے، سویرے پہنچ جاتا ہوں، دو تین گھڑیاں آجاتی ہیں تو مرمت کرکے پیسے گھر بھیج دیتا ہوں اور دمشق کی مشہور زمانہ مخطوطات کی لائبریری "مکتبہ ظاہریہ" کا رخ کرتا ہوں".
ہمیں یاد آیا کہ جامعہ آنے سے پہلے آپ کی مؤلفات میں آپ کے نام کے ساتھ" الساعاتی"لکھا رہتا تھا، یعنی گھڑی ساز(ساز کہاں، صرف مرمت اور درست کرنے والے)".
مولانا اعظمی عمری صاحب اس پر تعلیق چڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
"جامعہ اسلامیہ میں جن لوگوں نے شیخ کی زندگی یکھی، وہ سوچ بھی نہیں سکتے، وسیع وعریض مکان کے مکین، چمچماتی کار کے مالک ومسافر، ضرورت مند طلبہ کے مادی اور علمی معاون ومددگار، سب چھوڑ چھاڑ کر بازار دمشق کی ایک گمنام دکان میں گھڑی مرمت کرکے آل واولاد کو روزگار میسر کرنے جارے ہیں، توکل واستغنا کی شان زبان وبیان سے نہیں چہرے مہرے سے بھی عیاں تھی.
جامعہ چھوڑنے کے اندرونی اسباب کچھ بھی رہے ہوں، اخباروں نے اشاروں میں لکھا :
"أنه خالف الإمام أحمد وشيخ الإسلام ابن تيمية في ثلاثين مسئلة" - "انہوں نے امام احمد اور شیخ الاسلام سے تیس مسائل میں اختلاف کیا".
3-حافظ محمد بن حارث جن کی فن تاریخ میں کئی کتابیں ہیں وہ مفلس اس قدر تھے کہ دکان میں تیل فروخت کرکے گذر بسر کرتے تھے[تذكرة الحفاظ 209/3].
4-علامہ عبد اللہ بن سادہ اپنے زمانہ کے مشہور ذی علم بزرگ تھے، اشبیلہ میں جلد سازی کرکے کے گزر کے اوقات کرتے تھے. [الفلاكة والمفلوكون،العلم والعلماء ص/41].
5-امام ابوبکر (سکاف) موچی تھے.
6-شمس الائمہ حلوائی تھے.
7-محمد بن سیرین بزاز تھے.
7-ایوب سختیانی سوداگر تھے.
8-مالک بن دینار کاغذ فروش تھے.
9-زاہد مجمع جامہ باف تھے.
10-حسن ربیع بواری(امام بخاری کے استاد) ٹاٹ بنتے تھے.
11-امام ابن الجوزی ٹھٹھیر تھے. [دیکھو العلم والعلماء ص/42،ندوہ ماہ ستمبر 1911].
13-قاضی ابو اسماعيل یوسف حسین خان پوری [ت:1933ء]خوش نویس تھے، عربی، فارسی ،اردو کا خط نہایت عمدہ تھا بلکہ انگریزی بھی خوبصورت اسلوب میں لکھتے تھے، قیام دہلی کے زمانے میں یہی ان کا ذریعہ معاش تھا، فراخ حوصلہ اور سخی اور دل والے تھے، جو کچھ کماتے، ضرورت مندوں اور دوستوں پر خرچ کر دیتے، دہلی کے کرزن پریس میں عرصہ تک اردو کی کتابت ان کا مشغلہ رہا، قرآن مجید اور کتب حدیث کی تصحیح بھی کرتے رہے، صحیح بخاری کا ایک نسخہ جو مجتبائی پریس دہلی میں چھپا، انہی کا کتابت شدہ تھا، ان کے وطن خان پور میں وہاں کے راجگان کے گھر ایک معری قرآن مجید ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا موجود تھا.
اعلام الموقعين (عربی) مطبوعہ انصاری پریس دہلی ان کے قلم اعجاز رقم کا بہترین نمونہ کتابت ہے، یہ بہت بڑا ہنر تھا جو اللہ کی مہربانی سے انہیں عطا ہوا تھا.
وہ قطب زماں ٹھہرے عطار تھے جو
بنے مرجع خلق نجار تھے جو
14-مولانا عبد الرؤوف جھنڈا نگری مرحوم نے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے لکھا ہے :
"مناسب ہے کہ وہ طلبائے کرام جو کبھی علما کا خطاب پائیں گے اگر غریب ہیں تو اپنے اسلاف کی طرح مختلف پیشہ اختیار کرکے گزر بسر کریں اور ہر گز در در کی گدائی، شہر شہر بھیک مانگنا اپنا شغل نہ کریں، الحذر ثم الحذر.
اور اگر مالدار ہیں تو ان کی اپنی اوسط درجہ کی آمدنی خود کافی ہے اور ہر حالت میں علمی سلسلہ ترک نہ کریں. [العلم والعلما ص /42].
