[ علما اور شانِ بے نیازی] :
..............
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
.............
غیرتِ نفس پہ ہر وقت نظر رکھتا ہوں
دامنِ تنگ میں کچھ لعل وگہر رکھتا ہوں
اہل دنیا پہ نہ ظاہر ہو میری تشنہ لبی
اس لئے ہونٹوں کو ہر حال میں تَر رکھتا ہوں
1 -مشہور اہل حدیث مورخ وسوانح نگار مولانا محمد اسحاق بھٹی مرحوم لکھتے ہیں:
"مولانا مجاز اعظمی نے 1947ء میں جب دار الحديث رحمانیہ سے سندِ فراغ لی، اس وقت ملک دو حصوں میں تقسیم ہو رہا تھا، اور اس تقسیم کے خوں ریز چھنیٹے اس طرح زور سے اس دار الحديث پر گرے کہ اسے ختم کر دیا اور وہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکا، مجاز اعظمی اس دار الحديث کے سلسلۃ الذهب کی آخری کڑی بنے، اور وہ دہلی سے اپنے وطن مالوف کو لوٹے تو سند کی صورت میں رحمانیہ کی طرف سے عطا کردہ علمی تحفہ ان کے ہاتھ میں تھا، اس کے بعد دار الحديث کی طرف سے سندوں کے عطیے کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا.
وہ نہایت افراتفری اور پریشانی کا زمانہ تھا، اس ہنگامہ خیز دور میں مولانا مجاز اعظمی کو بہت سے نشیب وفراز سے گزرنا پڑا، ملکی کی حالات کے ساتھ ساتھ مالی حالات بھی بے حد تکلیف دہ تھے، لیکن مجاز اعظمی نہایت خوددار اور باحمیت اہل علم تھے، وہ کسی کے سامنے اپنی تکلیف بیان کرنے کے عادی نہ تھے، اس کا اندازہ ان کے ان دو اشعار سے ہوتا ہے، جن سے ان کے کردار کی پوری تصویر لکھ کر نظر وبھر کے زاویوں میں آجاتی ہے:
غیرتِ نفس پہ ہر وقت نظر رکھتا ہوں
دامنِ تنگ میں کچھ لعل وگہر رکھتا ہوں
اہل دنیا پہ نہ ظاہر ہو میری تشنہ لبی
اس لئے ہونٹوں کو ہر حال میں تَر رکھتا ہوں".
2 -مولانا عبد الرؤوف جھنڈا نگری مرحوم نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے:"جس طرح بعض محدثین واکابر علما اپنی دولت وذاتی ثروت اور تجارت وغیرہ کی برکت کے سبب امرا وسلاطین کے وظائف اور عطیات قبول نہیں کرتے تھے، اسی طرح بعض اکابر زہد وقناعت کے ایک ایسے اعلی مقام پر فائز تھے کہ وہ شاہی وظائف اور امرا کے صلات اور ہدیہ جات سے من کل الوجوہ بے نیاز تھے، وہ نذرانوں اور عطیات کی رقم پیش کرنے والوں سے صاف کہہ دیتے تھے کہ:"حسبي كسرتي وملحي" -یعنی"میرے لئے میرا نان ونمک کافی ہے ".
بعض محدثین نے اپنی خودداری اور بے نیازی کی شان میں درہم ودینار کی تھیلیوں کو لانے والوں سے صاف کہہ دیا :"خذ خذ لا حاجة لي إليها" -"اٹھا لے جاؤ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے".
3 -امام ابن جوزی نے امام اہل سنت احمد بن حنبل کی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ آپ کے پاس ایک شخص نے چار ہزار درہم کا تحفہ پیش کیا اور یہ بھی لکھا کہ یہ صدقہ اور زکوۃ کی رقم نہیں ہے، آپ اسے قبول فرمائیں، آپ کے لئے ہدیہ روانہ ہے، آپ نے پوری رقم واپس کردی اور جواب میں صرف اس قدر لکھا:"نحن في عافية"-"اللہ تعالیٰ کا شکر ہے ہم بڑی اچھی حالت میں ہے".
4-اسی طرح جعفر برمکی نے محدث کوفہ عیسی بن یونس کو طلب کیا ان سے حدیثیں سنیں ،رخصت ہونے پر ایک لاکھ درہم دینا چاہا، آپ نے قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا، اور کہا:یہ رقم مجھے طلب کرنے سے پہلے بطور ہدیہ بھیجا ہوتا تو قبول کر لیتا، لیکن اب تو ایک گھونٹ پانی بھی حرام سمجھتا ہوں.
