Saturday, August 17, 2019

نوٹ لکھنا

[مطالعہ کے دوران نوٹ لکھنا] :
...............
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
..............
امام شعبی سے منقول ہے:
"إذا سمعت شيئاً فاكتبه في حائط" - "جب تم کوئی بات سنو تو اسے دیوار پر ہی سہی، ضرور لکھ لو".
1-بکھرے ہوئے علمی فوائد، قیمتی معلومات اور تحقیقی ابحاث کو نوٹ کرنے کے لیے اپنے پاس ایک(كُنَاشة/كُنَاش)یعنی ڈائری یا مذکرہ بنالیں،اگر کتاب کا غلاف بھی اس قسم کی چیزوں کو نوٹ کرنے کے لیے استعمال کریں تو بہت بہتر ہے، آج کل تو آپ کے موبائل فون پر نوٹ بک(Notebook)بھی مفت میں دستیاب ہے.
3-پھر ان جمع شدہ معلومات کو بعد میں موضوعات کی ترتیب، مسئلہ کے عنوان، کتاب کے نام اور جلد وصفحہ نمبر کے ساتھ دفتر(یا کمپیوٹر) میں نقل کر لیں،جیسے :
فوائد فقہیہ(صرف "ف" کا رمز لکھ کر بھی "فقہیہ" کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں):
فائدہ نمبر (1):
فائدہ کا عنوان (مسئلہ کا نام):
نص... :
مصدر(جس کتاب سے آپ نے نقل کیا ہے اس کا نام، جلد اور صفحہ نمبر) :
اسی طرح فوائد حدیثیہ(ح) ،فوائد عقدیہ(ع) ،فوائد تفسریہ (ت)،فوائد نحویہ(ن) ،فوائد صرفیہ(ص) ،فوائد کلامیہ(ك) ،فوائد شعريہ(ش) ،فوائد تاریخیہ(خ) وغیرہ.
4-اس سلسلہ میں بہت سارے علمائے کرام کی تالیفات ہیں جیسے :
أ-امام ابن قیم کی"الفوائد"و"بدائع الفوائد".
ب-امام زرکشی کی"خبايا الزوايا".
ج-ابن عقيل حنبلی کی"الفنون في شتى العلوم"،کہتے ہیں یہ عالم اسلام کی سب سے ضخیم کتاب ہے، افسوس کہ یہ کتاب مفقود ہے، اس کے صرف چند ٹکڑے فرانس سے ایک عیسائی کی تحقیق سے چھپے ہیں.
د-ابن ہبیرہ کی"الفوائد العونية".
ھ-ابن جوزی کی"صيد الخاطر".
و-دغولی کی"قيد الأوابد" چار سو(400) جلدوں میں.
ز-ابن نجار کی"عیون الفوائد".
ح-كندی کی"التذكرة".
ط-مقریزی کی"مجمع الفوائد ومنبع الفرائد".
ي-محمد العريفي کی"زبدة الفوائد من كتب شيخ الإسلام ابن تيمية".
ش-عبد السلام هارون کی"كناشة النوادر".
انہوں نے پچاس سالوں میں مختلف کتابوں سے یہ فوائد اکھٹا کئے ہیں، ان کی یہ کتاب چھپ چکی ہے.
ك-اسی طرح کتاب "الإغفال" اور"بقايا الخبايا" وغیرہ کتابیں.
5-فوائد کو قید کرنے کے بعض طریقے:
ہم یہاں چند طریقے نقل کرتے ہیں جو ہمارے علما نے اختیار کیے ہیں:
أ-امام زرکشی صاحب "البحر المحیط في أصول الفقه"کے متعلق آتا ہے کہ وہ کتب فروش کی دکانوں کا چکر لگایا کرتے تھے،وہاں مطالعہ کے دوران علمی فوائد نوٹ کرتے رہتے اور پھر گھر آکر اپنے دفتر میں نقل کر لیتے.
