Monday, August 26, 2019

کسی ایک ہی فن میں زور دیں

[کسی ایک ہی فن میں زور دیں] :
...............
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
...............
یحی بن معین نے ابراهيم بن عرعرہ کے بارے میں کہا ہے :"ثقة لكنه أفسد نفسه... يدخل في كل شيء" - "ثقہ ہیں لیکن انہوں نے اپنی ذات میں بگاڑ پیدا کردیا چونکہ وہ ہر فن میں گھس جاتے تھے".
1 - اگر آپ ماضی قریب کے بڑے بڑے علما کی سوانح عمریاں پڑھیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے ہر کوئی کئی علوم وفنون کے جانکار تو تھے لیکن ان کا زور کسی ایک ہی فن میں تھا، جیسے:
أ -البانی حدیث میں.
ب-ابن عثيمين فقہ میں.
ج-ابن باز فقہ وفتوی میں.
د-احمد شاکر حدیث وتحقيق میں.
ه-معلمی جرح وتعدیل میں.
و-سید نذیر حسین محدث دہلوی حدیث میں.
مقدمہ "تحفة الأحوذي" میں حضرت میاں صاحب کے بارے میں مرقوم ہے:
"هو بخاري زمانه في علوم الحديث وفقهه وأبوحنيفة أوانه في الاجتهاد وشروطه، وسيبويه دورانه في العربية، وجرجاني أيامه في البلاغة، وشبلي عصره في السلوك والعرفان والإرشاد، وابن أدهم في الزهد واستحقار الدنيا، وابن حنبل إبانه في الورع والتقوى والقول بالحق والصبر على المكاره، آية من آيات الله وحجة من حجج الله".
" یعنی حضرت میاں صاحب علوم حدیث اور اس کی فقاہت میں اپنے وقت کے امام بخاری، اجتہاد میں ابوحنیفہ، عربیت میں سیبویہ، بلاغت میں جرجانی، سلوک اور عرفان وارشاد میں شبلی، زہد وتقوی میں ابن ادہم اور صبر واستقامت اور راست بازی میں احمد بن حنبل تھے".
لیکن جس فن میں انہیں عالم گیر شہرت حاصل ہوئی وہ فن حدیث ہے.
2 -مولانا عبد الرؤوف جھنڈا نگری مرحوم نے لکھا ہے:
"عہد رسالت مآب ہی سے یہ تقسیم چلی آئی ہے خاص خاص لوگ خاص خاص علم وفن میں زیادہ کامل ہوتے تھے ،ترمذی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کے متعلق خود فرمایا تھا:"أفرضكم زيد بن ثابت"،اسی بنا پر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عام حکم تھا:"من أراد القراءة فليأت أبيا ومن أراد أن يسأل الفرائض فليأت زيدا ومن أراد أن يسأل الفقه فليأت معاذا الخ" -
"یعنی فن قرأت کے مسائل میں ابی بن کعب کی طرف اور مسائل میراث میں زید کی طرف اور فقہی مسائل میں معاذ کی طرف رجوع کرو".
3 - مولانا عبد الرؤوف جھنڈا نگری مرحوم نے آگے لکھا ہے:
"اس روایت سے صاف معلوم ہوا کہ عہد صحابہ میں خاص خاص فنون کے اندر مہارت رکھنے والے ہوتے تھے، جن کو بہ نسبت دوسرے علوم کے اس میں زیادہ امتیاز حاصل رہتا تھا، مسلمانوں میں دور آخر میں اور بھی فرق ہوگیا، دیکھئے امام ابو حنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد صرف فقاہت میں ممتاز تھے، امام مالک، امام بخاری ،امام مسلم فقیہ ومحدث تھے، کندی ،فارابی، ابن سینا صرف فلسفی تھے، کسائی ،سیبویہ ،خلیل صرف نحوی تھے.. علامہ زمخشری زیادہ تر نحوی مسائل کے لحاظ سے ممتاز ہیں، تاریخ سے ان کو کوئی واسطہ نہیں ہے، علامہ ابوحاتم سجستانی صرف علم قرآن کے ماہر شمار کئے گئے ہیں، علم نحو میں مازنی بہت مشہور گزرے ہیں، امام شاذ کوفی فن حدیث میں بڑا پایہ رکھتے ہیں، زیادی نقل وحکایت میں بے مثل عالم ہیں، ابن صبی شاہی فرامین لکھنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں".