5-طبقہ سابعہ کے ایک محدث قبیصہ بن عقبہ ہیں،امام ذہبی ان کی سوانح میں لکھا ہے کہ ایک بڑے امیر زادے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ان کے دروازے پر آکر ٹھہرے، امیر کے خدام نے اطلاع دی کہ:"ابن ملك الجبل على الباب وأنت لا تخرج" - "ایسے رئیس زادے حاضر ہیں اور آپ ملاقات کے لئے باہر نہیں نکلتے".
یہ سن کر ایک روٹی کا ٹکڑا اپنی چادر میں چھپا کر باہر نکلے، جب سامنا ہوا تو روٹی کے ٹکڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :"من رضي من الدنيا بهذا ما يصنع بابن ملك الجبل"-"جو ساری دنیا کے حظوظ ولذت چھوڑ کر صرف اس ٹکڑے پر خوشی سے گذر کر سکتا ہے، اس کو ملک الجبل سے کیا واسطہ".
6-امام سفیان ثوری کو خلیفہ ابوجعفر عباسی نے بلایا اور کہا:"حاجتك؟ " - یعنی"اپنی کوئی حاجت بیان کرو"-
سفیان ثوری نے فرمایا اگر آپ میری حاجت وچاہت پوری کرنا چاہتے ہیں تو "حاجتي أن لا تدعوني حتى آتيك"-"کہ مجھے نہ کبھی یاد کریں اور نہ بلائیں، بس یہی حاجت میری پوری کر دیجئے".
7-مولانا آزاد کے ساتھ ہمیشہ رہنے والے مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی امام الہند مولانا آزاد کی"عزت نفس اور خودداری" کے متعلق لکھتے ہیں:
"قومی تحریک کے سلسلے میں مولانا کو ملک کے لمبے دورے کرنا پڑے، بے شمار کانفرنسوں میں شریک ہوئے، مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے کسی قومی ادارے سے یا کسی شخص سے ایک پیسہ بھی لیا ہو، جیب خالی ہوتی، تو گھر بیٹھے رہتے یا پھر خاص احباب سے قرض لے کر سفر کرتے، سفر بھی فرسٹ کلاس میں ہوتا، یا سیکنڈ میں، کلکتہ میں کہیں جاتے، تو ٹیکسی میں، کسی اور سواری میں نہیں.
لوگوں کو کہتے سنا ہے پنڈت موتی لال نہرو اور حکیم محمد اجمل خاں صاحب، مولانا کو مالی امداد دیتے تھے، میں اسے سچ نہیں سمجھتا، یہ حضرات مدد کرتے ہوتے تو مولانا پر کئی کئی سال عسرت وتنگ دستی کے کیوں گزرتے؟ پنڈت جی سے تو کبھی اس بارے میں بات چیت نہیں ہوئی لیکن حکیم اجمل خاں صاحب مرحوم نے خود مجھ سے حیرت کے ساتھ سوال کیا تھا کہ مولانا کا خرچ کیسے چلتا ہے؟ حکیم صاحب مدد دیتے ہوتے، تو یہ سوال کیوں کرتے؟
اور سنیئے پہلی جنگ عظیم میں بڑے بڑے لیڈروں کو حکومت نے نظر بند کر دیا تھا اور ان کی گزر بسر کے لئے کچھ رقمیں مقرر کر دی تھیں، لیڈروں کے خیال میں رقمیں کم تھیں اور وہ گزارہ بڑھانے کے لئے حکومت سے جھگڑتے تھے، مگر مولانا آزاد یہ سبکی گوارا نہ کی اور حکومت سے بے نیاز رہے، پھر ایسا ہوا کہ پبلک نے اپنے لیڈروں کے لئے فنڈ کھولا لیکن مولانا نے اس فنڈ سے بھی کوئی پیسہ لینا منظور نہیں کیا حالانکہ مولانا کا اخبار بھی بند کردیا گیا تھا، پریس بھی بند تھا، اور آمدنی کا کوئی دروازہ کھلا نہ تھا.
اور انگریز حکومت؟ تو مولانا نے اس ظالم حکومت کے سامنے کبھی سر نہیں جھکایا، الہلال پڑھئے، البلاغ پڑھئے، پیغام پڑھئے، قول فیصل پڑھئے، آپ کو خودداری کی حیرت انگیز دنیا نظر آئے گی".
6-مولانا محمد اسحاق بھٹی اپنے استاد مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
" مولانا عطاء اللہ صاحب میں ایک خوبی یہ تھی کہ ان میں دنیوی لالچ بالکل نہ تھا، مہمان ان کے ہاں بہت آتے تھے اور اپنی حیثیت کے مطابق ان کی خدمت کرتے تھے، ان کے دوستوں اور تعلق داروں کا حلقہ بڑا وسیع تھا، وہ سب سے خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے، روپے پیسے کی حرص سے ان کا ذہن خالی تھا، اور وہ اللہ کے سوا کسی سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتے تھے، ان کی تمام ضرورتیں احسن طریقے سے اللہ تعالیٰ پوری کرتا تھا، اور اسی پر ان کو بھروسہ تھا".