ب-مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی مرحوم مشہور اہل حدیث عالم گذرے ہیں، ابن تیمیہ کی کتابوں سے انہیں بالخصوص دلچسپی تھی، ان کی جو کتاب مصر وغیرہ سے چھپتی اور شرف الدین واولادہ کے ہاں بمبئی پہنچتی، وہ فوراً خط لکھ کر منگوا لیتے، پھر اس کا مطالعہ شروع کر دیتے اور اسے ختم کرکے ہی دم لیتے، کسی کتاب کے جو مقامات ان کے نزدیک اہم ہوتے، ان پر نشان لگاتے، جلد بڑی اچھی طرح بندھواتے اور جلد ساز کو ہدایت کرتے کہ شروع میں تین یا چار سفید کاغذ زائد لگائے جائیں، ان کاغذات پر کتاب میں مندرج اہم مسائل کے حوالے مع صفحے اور تھوڑی سی عبارت کے درج فرماتے، بعض چھوٹے چھوٹے الگ الگ موضوع کے رسالے اکھٹے جلد کرا لیتے اور شروع کے سفید کاغذ پر ہر رسالے کا علیحدہ علیحدہ نام لکھتے.
کتاب کے صفحہ اول کی پیشانی پر بالعموم اپنا نام اس طرح رقم فرماتے:
"مملوکہ محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی"
اس پر بعض دفعہ مقام سکونت بھی لکھتے مثلاً: "حال وارد مسجد گنبداں والی فیروز پور".
گھر میں ان کی چار پائی پر بھی مختلف موضوع کی کتابیں پڑی ہوتیں اور مصلے وغیرہ پر بھی!
ج-مولانا عبد الغنی سیفی عمری [ت:2009ء]اپنے ایک شاگرد کو لکھتے ہیں :
"آپ کی تحفہ میں دی ہوئی لاجواب کتاب" حلية الأولياء"دس جلدیں، اس کا ہر تذکرہ بلکہ ہر صفحہ لؤلؤ والمرجان، ہیرے وجواہرات سے زیادہ قیمتی معلومات سے بھرا ہوا ہے، میری تالیف کا بے حد مواد ہے، جب کتاب کی کسی جلد پر ہاتھ ڈالتا ہوں تو سوچ میں پڑ جاتا ہوں، کیا پڑھوں کیا نقل کروں؟ کہاں سے پڑھوں؟ کہاں ختم کروں؟ کس بزرگ کا تذکرہ نقل کروں کس کا چھوڑوں؟ تاہم کوشش کرتا ہوں ".
نیز تحریر فرماتے ہیں :" الحمد للہ! کتاب کا مطالعہ جاری ہے، یہ میری زندگی کا انمول ذخیرہ ہے جو آپ نے مجھے دیا ہے، یہ ہیرے جواہرات اور موتیوں سے بڑھ کر ہے، اس کتاب کی ایک روایت نقل کردوں جو حضرت عمر سے مروی ہے :
"كونوا أوعية الكتاب وينابيع العلم وسلوا الله رزقه في يوم بيوم"-
یعنی" کتاب اللہ کے ظرف بنو اور علم کے سرچشمے ہوجاؤ، اور اللہ تعالیٰ سے ہر دن کا رزق اسی دن مانگو". [51/1]
"اس کتاب کے مطالعے سے بے شمار معلومات حاصل ہو رہے ہیں، عجیب عجیب احادیث سے پر ہے، احادیث اور بزرگانِ دین کے ارشادات جمع کرنے میں شیخ ابونعیم نے بڑی محنت کی ہے، غفر اللہ لہ، یہ انمول دینی معلومات کا ذخیرہ آپ کی بڑی یادگار ہے اور رہے گی، جب تک اس کا مطالعہ کرتا رہونگا ،آپ کے لئے دعائیں دیتا رہوں گا، جزاک اللہ خیرا".
" اس کتاب کے مطالعہ سے اپنی دینی کمزوری معلوم ہوتی ہے، اور ایمان پختہ ہوجاتا ہے، عزیزم! میں نے ہر کتاب کے شروع میں ایک سفید ورق چسپاں کردیا ہے، اس میں حاصل مطالعہ جو احادیث اور آثار مجھے پسند آتے ہیں ان کو اس ورق میں صفحہ نمبر کے ساتھ رقم کر دیتا ہوں، عزیزم! اس کتاب کے بھیجنے پر کن الفاظ وعبارات سے آپ کا شکریہ بجا لاؤں، بس اتنا ہی کافی سمجھتا ہوں :جزاك الله أحسن الجزاء في الدارين".