4-بعض اہل علم کا قول ہے :
أ-"ما ناظرت صاحب فنٍّ إلا غلبني، وما ناظرت صاحب فنون إلا غلبته"-"میں نے جب بھی یک فنی عالم سے مناظرہ کیا وہ مجھ پر غالب آگیا، اور جب میں نے ہر فن مولا عالم سے مناظرہ کیا تو میں جیت گیا".
ب-محمد بن جعفر کتانی نے لکھا ہے کہ :"كلام الإمام السخاوي مقدم على الإمام السيوطي عند التعارض في المصطلح، لأن السخاوي صاحب فن، والإمام السيوطي صاحب فنون"-"اگر فن مصطلح الحدیث میں امام سیوطی اور امام سخاوی کے درمیان جھگڑا ہو تو سخاوی کی بات مانی جائے گی اس لئے وہ اس فن کے متخصص ہیں، جبکہ سیوطی ہر فن کے جانکار ہیں ".
ج-حافظ ابن حجر نے" فتح الباری" میں ایک حکمت سے لبریز جملہ لکھ دیا ہے :" إذا تكلم المرء في غير فنه أتى بالعجائب" - "جب کوئی اپنے تخصص سے ہٹ کر کسی دوسرے فن میں منھ کھولتا ہے تو اس سے عجیب عجیب غلطیاں سرزد ہوتی ہیں".
د-اسی لئے امام دارالہجرہ امام مالک نے کہا ہے :"كل علم يسأل عنه أهله".
میں کہتا ہوں :"العبرة بالغالب" ورنہ ماضی میں بہت سے ایسے علما گذرے ہیں اور اب بھی ہیں جو بہ یک وقت کئی کئی علوم وفنون پر دسترس رکھتے تھے اور رکھتے ہیں، جیساکہ میرے ایک مضمون میں اس کی تفصیل موجود ہے.
5-مولانا جھنڈا نگری لکھتے ہیں :"آج کل کے طلبا "طلب الكل فوت الكل" کے صحیح اصول کے مطابق ہر فن وہر علم میں مصروف ہو کر کسی ایک فن میں مہارت تامہ نہیں پیدا کرپاتے، اس کی وجہ علمائے سلف کے اس زریں طرز عمل سے چشم کوری ہے".
6-مجھے یہ جان کر تعجب ہوتا ہے کہ ایک شخص کا تخصص "عربی لغت" ہے لیکن وہ"عقیدہ" پڑھا رہا ہے، وہیں ایک شخص جس نے پورے چودہ سال"عقیدہ"پڑھنے میں لگایا ہے، اب وہ مدرسہ میں"نحو "یا" عربی ادب" پڑھا رہا ہے!
میں یہ نہیں کہتا کہ جو" مادہ"ان کو پڑھانے دیا جاتا ہے، وہ پڑھا نہیں پائیں گے،بالکل پڑھا پائیں گے اور لوگ بے دھڑک پڑھا بھی رہے ہیں، لیکن جو جس فن کا ماہر ہے وہی اس فن کو صحیح طریقے سے پڑھا اور سمجھا سکتا ہے.
مولانا عبدالغفار حسن رحمانی صاحب کا بیان دارالحدیث رحمانیہ میں نقل کیا گیا ہے کہ مولانا احمد اللہ محدث پرتاپ گڑھی کے مدرسہ چھوڑنے کے بعد حدیث کی کوئی کتاب مولانا محمد سورتی کو پڑھانے کے لیے دی گئی لیکن طلبہ مطمئن نہ ہوئے لیکن وہی طلبہ مولانا سورتی سے عربی ادب پڑھتے تھے تو علم کی فراوانی سے خوب محظوظ ہوتے تھے.

No comments:

Post a Comment

جھوٹ ‏بولنے ‏والے ‏کا ‏منہ ‏کالا ‏ہو

اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین .......  ‏شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...