Friday, September 27, 2019

مختلف طریقے سے علما اور طلبا کی امداد

[مختلف طریقے سے علما اور طلبا کی امداد] :
.............
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
............
1-امام ابو حنیفہ بڑے مالدار تھے، اور شاہی عطیات قبول نہ فرماتے تھے، اپنے ریشمی کارخانہ کی وجہ سے اس قدر مالدار تھے کہ خود دوسروں پر خرچ کرتے تھے، امام ذہبی نے علامہ یافعی کے حوالے سے لکھا ہے :"ولا يقبل جوائز السلطان بل ينفق ويؤثر من كسبه".
امام نووی نے امام ابو حنیفہ کے متعلق لکھا ہے:"اپنے تمام اموال کا نفع جس قدر ہوتا تھا اسے بالعموم مشائخ اور محدثین پر آپ صرف کردیتے،اور کپڑے اور دوسری ضروریات بھی بھیج دیتے اور دینار خرچ کے لئے دیتے اور فرماتے انہیں اپنی ضروریات میں صرف کرو".
2-محمد بن ابی حاتم امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری کے بارے میں کہتے ہیں:
"... آپ صدقہ بڑی کثرت سے کرتے تھے اور طلبہ میں سے جسے تنگ دست پاتے اسے خاموشی سے بیس بیس درہم تھما دیتے، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی".
حافظ ابن حجر نے"مقدمہ فتح الباری" میں لکھا ہے کہ:
"امام بخاری کھانا بہت کم کھاتے تھے اور طلبہ سے انتہائی شفقت سے پیش آتے تھے".
امام ابن جوزی لکھتے ہیں کہ:
"امام بخاری اپنے علمی مشغلہ کے سبب اپنی دولت سے کوئی بھی تجارتی کام خود نہیں کر سکتے تھے بلکہ ایک رقم مضاربت پر لگا رکھی تھی، شریک تجارت آپ کو ایک طیے شدہ حصہ منافع سے دیا کرتا تھا، اس طرح آپ کے تمام مصارف اس سے نکلتے تھے" .
امام بخاری کے تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے:
"اور یہ رقم جو تجارت پر لگا رکھی تھی بڑی موٹی رقم تھی،امام بخاری اپنی آمدنی سے پانچ سو درہم ماہوار غریب طلبا اور محدثین پر صرف فرمایا کرتے تھے" .
3 -ایک محدث احمد بن مہدی ہیں، ان کے تذکرہ میں امام ذہبی نے لکھا ہے کہ علم وفضل کے ساتھ دولت مند بھی تھے، تین لاکھ درہم اہل علم پر آپ نے خرچ فرمایا.
4- امام عبد الوہاب ثقفی محدث ہونے کے ساتھ ساتھ مالدار بھی تھے، امام نووی نے لکھا ہے کہ :
"محدثین کرام پر پچاس ہزار نقد سالانہ صرف فرمایا کرتے تھے".
5-حضرت عبد اللہ بن مبارک علم وفضل میں شیخ الاسلام تھے آپ اہل علم کی نفیس دعوتیں کیا کرتے اور نقد عطیات کے ذریعے معقول امداد کرتے.
6-علامہ ذہبی نے لکھا ہے :
" امام لیث بن سعد بھی بہت بڑے رئیس محدث تھے،اور اپنی رقوم کو علما وفضلا پر خرچ کرتے تھے".
7-شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے بارے میں مولانا عبد الحمید سوہدروی لکھتے ہیں کہ:
"ایک روز میاں صاحب نے مجھے دو روپے دیے، میرے پاس چونکہ اپنے خرچ کے پیسے موجود تھے، اس لئے میں نے معذرت کی، اور روپے لینے سے انکار کیا لیکن انہوں نے بہ اصرار مجھے دو روپے عنایت فرمائے".
تذکرہ نگاروں نے میاں صاحب کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ :
"بارش ہو یا گرمی اور سردی طلبہ کا کھانا خود مدرسے اور مسجد میں پہنچاتے، رمضان میں سحری کے وقت بالخصوص طلبہ کے لئے بروقت کھانا پہنچانے کا اہتمام فرماتے، بارش کی حالت میں جب طلبا کو مدرسے کے دروازے پر جا کر کھانا لینا مشکل ہوتا اور مدرسے کی گلی میں گھنٹوں تک پانی کھڑا ہوجاتا،مولانا فضل حسین بہاری فرماتے ہیں کہ :" اس حالت میں، میں نے اپنے کانوں سے میاں صاحب کی آواز مدرسے کے اندر سے سنی کہ وہ گلی میں کھانا دستر خوان میں لپٹے ہوئے ہر طالب علم کا نام لیکر بار بار پکار رہے ہیں :اجی فلاں مولوی صاحب! اپنی روٹی لے لو، اجی فلاں مولوی صاحب! اپنی روٹی لے لو....".
