Thursday, September 19, 2019

طالب علم اور قرآن مجید

[بركة القرآن علی طالب العلم] :
............
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
.............
.............
1-مشہور عالم دین ضیاء المقدسی کہتے ہیں کہ میرے استاد ابراہیم المقدسی نے مجھے وصیت کرتے ہوئے کہا:"زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت كيا کر، اس لئے کہ جس قدر تم قرآن مجید کی تلاوت کروگے اسی قدر تمہیں حصول علم کے مواقع میسر آئیں گے".
ضیاء المقدسی آگے کہتے ہیں:
"میں نے اس کو برت کر دیکھا اور اس کا بہت زیادہ تجربہ بھی کیا لہذا جب بھی قرآن پڑھتا تو مجھے سماع حدیث(حدیث سننے) اور کتابت حدیث(حدیث لکھنے) کے مواقع میسر آتے لیکن جب قرآن نہیں پڑھتا تو ان سے محروم رہتا".
2-حافظ ابن حجر کہتے ہیں:
"جو شخص پابندی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے اس کی زبان اس کے لیے ہموار کردی جاتی ہے پھر قرآن کی تلاوت اس کے لیے آسان ہوجاتی ہے، لیکن جب وہ قرآن پڑھنا چھوڑ دیتا ہے تو پھر اس کے لیے قرآن پاک کی تلاوت مشکل ہوجاتی ہے".[فتح الباری : 79/9].
3-جوقرآن پڑھتا رہے، اس کی عقل سلامت رہتی ہے خواہ وہ دو سو برس کی عمر کو پہنچ جائے!
محمد بن کعب القرظی کا قول ہے :
" من قرأ القرآن مُتِّع بعقله وإن بلغ من العمر مائتي سنة". [ البداية والنهاية ٢٧٠/٩ ]
1-كان الإمام أحمد يختم القرآن في النهار في كل سبعة أيام
في كل يوم سُبعا، لا يتركه نظرًا..من الجمعة إلى الجمعة.
"المغني" لابن قدامة(٢/ ١٢٧).
2-شيخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں:
"قد طالعت التفاسير المنقولة عن الصحابة،وما رووه من الحديث،ووقفت من ذلك على ما شاء الله تعالى من الكتب الكبار والصغار أكثر من مائة تفسير،... "-
"میں نے صحابہ کی ماثور تفاسیر اور ان کی مروی احادیث کا مطالعہ کیا اور ماشاء اللہ چھوٹی بڑی سو سے زائد کتب تفسیر دیکھیں... ۔".
امام ذہبی کہتے ہیں:
"ہمارے استاد شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے سورہ نوح کی تفسیر میں کئی برس لگائے". [تاریخ اسلام 226/30]
محمد یوسف کوکن عمری لکھتے ہیں :
"اس میں واعظوں کی طرح موضوع اور جھوٹی روایتیں نہیں ہوتی تھیں، بلکہ وہ کتاب وسنت کے بیش بہا استدلالات وتوضیحات اور فقہ وتاریخ کے عجیب وغریب استشہادات سے لبریز ہوتی تھی". [امام ابن تیمیہ ص/96]
مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی لکھتے ہیں :
"شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے تجدیدی کارناموں کی سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے علمی اور اصلاحی حلقوں کی توجہ قرآن حکیم اور حدیث پاک کے مطالعہ کی طرف براہ راست موڑ دی، آپ کا یہ ایسا امتیازی وصف ہے، جو ان پانچ سات صدیوں میں بہت ہی کم کسی کے حصہ میں آیا ہوگا.
جہاں تک اندازہ ہوسکا ہے آپ نے اس کے لیے تین طریقے اختیار فرمائے:
ایک یہ کہ اپنے عہد کے جملہ مسائل (کلامی ہوں یا فقہی، معاشرتی ہوں یا اقتصادی وسیاسی) پر جو مباحث لکھے، اس میں آیات قرآنی اور احادیث نبوی کو اس کثرت سے مدار استدلال بنایا ہے کہ دوسرے مروجہ طریقہ ہائے استدلال سب ہیچ ہوگئے، اور شاید پہلی دفعہ یہ حقیقت نکھر کر سامنے آئی کہ سب ہی شعبہ ہائے زندگی میں قرآن وحدیث کی راہنمائی موجود ہے.دوسرا یہ کہ قرآن حکیم کے فہم میں جہاں متکلمین،فقہاء اور بدعتی فرقوں نے ٹھوکریں کھائیں ان مقامات کی خود تفسیر فرمائی، جس میں سب علمی وعقلی مغالطوں کے پردے چاک کر دیئے.
تیسرا یہ کہ سلف کے طریق تفسیر کی وضاحت فرمائی".[مقدمہ اصول تفسير /6]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ اپنی زندگی کے آخری ایام دمشق کے قید خانے میں گذارے ہیں، وہ قید کی حالت میں بھی تصنیف وتالیف کا شغل جاری رکھے ہوئے تھے، انہوں نے قرآن مجید کا بغور مطالعہ شروع کر دیا تھا،اس کی تفسیر اور اس کے حقائق ونکات پر بہت کچھ لکھ چکے تھے،لیکن اس کے باوجود فرمایا کرتے تھے کہ:
"قد فتح عليّ في هذا الحصن في هذه المدة من معاني القرآن... وندمت على تضييع أكثر أوقاتي في غير معاني القرآن".