9-بر صغیر کے سب سے بڑے اور سب سے مشہور عالم سید نذیر حسین محدث دہلوی کے متعلق تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے:
"غذا میں سادگی کا یہ حال تھا کہ زیادہ تر سر کے کے ساتھ روٹی کھاتے یا فقط ستو پر اکتفا فرماتے یا شہد کے ساتھ روٹی کھا لیتے، کبھی بھنے چنوں پر گزارہ کر لیتے، کبھی روٹی اور معمولی سالن اور کبھی روٹی اور شہد پر بس کرتے".
"ایک بزرگ جناب میر شاہ جہاں صاحب سید میاں صاحب کے عزیزوں میں سے تھے، ایک مرتبہ انہوں نے چند سوالات تحریری صورت میں میاں صاحب کی خدمت میں بھیجے، میاں صاحب نے ان کا جواب 8/اکتوبر 1900ء کو ارسال فرمایا، جواب میں ایک فقرہ یہ تھا کہ :"دولت نہ کبھی ہمارے پاس ہوئی، نہ اب ہے، جو کسی کے پاس چھوڑ جاؤں، خرچ کے موافق اللہ تعالیٰ دیتا رہا، یہ اس کا احسان ہے".
"میاں صاحب کے جانثار معتقدین میں سے دہلی کے ایک مشہور سودا گر میاں عطاء اللہ پنجابی تھے، انہوں نے ایک دن عرض کیا کہ حضور آپ بہت ضعیف ہوچکے ہو گئے ہیں، ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھانے میں آپ کو تکلیف ہوتی ہے، روئی کا گدہ بنا دیتا ہوں، اس پر بیٹھ کر طلبا کو پڑھایا کیجئے، فرمایا :"پرانی قبر پر کیا گچ کروگے" ان کی درخواست میاں صاحب نے منظور نہیں فرمائی.
"والیہ بھوپال نواب سکندر جہاں بیگم اپنی ریاست کے مدار المہام منشی جمال الدین صدیقی کے ساتھ دہلی آئیں اور حضرت میاں صاحب سے ملیں، ان سے ریاست کا عہدہ" قاضی القضاۃ"قبول کرنے کی درخواست کی، میاں صاحب نے انکار کر دیا، فرمایا میں تو ریاست کے" قاضی القضاۃ" کے منصب عالی پر فائز ہو کر حاکمانہ مسند پر بیٹھ جاؤں گا اور ٹھاٹھ سے امیرانہ زندگی بسر کروں گا، لیکن یہ غریب طلبہ جو چٹائی پر بیٹھ کر علم حدیث حاصل کرنے کے متمنی ہیں، مجھے کہاں ملیں گے؟ ... ".
10-مولانا امین احسن اصلاحی مشہور اہل حدیث عالم ومحدث مولانا عبد الرحمن مبارکپوری کے بارے میں لکھا ہے :
"مولانا مبارک پوری حقیقی معنوں میں زاہد تھے، انہوں نے دنیا کمانے کی کوئی فکر نہیں کی، آخری عمر میں تو تمام ترغیبات کو نظر انداز کر کے صرف فن حدیث کو لے کر اپنے حجرے میں معتکف ہوگئے تھے، ان کی زندگی نہایت درویشانہ اور غریبانہ تھی، حالانکہ اگر وہ چاہتے تو بڑے عیش وآرام کی زندگی بسر کرسکتے تھے، وہ پشاور سے لے کر کلکتے تک اہل حدیث علما اور عوام کے مرکز عقیدت تھے، اور سعودی حکومت بھی ایک زمانے میں ان کی خدمات حاصل کرنے کی متمنی تھی، لیکن وہ شرح ترمذی کا کام لے کر اس طرح دنیا سے منقطع ہو کر بیٹھ گئے کہ پھر موت کے سوا ان کے زاویے سے ان کو کوئی دوسرا نہ اٹھا سکا".
Wednesday, August 21, 2019
علما اور شانِ بے نیازی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
جھوٹ بولنے والے کا منہ کالا ہو
اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین ....... شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...
-
[قرآن کریم میں وارد"فتیل"-"نقیر"-اور"قطمیر"کا معنی] کل شام کی بات ہے ایک بھائی نے مجھ سے"نقیر"...
-
صفة اليدين : [ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں،اللہ تعالی کی یہ ایک ذاتی صفت ہے ]: اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَان﴾[...
-
[تصنيف وتالیف کی اہمیت اور اس میں اہل علم کا منہج] : .............. 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین ............. 1 -اما...
No comments:
Post a Comment