15-مولانا وحیدالدین خاں ایک جگہ"خود کفیل زندگی" کے متعلق لکھا ہے :
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گناہوں میں کچهہ گناه ایسے ہیں جن کو نماز اور روزه اور حج اور عمره دور نہیں کرتے ان کو دور کرنے والی چیز معاش کے حصول کی فکر کرنا ہے-(رواه ابن عساکر و ابو نعیم فی الحلیتہ)
اس حدیث میں گناه سے مراد وه نفسیاتی کمزوریاں ہیں جو اکثر معاشی ذرائع کی کمی کی وجہ سے پیدا هوتی ہیں- مثلا بخل، حسد، تنگ ظرفی، وعده خلافی وغیره- انسانوں میں بعض ایسے بهی هوتے ہیں جو حالات سے بے نیاز هو کر اعلی اخلاق کا ثبوت دے سکیں- مگر ایسے لوگ ہمیشہ بہت کم پائے گئے ہیں- بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ مال ان کے لئے اخلاقی مدد گار کی حیثیت رکهتا ہے- اگر ان کے پاس مال هو تو وه فیاضی کا ثبوت دیں گے اور اپنی مالی ذمہ داریوں کو بخوبی طور پر ادا کریں گے- لیکن اگر وه مال سے خالی هو جائیں تو ان کا دل چهوٹا هو جاتا ہے- وه تعلقات میں اعلی ظرفی کا ثبوت نہیں دے پاتے- ان کے ذمہ لوگوں کے جو مالی حقوق هوں ان کی ادائگی میں ان سے کوتاہیاں سرزد هوتی ہیں-
کوئی شخص اپنے اندر اس قسم کی کمی پائے تو وه روزه اور نماز کی زیادتی سے اس کو ختم نہیں کر سکتا- ایک شخص جو مالی مشکلات سے دوچار هو اس کے اندر چڑچڑا پن پیدا هو جاتا ہے- چڑچڑا پن ایک ایسی اخلاقی کمزوری ہے جو بہت سی دوسری اخلاقی کمزوریوں کو جنم دیتی ہے- اس لئے جب آدمی اپنے اندر اس قسم کی کیفیت محسوس کرے تو اس کو چاہئے کہ اللہ کے بهروسہ پر معاش کے حصول کی جدوجہد میں لگ جائے-
معاشی فراغت حاصل هوتے ہی اس کا چڑچڑا پن خود بخود ختم هو جائے گا-اسی طرح جو شخص مالی مشکلات میں مبتلا هو اس کے اندر پست ہمتی آجاتی ہے اور پست ہمتی بہت سی دوسری خرابیاں پیدا کرتی ہے- اس لئے جب آدمی اپنے اندر اس قسم کی علامت دیکهے تو اس کو چاہئے کہ معاش کی جدوجہد میں اپنی سرگرمیوں کو تیز کر دے- معاش کے حصول کے بعد خود بخود ایسا هو گا کہ اس کا پستی کا مزاج جاتا رہے گا- اسی طرح جو شخص مال کی کمی کے مسئلہ سے دوچار هو اس کے اندر " دینے " سے زیاده "لینے" کا مزاج پیدا هو جاتا ہے جو بہت سی دوسری خرابیوں کو اپنے ساتھ لاتا ہے- اس لئے جو شخص اپنے اندر اس قسم کی کمزوری دیکهے وه اپنے کو اس قابل بنانے کی کوشش شروع کر دے کہ وه لوگوں سے لئے بغیر اپنی ضرورت پوری کر سکے-جب ایسا هو گا تو خود بخود اس کی اصلاح هو جائے گی"-[مطالعہ حدیث /مولانا وحیدالدین خاں]
16-معاشی مسئلے کی اہمیت امام شاہ ولی اللہؒ کے نزدیک
امام ولی اللہ دہلویؒ معاشی زندگی کے پہلو کو خاص اہمیت دیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب تک انسان کهانے پینے کی فکروں سے آزاد نہ ہوجائے، وہ شائستگی کی ایک منزل سے دوسری منزل ترقی کر ہی نہیں سکتا، اور اگر وہ ان تفکرات میں پهنسا رہے تو اس کی طبعی ترقی رک جاتی ہے، چنانچہ امام دہلویؒ" بدور بازغہ" میں فرماتے ہیں کہ..:
"انسان شائستگی کے دوسرے درجے تک اسی صورت میں ترقی کرسکتاہے، جب وه بهوک پیاس اور تسکین جذبہ جنسی ، وغیرہ طبعی حاجتوں سے فارغ البال ہوجائے".

No comments:

Post a Comment

جھوٹ ‏بولنے ‏والے ‏کا ‏منہ ‏کالا ‏ہو

اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین .......  ‏شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...