د-مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں:
"والد مرحوم ہمیشہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ بلا نوٹ کرنے کے کبھی مطالعہ نہ کرو، اگر لکھنے کے لئے کوئی بیاض نہ ہو تو کتاب کے صفحے پر ہی لکھو، صفحے میں لکھنے کے لئے گنجائش نہ ہو تو صرف ایک نشان ہی دے دو، مگر کوئی قلم کا عمل ضرور کرو،اس طرح کتاب کے تمام مباحث ہمیشہ کے لئے محفوظ رہیں گے، خود والد مرحوم کا مدت العمر یہی طریقہ رہا، ان کے کاغذات میں صدہا بیاضیں محض مطالعے کے نوٹ ہیں، وہ اتنے مختصر ہیں کہ اب بدقت سمجھ میں آسکتے ہیں، تاہم نوٹ ہیں اور ان کے تعجب انگیز استحضار وعظ کا اصلی بھید انہی میں پنہاں ہے، اس کے بعد میری بھی یہ عادت ہوگئی کہ جب کبھی کسی چیز کو یاد رکھنا چاہا، تو ایک مرتبہ لکھ لیا، پھر وہ چیز محفوظ ہو گئی... ".
مولانا آزاد نے جب دنیا کے مختلف ملکوں سے تہذیبی روابط قائم کرنے کے لیے انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کے نام سے نئی دہلی میں ایک ادارہ قائم کیا تو اس کی ایک شاندار عمارت تعمیر کرائی اور دس گیارہ ہزار کتابوں پر مشتمل اپنا ذاتی کتب خانہ کونسل کو دے کر ایک لائبریری بھی قائم کی۔
اس لائبریری میں مولانا آزاد کی کتابوں کے ذخیرے میں عربی، فارسی، انگریزی اور اردو کی کتابیں اور بہت سی کتابوں پر مولانا کے ہاتھ کے لکھے ہوئے حواشی ہیں۔
سید مسیح الحسن صاحب نے بڑی مدت تک اس لائبریری میں کام کیا ہے۔ اس لائبریری میں ملازم ہونے کی وجہ سے انہیں یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ مولانا کی تمام کتابوں پر اپنی نظر غائر ڈال سکتے تھے۔
مگر پھر بھی"حواشی ابوالکلام آزاد زیر مطالعہ کتابوں پر "جیسی یادگار کتاب کو مرتب کرنے میں مسیح الحسن صاحب کو دس گیارہ برس لگ گئے۔
چونکہ مسیح الحسن صاحب نے علم کتاب خانے کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے اس لیے انہوں نے یہ کام بہت سلیقے سے کیا ہے۔
ھ-مشہور عالم دین علامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اپنے استاد حضرت مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی کے متعلق لکھا ہے:
"آخری ایام حیات تک یہ طریقہ رہا ہے کہ مطالعہ کے دوران فوائد نادرہ جو سامنے آتے، ان کو اپنی بیاض میں محفوظ کر لیتے تھے، اور یہ علمی فوائد ہر قسم کے تھے، تفسیری، حدیثی،لغوی ،نحوی ،صرفی، ادبی، کلامی، تاریخی، اور شعر وشاعری (عربی، فارسی ،اردو) وغیرہ پر مشتمل، اس قسم کے بیاض آٹھ دس کے قریب ہیں، درس تفسیر وحدیث میں مناسب مقامات پر طلبا کو بھی ان سے مستفید فرماتے.