7-نواب صديق حسن خاں بھوپالی مرحوم نے علما وطلبا کے لئے تصنیف وتالیف اور مختلف علمی موضوعات پر تحقیق کے شعبے قائم کئے، مدرسین کے لئے ان کی ضرورت اور قابلیت کے مطابق معقول مشاہرات کا اہتمام کیا اور طلبا کو ماہانہ وظائف دینے کا فیصلہ کیا.
علما وطلبا میں حفظ حدیث کا جذبہ اور شوق پیدا کرنے کی غرض سے یہ بہت بڑا اقدام کیا کہ جو شخص صحیح بخاری یاد کرے گا،اسے ایک ہزار روپے انعام دیا جائے گا اور جو بلوغ المرام یاد کریں گے ان کی خدمت میں ایک سو روپیہ بہ صورت انعام پیش کیا جائے گا، چنانچہ بعض حضرات نے یہ انعام حاصل کئے.
8-مولانا محمد اسحاق بھٹی اپنے استاد مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کے متعلق لکھا ہے :
"کتابیں خریدنا اور پڑھنا ان کا بنیادی مشغلہ تھا، کتاب کی جو قیمت دکان دار نے مانگی، انہوں نے عطا فرما دی، اس میں کمی کا مطالبہ نہیں کیا کرتے تھے، پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ان کی موجودگی میں کوئی شخص کسی دکان سے کتاب خریدنے آیا، لیکن جیب کا جائزہ لیا تو اتنے پیسے نہیں ہیں کہ کتاب خریدی جا سکے، مولانا کو اس کی مجبوری کا اندازہ ہوا تو اپنی گرہ سے قیمت ادا کرکے اسے کتاب لے دی، حالانکہ نہ دکان دار سے ان کا کوئی تعلق ہے اور نہ کتاب خریدنے والے سے".
9-ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی لکھتے ہیں :
"مبارک پور میں مولانا عبد الرحمن مبارکپوری نے استفادے کی غرض سے میرے قیام کے دوران شدید اصرار کے ساتھ مجھے اپنے ہاں مہمان کی حیثیت سے رکھا، چنانچہ نہ مجھے کسی ہوٹل میں جانا پڑا اور نہ کھانا کہیں سے خریدنے کی نوبت آئی، جب مبارک پور سے میری روانگی کا وقت آیا اور میں نے فیصلہ کیا کہ اعظم گڑھ تک ٹرین سے جاؤنگا تو مولانا نے فرمایا کہ ٹرین سے نہ جاؤ، ہماری جان پہچان کے دو آدمی بیل گاڑی لے کر اعظم گڑھ جانے والے ہیں، ان کے ساتھ چلے جانا، یہ تمہارے لیے زیادہ آسان ہوگا، ادھر ان دونوں حضرات نے طیے کیا کہ آدھی رات کو نکلیں گے، چنانچہ عشا کی نماز کے بعد میں نے مولانا کو الوداع کہنا چاہا تو فرمایا روانگی کے وقت میں رخصت کرنے آؤنگا، میں نے عرض کی آپ کو زحمت ہوگی، نیند میں خلل پڑے گا، فرمایا کوئی بات نہیں، چنانچہ جب روانگی کا وقت ہوا اور میں اپنا بیگ اٹھا کر اپنے مسجد والے حجرے سے باہر نکلا تو مولانا کو موجود پایا، پھر ہم دونوں باتیں کرتے ہوئے وہاں پہنچے جہاں وہ دونوں حضرات گاڑی لے کر ہمارا انتظار کر رہے تھے، رخصت کے وقت جب انہوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں میں لے کر فرمایا :"أستودع الله دينك وأمانتك وخواتيم عملك، زودك الله التقوى ويسر لك الخير أينما توجهت" تو اس کے ساتھ ہی انہوں نے چپکے سے میرے ہاتھ میں کوئی کاغذ تھمایا، میں نے محسوس کیا کہ نوٹ کی شکل میں کچھ رقم ہے تو میں نے واپس