"مجھ کو یہاں جتنے حقائق ونکات سمجھ میں آئے ہیں اتنے کسی اور وقت سمجھ میں نہیں آئے افسوس ہوتا ہے کہ میں نے قرآن مجید چھوڑ کر دوسرے علوم پر اپنی محنت کیوں صرف کی".[العقود الدرية ص/47]
اس بھاگ دوڑ کی زندگی میں بھی اتنی ساری علمی تصنیفات کا چھوڑ جانا شاید قرآن ہی کی برکت کی وجہ سے ان کے لیے ممکن ہوسکا ہے.
3-امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد[ت:1958ء] لکھتے ہیں:
"کامل ستائیس برس سے قرآن میرے شب وروز کے فکر ونظر کا موضوع رہا ہے، اس کی ایک ایک آیت، ایک ایک لفظ پر میں نے وادیاں قطع کی ہیں اور مرحلوں پر مرحلے طئے کئے ہیں، تفاسیر وکتب کا جتنا مطبوعہ وغیر مطبوعہ ذخیرہ موجود ہے، میں کہہ سکتا ہوں کہ اس کا بڑا حصہ میری نظر سے گزر چکا ہے، اور علوم قرآن کے مباحث ومقالات کا کوئی گوشہ نہیں جس کی طرف سے حتیٰ الوسع ذہن نے تغافل اور جستجو نے تساہل کیا ہو....اس تمام عرصے کی جستجو وطلب کے بعد، قرآن کو جیسا کچھ اور جتنا کچھ سمجھ سکا ہوں، میں نے اس کتاب کے صفحوں پر پھیلا دیا ہے". دیکھو:[ترجمان القرآن کا مقدمہ 55/1]
مولانا آزاد ان بزرگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سے قرآن کریم اور حدیث شریف کا تفقہ عطا ہوا تھا، مولانا کی زندگی کا کوئی پہلو نہیں ملتا، جس میں انہوں نے اپنی کسی تحریر میں آیات اللہ اور فرمودات رسول اللہ سے استدلال نہ فرمایا ہو، قرآنی آیتیں اور حدیث کی روایتیں ایسی صحت کے ساتھ عین موقعہ ومحل پر بیان فرماتے، جیسے خاص اسی موقع اور اسی وقت کے لیے اللہ اور نبی کی زبان سے نکلی تھیں اور یہی ان کے فہم وتفقہ کا کمال تھا جو قارئین اور سامعین کو انگشت بدنداں کردیتا تھا.
خط وکتابت ایک عام چیز ہے جس کو عموماً کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے اور اس میں بالعموم ایسی باتیں ہوتی ہیں، جو عوام کے لئے جذب وکشش اور سود ونفع کا موجب نہیں ہوتیں، لیکن مولانا آزاد نے اپنے خطوط میں بھی علم وحکمت کی گوہرفشانی کی اور اپنے اسی تفقہ قرآن وحدیث کو اس میں بھی خوب درخشاں کیا ہے.تفصیل کے لیے دیکھو:[ماہنامہ طوبی آزاد نمبر/28-29].
ان کی زندگی بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی زندگی جیسی ہے.
4-مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم [ت:1953ء]لکھتے ہیں:
"علم کلام کا شوق تمام تر مولانا شبلی کی تربیت کا نتیجہ ہے،ان کی تصنیفات پڑھیں،ان کی حوالہ دی ہوئی کتابیں دیکھیں،ملل ونحل شہرستانی اور فصل فی الملل والنحل ابن حزم نگاہوں میں رہی،ابن رشد کی کشف الادلہ اور شاہ ولی اللہ صاحب کی حجة اللہ البالغہ سب نے یکے بعد دیگرے اپنا رنگ دکھایا،بالآخر علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کی تصنیفات نے ہر نقش کو مٹا ڈالا اور ہر رنگ کو بے رنگ کردیا"۔
آگے لکھتے ہیں:
سب سے آخری جلوہ قرآن پاک کا نظر آیا، مولانا شبلی مرحوم نے اس کا آغاز کیا اور مولانا حمید الدین فراہی مرحوم کی دلچسپ ومفید صحبتوں میں یہ چسکا اور آگے بڑھتا گیا اور اسی کا یہ اثر ہوا کہ سیرت نبوی کی ہر بحث میں قرآن پاک میری عمارت کی بنیاد ہے اور حدیث نبوی اس کے نقش ونگار ہیں، اور یہی دونوں میرا سرمایہ اور یہی دونوں میرا زاد راہ ہیں، ایک اصل ہے دوسرا ظل، ایک وحی جلی ہے دوسرا وحی خفی، ایک دلیل ہے دوسرا نتیجہ، جس کو یہ ایک دو نظر آتے ہیں وہ احول ہے، لا حول ولا قوۃ الا باللہ".
[مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں ص/11-12]

5-‏قال الإمام ابن قدامة رحمه الله:
" يستحب أن يقرأ القرآن في كل سبعة أيام، ليكون له ختمة في كل أسبوع.
قال عبدالله بن أحمد: كان أبي يختم القرآن في النهار، في كل سبعة؛ يقرأ في كل يومٍ سبعا، لايتركه نظراً.
وقال حنبل: كان أبو عبدالله يختم من الجمعة إلى الجمعة".

المغني لابن قدامة ٢/ ١٢٧

No comments:

Post a Comment

جھوٹ ‏بولنے ‏والے ‏کا ‏منہ ‏کالا ‏ہو

اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین .......  ‏شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...