اگر ان بیاضوں کو مرتب کرکے یک جا کر دیا جائے تو بہ یک نظر اندازہ ہوجائے گا کہ کس ذوق وانہماک کے ساتھ کم وبیش چالیس برس تک کہاں کہاں سے یہ تنکے مولانا نے فراہم کرکے تحقیق وتدقيق اور معلومات کا حال یہ مرقع طلبا اور اہل علم کے لیے تیار کردیا ہے ".
برصغیر کا ایک مشہور مورخ لکھتا ہے:
" اب یہ ذخیرہ علم وتحقيق کہاں ہوگا؟ اس قسم کے بہت سے علمی ذخائر ہیں جو ہمارے علمائے کرام نے چھوڑے اور افسوس ہے کہ ہم نے نہایت بے دردی اور بے رحمی سے ضائع کر دیئے".
6-صرف مطالعہ کے دوران ہی نہیں بلکہ جب بھی جہاں بھی آپ علم وحکمت کی بات سنیں یا آپ کے ذہن میں اس طرح کی بات کھٹکے اسے فوراً اپنے دفتر میں لکھ لیں اور اپنے قطعاً اپنے حافظہ پر بھروسہ نہ کریں، ہم یہاں بطور مثال چند علما کا ذکر کرتے ہیں:
أ-امام بخاری کا حافظہ غضب کا تھا بلکہ آپ حفظ کے پہاڑ اور اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانی تھے،اس کے باوجود آپ رات کو اٹھ اٹھ کر فوائد کو قلم بند کرتے تھے تاکہ وہ ذہن سے اتر نہ جائے، چنانچہ فربری کا قول ہے :"كنت مع محمد بن إسماعيل بمنزله ذات ليلة، فأحصيت عليه أنه قام وأسرج يستذكر أشياء يعلّقها في ليلة ثمان عشرة مرة".
ب-امام شافعی کو کون نہیں جانتا؟ اور ان کی قوت حافظہ سے کون واقف نہیں؟ حمیدی جو ان کے ساتھی ہیں کہتے ہیں امام شافعی جب مصر میں مقیم تھے، میں ایک رات کو نکلا تو کیا دیکھتا ہوں امام صاحب کے گھر کا چراغ روشن ہے، سیاہی اور دفتر سامنے ہے، میں نے ترس کھا کر کہا:آرام کیجئے، تو انہوں نے جواب دیا :"تفكرت في معنى حديث - أو في مسئلة- فخفت أن يذهب عليّ، فأمرت بالمصباح وكتبته".
ج-امام نووی رحمۃ اللہ علیہ طلبہ کی راہنمائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :"ولا يحتقرن فائدة يراها أو يسمعها في أي فن كانت، بل يبادر إلى كتابتها، ثم يواظب على مطالعة ما كتبه..."-
"طالب علم کو چاہئے کہ کوئی بھی فائدہ جو ان کی نگاہ سے گذرے یا وہ سنے اس کا تعلق خواہ کسی بھی فن سے ہو، اسے حقیر نہ جانے بلکہ فوراً اسے قلم بند کرے، اور جو وہ لکھتا رہا ہے اس کا مطالعہ ہمیشہ جاری رکھے".
7-کتاب پر حاشیہ چڑھاتے یا دفتر میں فائدہ نوٹ کرتے اسے صاف اور واضح انداز میں لکھیں:
امام ابو حنیفہ-رحمۃ اللہ علیہ- کہتے ہیں :
"لا تقرمط خطك، فإن كبرت تندم وإن مت تشتم"-
"سطریں اور حروف باریک اور ملا کر مت لکھو، نہیں تو تمہیں بڑھاپے میں پچھتانا پڑے گا،اور اگر تم مر گئے تو لوگ تمہیں برا بھلا کہیں گے ".

نوٹ :عمداً میں نے مصادر کے نام حذف کر دئیے ہیں.

No comments:

Post a Comment

جھوٹ ‏بولنے ‏والے ‏کا ‏منہ ‏کالا ‏ہو

اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین .......  ‏شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...