کرنا چاہا، اور کہا:"جزاک اللہ، آپ نے تو لطف وکرم کی انتہا کردی، اس کی کیا ضرورت ہے"اس پر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور ان دونوں حضرات سے کچھ دور ہوئے تو زور زور سے رونے لگے، ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، اور کہے جا رہے تھے، "لے لو اسے، لے لو اسے" چنانچہ میں نے وہ روپیہ لے لیا، ان کا رونا دیکھ کر میرے بدن میں کپکپی طاری ہوگئی اور میں بہت شرمندہ ہوا کہ میرا روپیہ لوٹانے ہی ان کے اس شدید گریہ کا سبب بنا، چنانچہ میں نے ان سے معافی چاہی اور انہوں نے معاف کر دیا، سسکیاں لیتے ہوئے آنکھوں سے آنسو پونچھے اور ذرا سنبھلے تو میرا ہاتھ پکڑا اور گاڑی کی طرف بڑھے، پھر میں نے ان کو الوداع کہا اور گاڑی پر سوار ہو گیا، یہ تمام خیالات اور انفعالات میرے ذہن میں گھومتے رہے، یہاں تک کہ فجر کا وقت ہوگیا تو ہم لوگ نماز کے لئے رکے، میں نے ان دونوں حضرات کی امامت کی، جب میں نے قرأت شروع کی تو اس واقعہ کے تصور سے روپڑا".
مولانا مبارک پوری طلبہ سے جس شفقت کا اظہار فرماتے اور تعلیم کے سلسلے میں انہیں جس قسم کے صائب اور صحیح مشورے دیتے، اس سلسلے کا ایک واقعہ مشہور مورخ قاضی اطہر مبارک پوری کا پڑھئے، وہ لکھتے ہیں :"میں مولانا کی خدمت میں بہ سلسلہ علاج آتا جاتا تھا، کبھی کبھی یوں ہی چلا جاتا تھا، ایک مرتبہ مولانا نے پوچھا :" کون کون سی کتابیں پڑھتے ہو؟ میں نے کتابوں کے نام بتائے تو فرمایا :"منطق میں بہت پیچھے ہو، اس میں محنت کرو" ان کی علمی مشغولیت اور تصنیفی انہماک دیکھ کر لکھنے پڑھنے کا حوصلہ ملا، ان کی زبان سے پہلی بار عربی کا یہ مقولہ سنا تھا :" من ساوى يوماه فهو في الخسران" یعنی جس شخص کے دونوں دن برابر ہوں وہ نقصان میں ہے، ہر اگلا دن پچھلے دن سے بڑھا ہونا چاہیے، یہ جملہ آج تک کام دے رہا ہے ".
10-حافظ فتح محمد فتحی کے متعلق مولانا محمد اسحاق بھٹی نے لکھا ہے :"اللہ تعالیٰ نے ان کو سخاوت کی صفت سے بھی خوب نوازا تھا، وہ اہل علم کو کتابیں خرید کر بھی دیتے تھے، مستحقین بالخصوص علما کی مالی امداد بھی کرتے تھے، اور انہیں بہ طور مہمان بھی اپنے یہاں ٹھہراتے تھے، ان ان اوصاف کا تذکرہ بہت حضرات فرماتے ہیں".
11-مولانا عبد التواب ملتانی کے بارے میں بھٹی صاحب نے لکھا ہے :"کتابوں کے جو شائق یک مشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، ان کے ساتھ مولانا کی شفقت کا انداز یہ تھا کہ اسے کتاب دے کر اس کی مالی استطاعت کے مطابق اسے قیمت ادا کرنے کی مہلت دیتے، چنانچہ مولانا عزیز زبیدی نے ملتان کے ایک کتاب دوست علامہ عتیق فکری کا یہ بیان تحریر کیا ہے کہ مولانا کو کتابوں کے متعلق ان کے شوق کا پتا چلا تو انہیں کتاب مرحمت فرما دیتے اور وہ آٹھ آنے ہفتے کے حساب سے اس کی قیمت ادا کرتے، اس طرح انہوں نے ان سے بے شمار کتابیں خریدیں".
