صفة اليدين: [اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں،اللہ تعالی
کی یہ ایک ذاتی صفت ہے]:
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَان﴾[المائدة: 64]-"اللہ تعالی کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں"۔نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:«يَمِينُ الله مَلْأى لا يَغِيضُها نَفَقَة
سحَّاء اللَّيل والنَّهار»إلى قوله:«بِيَدِه الأُخْرى الميزانُ ويَخْفِض ويَرْفَعُ»[
البخاري (7411) ،ومسلم (993)]-" اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے،اسے
رات دن کی بخشش بھی کم نہیں کرتی۔۔۔اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے،جسے جھکاتا
اور اٹھاتا رہتا ہے"۔
اس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے فی الحقیقت دو ہاتھ ہیں،لیکن مخلوق کے مشابہ نہیں اس لئے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:﴿لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير﴾ [الشورى: 11]اس جیسی کوئی چیز نہیں نہ ذات میں اور نہ صفات میں اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔یہی سلف صالحین اور ائمہ کرام کا مذہب ہے۔اللہ کے ہاتھوں کی تاویل قدرت،یانعمت یا احسان سے کرنا جیسا کہ بعض گمراہ فرقے کرتے ہیں درست نہیں،نیز یہ آیت ان کا دندان شکن جواب ہے یہاں پر ذکر کردہ تینوں تاویلات میں کوئی بھی تاویل قطعی طور پر مستقیم نہیں ہوسکتی۔
کیا اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں؟:
آپ مندرجہ ذیل احادیث پر غور کیجئے:
1-اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:«كِلْتَا يَدَيْهِ يمينٌ»[حديث صحيح، أخرجه أحمد 2/ 160، ومسلم (1827)، والنسائي8/ 221، والبيهقي في"الأسماء والصفات"ص: 324 من حديث عبد الله بن عمرو رفعه]-"اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں"۔اس حدیث میں دونوں ہاتھ کو دایاں کہا گیا ہے۔2-اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:«يطوي الله عَزَّ وجَلَّ السماوات يوم القيامة،ثم يأخذهن بيده اليمنى،ثم يقول:أنا الملك! أين الجبارون؟أين المتكبرون؟ ثم يطوي الأرضين بشماله ثم يقول:أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟»[مسلم في"صحيحه" (2788)]-"اللہ تعالی قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹ لے گا،اور ان کو داہنے ہاتھ میں لے لے گا پھر فرمائے گا:میں بادشاہ ہوں کہاں ہے زور والے؟کہاں ہے غرور کرنے والے؟پھر بائیں ہاتھ سے زمین کو لپیٹ لے گا۔[جو داہنے کے مثل ہے،اسی وجہ سے دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں]پھر فرمائے گا :میں بادشاہ ہوں کہاں ہے زور والے؟کہاں ہے غرور کرنے والے؟"۔اس حدیث میں اللہ تعالی کے ایک ہاتھ دایاں اور دوسرے کو بایاں کہا گیا ہے۔
3- اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:«يَمِينُ الله مَلْأى لا يَغِيضُها نَفَقَة سحَّاء اللَّيل والنَّهار»إلى قوله: «بِيَدِه الأُخْرى الميزانُ ويَخْفِض ويَرْفَعُ» [ البخاري (7411) ،ومسلم (993)]-"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے،اسے رات دن کی بخشش بھی کم نہیں کرتی۔۔۔اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے،جسے جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے"۔
جبکہ اس حدیث میں ایک
ہاتھ کو داہنا کہا گیا ہے جبکہ دوسرے ہاتھ
کو شمال یعنی بایاں کہنے کے بجائے"بِيَدِه الأُخْرى"کہا
گیا ہے۔
اس سلسلے میں علما کے
مختلف آرا ہیں:
پہلا قول:
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے دوہاتھ ہیں ایک داہنا اور دوسرا بایاں۔یہ قول امام دارمی،ابویعلی،محمد بن عبد الوہاب،نواب صدیق حسن خاں،محمد خلیل ہراس اور عبداللہ الغنیمان وغیرہم کا ہے۔ان کی دلیل مسلم شریف کی حدیث ہے۔
دوسرا قول:
کچھ علما کہتے ہیں اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں اور دونوں داہنا ہاتھ ہیں۔ان کی دلیل وہ احادیث ہیں جس میں کہا گیا
ہے کہ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔
یہ قول امام ابن خزیمہ،امام احمد،بیہقی اور البانی وغیرہم کا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں،جیساکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:«كِلْتَا يَدَيْهِ يمينٌ»[حديث صحيح، أخرجه أحمد 2/ 160، ومسلم (1827)، والنسائي8/ 221، والبيهقي في"الأسماء والصفات"ص: 324 من حديث عبد الله بن عمرو رفعه]-"اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں"۔
اس سے اللہ تعالی کے اس قول کی تاکید ہوتی ہے:﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ﴾-لہذا اللہ کے رسول کا یہ کہنا کہ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں اس سے تنزیہ کی تاکید مقصود ہے،کہ اللہ کا ہاتھ انسان کے ہاتھ کی طرح نہیں ہے چونکہ انسان کا ایک ہاتھ دایاں اوردوسرا بایاں ہوتا ہے،جبکہ اللہ تعالی کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔
اور جس حدیث میں"بشماله"کا ذکر آیا ہے وہ شاذ ہے،ابوداود میں یہی حدیث موجود ہے لیکن اس
میں" الشِّمال"کی جگہ" بيده الأخرى"کے الفاظ آئے ہیں۔
