کچھ دنوں سے میں نے مضمون
لکھنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا،آج ان مضامین کی تعداد کئی درجن تک پہنچ چکی ہے،جو
تقریبا آٹھ سو صفحات پر پھیل چکے ہیں،جس کے لئےمیں اللہ تعالی کا بے حد شکر گذار ہوں۔
لوگوں کا رد عمل:
میرے مضامین پڑھ کر کئی لوگوں
نے فون کر کے میری حوصلہ افزائی کی تو کئی لوگوں نے مسیج کرکے دعائیں دی جبکہ وہیں
کچھ لوگوں نے مجھے ملکۂ وکٹوریہ کی اولاد بھی کہا اور یہ بھی لکھا کہ میں پاگل
ہوں(سب کے تاثرات میں نے سنبھال کر رکھے ہیں)۔
مجھے
یہ مضامین لکھنے کا خیال کیسے آیا؟:
چند ماہ قبل گرمی کی چھٹی گھر پے گذار رہا تھا،ایک دن اسحاق بھٹی رحمہ اللہ
کی کتاب"قافلۂ حدیث" کا مطالعہ کر رہا تھا،میں سید امیر علی کی حالت
زندگی پڑھ رہا تھا اس کتاب کے مندرجہ ذیل
پیراگراف نے مجھے بہت متاثر کیا:
"سید امیر علی رحمہ اللہ کسی کے حق میں زبان نہیں کھولتے تھے۔لیکن ایک دن﴿يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ
يُحْسِنُونَ صُنْعًا﴾[الكهف:104] کی تفسیر میں بے اختیار ان کی زبان سے نکل گیا"بعض
لوگوں کی حالت کس درجہ قابل رحم ہے،حدیث کی تکمیل کرکے ناول نگاری
میں عمر صرف کردی اور سمجھتے ہیں کہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں!یہ کہتے کہتے اچانک
چپ ہوگئے،شاید یاد آگیا کہ مذمت وغیبت ہورہی ہے،میں نے بالکل خلاف عادت ان کی زبان
سے یہ تصریح سن کر پوچھا:وہ کون لوگ ہیں؟دیر تک سرجھکائے بیٹھے رہے،مگر طبیعت میں
مروت بہت تھی،جواب دینا پڑا،بہت آہستہ سے کہنے لگے: عبد الحلیم شرر۔خدا انہیں معاف
کرے! میاں صاحب(یعنی مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی)سے انہوں نے میرے ساتھ حدیث
سنی۔اب ناول لکھتے ہیں!"۔
میں نے عرض کیا"حضرت کے خیال میں ناول نویسی بری بات ہے؟"فرمانے
لگے"شاید نہیں،مگر شغل حدیث،اولی واحسن ہے"[قافلۂ حدیث محمد اسحاق بھٹی
ص/۲۲]
میں سید امیر علی رحمہ اللہ کے مذکورہ الفاظ سے بہت محظوظ اور متاثر ہوا ۔اور میں نے
اپنے ارد گرد کے قلم کاروں کو دیکھا،تو مجھے اندازہ ہوا کہ لکھاڑیوں کی تعداد بہت
زیادہ ہے۔کچھ لوگ سیاست اور حالت حاضرہ پر بے لاگ تبصرہ کر رہے ہیں تو کچھ لوگ شعر
وشاعری میں فصاحت وبلاغت کا دریا بہا رہے ہیں۔جبکہ کچھ لوگ بدعات وخرافات کی اشاعت
میں پورا زور صرف کر رہے ہیں۔ وہیں
کچھ لوگ وسائل تواصل پر عریانیت کو فروغ دینے میں اپنے قلم وزبان کا بے
دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ان میں سے اکثر لوگ دینی مدارس کے فارغین ہیں۔
دینی موضوعات پر لکھنے والوں کی
تعداد بھی اچھی خاصی ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ عقیدہ کے موضوع پر لکھنے
والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے!
پھر میں نے سوچا ۔میرا تخصص تو
عقیدہ ہے۔میں بھی اگر اور لوگوں کی طرح ان چیزوں کی نشر اشاعت میں زور صرف کروں تو
بڑی ناانصافی ہوگی۔ لہذا مجھے عقیدہ پر کچھ لکھنا چاہئے،پھر بسملہ کہہ کر قلم اٹھایا
اور لکھتا چلا گیا...مختلف نام اور عنوان کے تحت میں نے مضامین لکھ کر واٹس اپ اور
فیس بک پر نشر کیا۔تمام مضامین کا تعلق کسی نہ کسی ناحیہ سے عقیدہ سے ہے۔میرے جن
مضامین کا تعلق عقیدہ سے نہیں تھا اس کو مضامین کے اس مجموعہ سے ہٹا دیا ہے۔
اسلوب:
عقیدہ ایک پیچیدہ،خشک اور نہایت
نازک موضوع ہے،لہذا اس میں قدم پھونک
پھونک رکھنے پڑتے ہیں،لہذا ان مضامین میں
میرا اسلوب نہایت سادہ ہے،نہ تو ان میں
ادب کی مٹھاس ہے اور نہ ہی زبان کی چاشنی،بلکہ میں نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنے
مطالعے کا نچوڑ اور خلاصۃ الخلاصہ پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے،تاکہ قارئین
آسانی کے ساتھ ان مسائل کو سمجھ سکیں۔
مصادر ومراجع:
یقینی بات ہے کہ میں نے اپنی
طرف سے گھڑھ کر یہ باتیں پیش نہیں کی ہے،بلکہ الفاظ اور تعبیرات میرے ہیں اور مواد
میرے اساتذہ اور سلف کی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ایک ایک مضمون کی تیاری میں کئی کئی کی
کتابوں کی طرف رجوع کیا،مشکل عربی تعبیرات
ومصطلحات کو اردو میں ڈھالنے میں کافی مشقت اٹھانی پڑی،لیکن اللہ کی مدد ہر
موڑ پر شامل حال رہی(الحمد لله اولا وآخرا)۔
No comments:
Post a Comment