[ اس زمانے کی نسبت آج کے دور میں کتاب لکھنا آسان ہے]:
............
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
............
اس زمانے میں آج کل کی طرح سہولتیں بالکل حاصل نہ تھیں، نہ سفر زیادہ آرام دہ تھا اور نہ قیام میں وہ سہولتیں میسر تھیں جو موجودہ دور میں میسر ہیں،اس لئے اُس زمانے کی نسبت آج کے دور میں کتاب لکھنا بہت آسان ہے.
1-اس زمانے میں کتابوں کا حصول بہت مشکل تھا:
أ-ایک وقت تھا کہ نواب صديق حسن خاں نے"اتحاف النبلاء" لکھی تو اس میں جا بجا چند ایسی کتابوں کی دستیابی پر "ظفرتُ بها" کا جملہ لکھا ہے ،جن میں سے ہر ایک کتاب اب ہر چھوٹی بڑی لائبریری میں بآسانی مل سکتی ہے، مثلاً "نيل الأوطار للشوكاني"- "إعلام الموقعين عن رب العالمين لابن القيم" - "زاد المعاد في هدي خير العباد لابن القيم"وغیرہ کے مل جانے پر نواب صاحب نے بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے بہ فضل ایزدی مجھے یہ کتاب قلمی یا مطبوعہ میسر آئی ہے.
ب-ایک وہ زمانہ بھی تھا کہ "زاد المعاد" کی تلاش میں علامہ امیر صنعانی صاحب "سبل السلام" کی عمر تمام ہوگئی اور بہ صرف زرِ کثیر بھی یہ کتاب آپ کو نہ ملی، آخری عمر کے قریب جب دستیاب ہوئی تو انتہائی حسرت زا اشعار درد وغم میں ڈوبے ہوئے آپ کی زبان میں جاری ہوئے،لیکن آج ہر طالب علم کے لیے بآسانی میسر ہے.
ج-ابن حزم:
ابن حزم کے دور میں بعض حدیث کی کتابیں اندلس نہیں پہنچی تھیں، جیسے ابن ماجہ وغیرہ، اس کے باوجود بھی انہوں نے تصنیفات کے انبار لگا دیئے!
د-بیہقی:
مشہور جغرافیائی عالم یاقوت حموی کے بقول امام بیہقی ایک ہزار جزء لکھے ہیں ،اور تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کے پاس بعض مصادر ومراجع کی کتابیں نہیں تھیں جیسے:سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور سنن ترمذی، جیساکہ ابن عبد الہادی نے لکھا ہے.
"صنف الإمام البيهقي ألف جزء كما قاله ياقوت الحموي ومما يتعجب منه أنه لم يكن عنده سنن النسائي ولا ابن ماجه ولا الترمذي كما قاله ابن عبدالهادي".
آج تو کہیں سے چھپی کتابیں گھر بیٹھے پڑھ اور منگوا سکتے ہیں!
2- اس زمانے میں جو کتابیں ملتی تھیں، ان میں بعض میں فہرست مضامین بھی نہیں ہوتی تھی، لکھنے والا بڑی محنت سے اس کے صفحات سے اپنے مطلب کی عبارت تلاش کرتا تھا.
تذکرہ نگاروں نے امام مسلم کے تعلق سے لکھا ہے کہ ان سے کسی نے کسی حدیث کے بارے میں پوچھا جس کے متعلق امام مسلم کے پاس صحیح علم نہ تھا، آپ اس کا جواب نہ دے سکے، گھر آکر آپ اس حدیث کی تلاش میں لگ گئے، احادیث کی نوشتوں کا معائنہ کرتے ہوئے الٹ پھیر کرنے لگے، پاس میں کھجور کا ٹوکرا رکھا ہوا تھا، اس دوران اس میں سے کھاتے رہے، تلاش حدیث کی انہماک کے سبب، اس طرح بے شعوری میں کھجور کا ٹوکرا کھا کر خالی کر دیئے، اس کا احساس اس وقت ہوا جب آپ کو حدیث مل گئی، کھجوریں زیادہ کھا جانے کی وجہ سے آپ بیمار ہوگئے، اور اسی بیماری میں آپ کی وفات ہوگئی.
آج حوالے کی کتابیں بالعموم میسر آجاتی ہیں،ان پر فہرست مضامین کے علاوہ اسمائے رجال وکتب اور اسمائے مقامات کا اشاریہ بھی آخر کتاب میں مرقوم ہوتا ہے، اشاریہ دیکھئے اور جس شخص کے نام، جس کتاب اور جس مقام کی آپ کو ضرورت ہے، صفحہ دیکھ کر اسے نکال لیجئے،بلکہ آج کل ایک بٹن دبانے پر مطلوبہ چیزیں نگاہوں کے سامنے ہوتی ہیں.