رہی یہ حدیث:«فقال للتي في يَمِينه:إلى الجنة ولا أبالي،وقال للتي في
يساره:إلى النار ولا أبالي» [رواه:عبد الله ابن الإمام أحمد في "السنة"(1059)
،والبزار في ((مسنده)) (2144-كشف)،وقال: ((إسناده حسن))
اسی حدیث کو امام احمد نے مسند (6/441)میں اور ابن عساکر نے"تاریخ دمشق"میں اس حدیث کو روایت کیا ہے۔جیساکہ البانی نے ((الصحيحة)) (49)میں کہا
ہے۔ان دونوں میں مذکورہ روایت اس طرح آیاہے: «وقال للذي في كتفه اليسرى إلى النار ولا أبالي»یہاں«كتفه» میں
جوضمیر ہے اس کا مرجع اللہ سبحانہ وتعالی نہیں بلکہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔
میری رائی:
مذکورہ وضاحت کے بعد میری رائی میں اللہ سبحانہ وتعالی کی شان تعظیم وتوقیربجالاتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھوں کو داہنا کہنا زیادہ بہتر اورنص کے موافق ہے،اور اس لئے بھی کہ جب بایاں کہتے ہیں تو اس میں ضعف اور نقص کا شائبہ پایا جاتا ہے۔اور اس سے اللہ تعالی بلند وبالا ہے۔
اس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے فی الحقیقت دو ہاتھ ہیں،لیکن مخلوق کے مشابہ نہیں اس لئے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:﴿لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير﴾ [الشورى: 11]اس جیسی کوئی چیز نہیں نہ ذات میں اور نہ صفات میں اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔یہی سلف صالحین اور ائمہ کرام کا مذہب ہے۔اللہ کے ہاتھوں کی تاویل قدرت،یانعمت یا احسان سے کرنا جیسا کہ بعض گمراہ فرقے کرتے ہیں درست نہیں،نیز یہ آیت ان کا دندان شکن جواب ہے یہاں پر ذکر کردہ تینوں تاویلات میں کوئی بھی تاویل قطعی طور پر مستقیم نہیں ہوسکتی۔
کیا اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں؟:
آپ مندرجہ ذیل احادیث پر غور کیجئے:
1-اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:«كِلْتَا يَدَيْهِ يمينٌ»[حديث صحيح، أخرجه أحمد 2/ 160، ومسلم (1827)، والنسائي8/ 221، والبيهقي في"الأسماء والصفات"ص: 324 من حديث عبد الله بن عمرو رفعه]-"اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں"۔اس حدیث میں دونوں ہاتھ کو دایاں کہا گیا ہے۔2-اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:«يطوي الله عَزَّ وجَلَّ السماوات يوم القيامة،ثم يأخذهن بيده اليمنى،ثم يقول:أنا الملك! أين الجبارون؟أين المتكبرون؟ ثم يطوي الأرضين بشماله ثم يقول:أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟»[مسلم في"صحيحه" (2788)]-"اللہ تعالی قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹ لے گا،اور ان کو داہنے ہاتھ میں لے لے گا پھر فرمائے گا:میں بادشاہ ہوں کہاں ہے زور والے؟کہاں ہے غرور کرنے والے؟پھر بائیں ہاتھ سے زمین کو لپیٹ لے گا۔[جو داہنے کے مثل ہے،اسی وجہ سے دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں]پھر فرمائے گا :میں بادشاہ ہوں کہاں ہے زور والے؟کہاں ہے غرور کرنے والے؟"۔اس حدیث میں اللہ تعالی کے ایک ہاتھ دایاں اور دوسرے کو بایاں کہا گیا ہے۔
3- اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:«يَمِينُ الله مَلْأى لا يَغِيضُها نَفَقَة سحَّاء اللَّيل والنَّهار»إلى قوله: «بِيَدِه الأُخْرى الميزانُ ويَخْفِض ويَرْفَعُ» [ البخاري (7411) ،ومسلم (993)]-"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے،اسے رات دن کی بخشش بھی کم نہیں کرتی۔۔۔اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے،جسے جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے"۔
پہلا قول:
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے دوہاتھ ہیں ایک داہنا اور دوسرا بایاں۔یہ قول امام دارمی،ابویعلی،محمد بن عبد الوہاب،نواب صدیق حسن خاں،محمد خلیل ہراس اور عبداللہ الغنیمان وغیرہم کا ہے۔ان کی دلیل مسلم شریف کی حدیث ہے۔
دوسرا قول:
یہ قول امام ابن خزیمہ،امام احمد،بیہقی اور البانی وغیرہم کا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں،جیساکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:«كِلْتَا يَدَيْهِ يمينٌ»[حديث صحيح، أخرجه أحمد 2/ 160، ومسلم (1827)، والنسائي8/ 221، والبيهقي في"الأسماء والصفات"ص: 324 من حديث عبد الله بن عمرو رفعه]-"اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں"۔
اس سے اللہ تعالی کے اس قول کی تاکید ہوتی ہے:﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ﴾-لہذا اللہ کے رسول کا یہ کہنا کہ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں اس سے تنزیہ کی تاکید مقصود ہے،کہ اللہ کا ہاتھ انسان کے ہاتھ کی طرح نہیں ہے چونکہ انسان کا ایک ہاتھ دایاں اوردوسرا بایاں ہوتا ہے،جبکہ اللہ تعالی کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔
مذکورہ وضاحت کے بعد میری رائی میں اللہ سبحانہ وتعالی کی شان تعظیم وتوقیربجالاتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھوں کو داہنا کہنا زیادہ بہتر اورنص کے موافق ہے،اور اس لئے بھی کہ جب بایاں کہتے ہیں تو اس میں ضعف اور نقص کا شائبہ پایا جاتا ہے۔اور اس سے اللہ تعالی بلند وبالا ہے۔
No comments:
Post a Comment