12-مولانا عبد الرشید لداخی کے متعلق مولانا محمد اسحاق بھٹی نے لکھا ہے کہ:" جس طرح خود مطالعہ کے شائق تھے، اور مختلف موضوع کی کتابیں پڑھتے رہتے تھے، اپنے شاگردوں کے بارے میں بھی وہ یہی چاہتے تھے کہ وقت کو غنیمت جانیں اور مطالعہ کتب میں مصروف رہیں، چنانچہ وہ انہیں کسی نہ کسی طرح کتابیں مہیا کرتے رہتے تھے اور جس طالب علم کی جس موضوع سے دلچسپی کا اندازہ کرتے، اس کے مطابق اسے مطالعہ کی تلقین کرتے، انہوں نے دارالعلوم غواڑی میں مکتبہ رشیدیہ کے نام سے چھوٹا سا مکتبہ قائم کر رکھا تھا، اس مکتبے میں وہ ملک وبیرون ملک سے کتابیں منگواتے اور سستے داموں وہ کتابیں طلبا کو دیتے تھے ".
13-بدر الدین ابن جماعۃ ساتویں آٹھویں صدی ہجری کے بہت بڑے عالم دیں ہیں، ان کے حالات زندگی میں ذکر ہے وہ دمشق میں ایک مدرسہ میں پڑھایا کرتے تھے، جہاں ایک استاد کی ماہانہ تنخواہ (40 دینار یعنی 12 لاکھ روپے تقریبا) ہوا کرتی تھی، ساتھ راشن وغیرہ الگ مہیا ہوتا۔ اور یہ صرف مدرسہ کی تنخواہ ہے، اس کے علاوہ ان کے پاس کئی ایک ذمہ داریاں تھیں۔
آخر میں جب بیمار ہوگئے، نظر کمزور ہوگی، ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگئے، تو بطور پنشن انہیں راشن کی کثیر مقدار کے علاوہ ماہانہ (1000 درہم) دیے جاتے تھے۔
14-ہمارے علاقے کے مشہور بزرگ عالم دین مولانا حاجی سعید الرحمان صاحب نے مجھ سے ایک مرتبہ ہمارے ہی علاقہ کے نامی گرامی شخصیت مسلم حاجی کے بارے میں بتایا کہ ان کی مٹھی میں ہمیشہ پیسہ ہوتا تھا اور وہ چپکے سے طلبہ کو دیتے تھے، میرے مرحوم چچا مولانا امجد مظہری کو بھی میں نے بارہا یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مسلم حاجی مدرسہ کے آخری سال کے طلبہ کو کتب حدیث خرید کر دیتے تھے.
15-آج سے تقریبا ایک سو سال قبل دار الحدیث رحمانیہ دہلی میں اساتذہ کی تنخواہوں وغیرہ کا نظام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا نوشہروی کے بقول شیخ الحدیث کی تنخواہ 90 نوے روپے تھی۔ مولانا
محمد یوسف سورتی کو بطور شیخ الحدیث 150 ڈيڑھ سو روپے تنخواہ پر رکھا گیا۔
جبکہ مولانا احمد اللہ ۤدہلوی رحمہ اللہ کی تنخواہ سو روپے تھی۔ مولانا غلام یحیی کانپوری کی تنخواہ 125 ایک سو پچیس روپے، جبکہ عموما مدرسین کی تنخواہین ساٹھ ستر روپے تھی۔
مولانا عبد الرؤف رحمانی اسی مدرسہ میں پڑھ کر بطور استاد مقرر ہوئے تو آپ کی تنخواہ 30 تیس روپے مقرر ہوئی۔
(ان تفصیلات کے لیے دیکھیں، دار الحدیث رحمانیہ کی تاریخ از مولانا اسعد اعظمی)
آج سے ایک صدی قبل روپے کی قیمت کا اندازہ کرنے کے لیے چند چیزیں نوٹ کریں:
نجد یعنی عرب سے آنے والے ایک طالبعلم کو سفر کا خرچ 60 روپے ملا تھا۔
دار الحدیث رحمانیہ کا وسیع وعریض مکمل مدرسہ اور اس میں دسیوں کمروں کی عمارت کا سارا خرچ ایک لاکھ روپے ہوا تھا۔
روٹی کپڑا اور مکان کی قیمت اس دور میں پتہ نہیں کیا تھی؟ گائے بھینس وغیرہ کی قیمت، اسی طرح سونا چاندی کے ساتھ جوڑ کر اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔(یہ فقرہ خضر حیات کے مضمون سے ماخوذ ہے).

No comments:

Post a Comment

جھوٹ ‏بولنے ‏والے ‏کا ‏منہ ‏کالا ‏ہو

اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین .......  ‏شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...