📍جلدی نہ کریں❗
..........................................
✍ عبيد الله الباقي أسلم
..........................................
علم کی راہ جس قدر پُر پیچ اور خاردار ہے، اسی قدر اس کا ذائقہ مزیدار، اور اور اس کے پھولوں کی مہک شاندار ہے.
یقیناً علم کی راہ لا متناہی ہے؛ جس کے طویل سفر میں متعدد موڑ سے گزرنا پڑتا ہے؛ جہاں مسافروں کی اکثریت بھٹک جاتی ہے، مگر جو لوگ صبر و تحمل، اور استقامت و ثبات قدمی جیسے توشے کے ساتھ اس مبارک سفر کا آغاز کرتے ہیں؛ انہیں کے لئے یہ نبوی بشارت ہے:"وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا؛ سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ"(صحيح مسلم[2699]).
علمی سفر کی طبیعت کو عجلت پسندیدی گوارہ نہیں ہے، کیونکہ جلد بازی نہ کسی مسئلے کا حل ہے، اور نہ ہی اس سے کسی مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے، مگر آج بد قسمتی سے عجلت پسندی کی بیماری میں ایک بڑا گروہ مبتلا ہو چکا ہے...جو کسی بھی مسئلے پر اپنی رائے کا اظہار کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، چوراہا ہو بازار، دکان ہو بیٹھک ہر جگہ اور ہر وقت ان کے ساتھ فتاوے کی لائبریری ہوا کرتی ہے، کسی بھی موقع پر ان کی زبان سے فتاوے صادر ہو سکتے ہیں، ایسے لوگوں کو بسا اوقات ان مسائل پر بھی زبان کھولنے سے گھبراہٹ نہیں ہوتی ہے؛ جن سے بڑے بڑے آئمہ سلف نے "لا أدري" کہہ کر اپنا دامن جھاڑ لیا ہے.
اسی جلد بازی کی بھٹی میں جل کر متعدد تکفیری فرقے وجود میں آنے لگے ہیں، جن کی وجہ سے دلائل و مسائل، اور اصول و ضوابط کی دھجیاں اڑائی جانے لگی ہیں...نتیجتاً ان کے نزدیک اب نہ کتاب و سنت کا وقار باقی رہا، اور نہ ہی آئمہ سلف کی سمجھ کی کوئی قدر...
موجودہ حالات کے تناظر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر سچ مچ امت کے لئے خیر خواہی مطلوب ہے، کسی مسئلہ کو حل کر کے قوم پر احسان کرنے کا اردہ ہے؛ تو پہلے علمی ساخت مضبوط کی جائے؛ جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ - رحمہ اللہ- فرماتے ہیں:"أن النفس لها قوتان: قوة علمية نظرية، وقوة إرادية عملية؛فلا بد لها من كمال القوتين لمعرفة الله وعبادته(مجموع الفتاوى:٩/١٣٦)، لہذا اللہ یا اس کی عبادت کی صحیح معرفت صرف دلائل و مسائل، اور شرعی اصول و ضوابط میں پختگی حاصل کرنے ہی سے ممکن ہے.
اس ضمن میں امام ابن القیم - رحمہ اللہ - فرماتے ہیں:"إن الكمال أن يكون الإنسان كاملا في نفسه، ومكملا لغيره، وكماله بإصلاح قوتيه العلمية والعملية، فصلاح القوة العلمية بالإيمان، والقوة العملية بعمل الصالحات..."(مفتاح دار السعادة:١/٥٦)، سو اگر راہ علم میں کمال مطلوب ہے، تو ضروری ہے کہ عقائد توحید کی مبادئیات، اور اعمال صالحہ کے اصولوں سے خود کو آراستہ کیا جائے ...تبھی کسی کی ذات خود اپنے لئے اور دوسروں کے لئے مفید بن سکتی ہے.
علمی میدان میں اتقان و مضبوطی کی خواہش، ایک الگ پہچان، اور نمایاں حیثیت قائم کرنے کی چاہت کا ایک ہی گُر ہے کہ ہم کسی بھی مسئلے پر " *جلدی نہ کریں* "، کیونکہ صحیح نتیجہ جلد بازی سے نہیں نکل سکتا ہے، بلکہ اس سے بسا اوقات کام خراب ہوجاتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں ایک طرف کسی بھی امر میں یہ کہہ کر اتقان و پختگی، اور دوام و استمراریت کی ترغیب دی ہے:"أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ"(صحيح البخاري[6464] وصحيح مسلم[783])، تو دوسری طرف عجلت پسندی و جلد بازی سے منع فرمایا ہے:"التَّأنِّي من الله والعجلة من الشَّيطان"(سنن البيهقي [20767]).
ان ارشادات نبویہ کو سامنے رکھا جائے، اور اسلاف کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے؛ تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ انہوں نے کس طرح سے راہ علم کے خاروں کو صبر و تحمل کے پھولوں سے بدل دیا؛ ایک ایک حدیث کے لئے سینکڑوں میلوں کا سفر طئے کیا، چنانچہ جابر بن عبداللہ - رضی اللہ عنہ- کے بارے میں یہ باثت ہے کہ انہوں نے مدینہ منورہ سے مصر کی طرف صرف ایک حدیث نبوی کی خاطر سفر کیا تھا(الأدب المفرد، ص:287)، ایسی سینکڑوں مثالوں سے سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں.
چنانچہ امام مالک -رحمہ اللہ- فرماتے ہیں:"میں دس سالوں سے ایک مسئلہ پر غور کر رہا ہوں؛ مگر ابھی تک اس پر میری کوئی رائی قائم نہ ہو سکی"(ترتیب المبارك:1/187).
امام احمد - رحمہ اللہ- فرماتے ہیں :"کسی مسئلے پر کوئی اعتقاد قائم کرنے قبل بسا اوقات میں نے تیس سالوں تک توقف اختیار کیا"(مناقب الإمام أحمد بن حنبل، ص:269).
امام مزنی - رحمہ اللہ- اپنی کتاب" مختصر" کے بارے میں فرماتے کہ :"میں اس کتاب کی تالیف میں بیس سالوں تک لگا رہا، آٹھ مرتبہ اس کی تالیف کی، پھر اسے بدل دیا، اور جب جب میں تالیف کا ارادہ کرتا تھا؛ تو اس سے پہلے تین دن روزہ رکھتا، اور اتنی اتنی رکعتیں نماز ادا کرتا...(المجموع:1/107).
یہ ہے حصول علم کے ساتھ ہمارے اسلاف کا تعامل، ایسے بے شمار نمونے سیرت و تاریخ کی کتابوں کے زینت بنے ہوئے ہیں؛ جو یقیناً علم کے متلاشیوں اور عقیدہ سلف کے پروانوں کے لئے مشعل راہ ہیں؛ لہذا راہ علم کے حقوق کو سمجھنا، حفظ، مذاکرہ، قراءة، جرد المطولات ، اور کتابت جیسے حصول علم کے اہم ارکان کو علمی و عملی میدان میں نافذ کرنا ضروری ہے.
راہ علم میں پختگی حاصل کرنے کے چند اہم طریقہ کار یہ ہیں:
1- صحیح مہنج پر علم حاصل کیا جائے
2- تخصص کا مزاج بنایا جائے
3- اصحاب علم ہی سے علم حاصل کیا جائے
4- صرف مبادئیات پر اکتفا نہ کیا جائے
5- مطلوبہ علم کے دقیق مسائل و جزئیات پر نگاہ رکھی جائے
6- اصول و مبادئیات، اور اہم ترین مسائل پر ترکیز کی جائے
7- مطلوبہ علم سے لگاؤ مستحکم ہو
8- صبر و تحمل کا التزام، اور نتائج میں جلد بازی ہر گز نہ کی جائے
9- بحث و تحقيق پر مدوامت برقرار رہے
10- حصول علم کے لئے منصوبہ بندی کا اہتمام کیا جائے
یہ چند ایسے اصول ہیں؛ جنہیں اپنا کر میدان علم میں ایک الگ پہچان بنائی جا سکتی ہے.
اللهم ارزقنا علماً نافعاً، و رزقاً طيباً، وعملاً متقبلاً.
نوٹ: یہ مضمون "الإبداع العلمي" نامی کتاب سے مستفاد ہے.
Friday, September 13, 2019
جلدی نہ کریں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
جھوٹ بولنے والے کا منہ کالا ہو
اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین ....... شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...
-
[قرآن کریم میں وارد"فتیل"-"نقیر"-اور"قطمیر"کا معنی] کل شام کی بات ہے ایک بھائی نے مجھ سے"نقیر"...
-
صفة اليدين : [ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں،اللہ تعالی کی یہ ایک ذاتی صفت ہے ]: اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَان﴾[...
-
[تصنيف وتالیف کی اہمیت اور اس میں اہل علم کا منہج] : .............. 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین ............. 1 -اما...
No comments:
Post a Comment