3-اس زمانے میں کاغذ اور قلم کی فراوانی بھی نہیں تھی:
آج کاغذات کی فراوانی ہے لیکن ایک وقت تھا قلم نہ آج کے دور کی طرح لکھتا تھا اور نہ ہی کاغذات اس طرح میسر تھے.
أ-امام ابو حاتم رازی فرماتے ہیں کہ :
"... میں امام شافعی کی کتابوں کو لکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا لیکن جب وہاں (مصر) میں ٹھہرنے کا ارادہ بن گیا تو میں نے امام صاحب کی کتابوں سے سب سے زیادہ واقفیت رکھنے والے شخص سے رابطہ کیا اور یہ طے پایا کہ وہ ساری کتابیں اسی(80)درہم میں مجھے نقل کر دے گا، میں نے کاغذ اس کے حوالہ کر دیا، میں اپنے ساتھ استعمال کے لئے دو باریک کپڑے لے گیا تھا لیکن جب امام شافعی کی کتابوں کو لکھوانے کا ارادہ بن گیا تو ان دونوں کو ساٹھ درہم میں فروخت کر دیا، اور اس اس درہم میں سو ورق کاغذ خرید کر امام صاحب کی کتابیں لکھوائیں". [مقدمة الجرح والتعديل ص/340].
ب-شیخ البانی کے متعلق آتا ہے کہ ایک وقت تھا جب ان کو لکھنے کے لئے کاغذ بھی دستیاب نہ تھے، چنانچہ گلیوں میں ادھر ادھر پڑے دعوتی کارڈ اٹھا لاتے تاکہ ان کے خالی حصوں پر لکھ سکیں.
4-پھر بجلی،اے سی اور پنکھے وغیرہ کی سہولت بھی حاصل نہ تھی،جبکہ آج بجلی اور پنکھے وغیرہ کا نہایت آرام دہ سلسلہ موجود ہے.
أ-امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری-رحمہ اللہ-نے "التاريخ الكبير" (جو متعدد جلدوں پر مشتمل ہے) مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی کے صحن پر چاندنی راتوں میں لکھی ہے، اس وقت ان کی عمر محض اٹھارہ سال تھی،خود امام موصوف کا بیان ہے:
"فلما طعنت في ثماني عشرة سنة جعلت أصنف قضايا الصحابة والتابعين وأقاويلهم وذلك أيام عبيد الله بن موسى وصنفت كتاب التاريخ إذ ذاك عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم في الليالي المقمرة وقل اسم في التاريخ إلا وله عندي قصة".
ب-مولانا ابوالکلام آزاد-رحمہ اللہ-کی بیوی زلیخا بیگم وفاشعار اور شوہر کی خوشی پر قربان ہوجانے والی ایک مکمل مشرقی خاتوں تھیں،حمیدہ سلطانہ لکھتی ہیں کہ ایک دن صبح جو ہم پہنچے تو بیگم آزاد کی نرگسی آنکھوں میں ڈورے دیکھ کر والدہ نے ان سے مسکرا کر کہا ،کیا بات ہے؟انہوں نےجواب دیا:
"آج کل مولانا قرآن پاک کی تفسیر لکھ رہے ہیں،رات کے دو بجے کے بعد اٹھ بیٹھتے ہیں،جتنی دیر وہ لکھتے ہیں پنکھا کھینچتی رہتی ہوں،موسم بے حد گرم ہے،یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ جاگیں اور محنت کریں اور میں آرام سے سوتی رہوں ". (ایوان اردو کا مولانا آزاد نمبر ص/145)۔
5- کمپیوٹر کی سہولت سے بھی آج کا مصنف بہرہ ور ہے، جبکہ پہلے یہ خواب تھا،ویڈیو لیکچرز تو اس دور کی ایجاد ہے، آڈیو ریکارڈنگ بھی محض نصف صدی کا قصہ ہے،چھاپہ خانہ اگرچہ کسی درجے قدیم ہے لیکن مسلمان تو اس میں بھی بہت پیچھے رہے ہیں اور آج! آج تو صورت حال یہ ہے کہ معمولی پڑھا لکھا طالب علم بھی کمپیوٹر کی مدد سے تحقیق وتخریج کر رہا ہے،سب سے بڑھ کر یہ کہ انٹرنیٹ کی سہولت بھی دستیاب ہے.
ماضی میں ہمارے اسلاف کو یہ محیر العقول سہولیات کہاں حاصل تھیں؟ انہیں تو اُس دور کے مطابق سہولیات بھی آسانی حاصل نہیں ہو پائی تھیں.
6-اس زمانے میں زیادہ تر لوگ زمین پر صف یا دری بچھا کر بیٹھتے اور لکھتے تھے یا چار پائی پر بیٹھ کر یہ فریضہ انجام دیتے تھے، اب میز اور کرسیوں کا زمانہ ہے، تعجب ہوتا ہے، وہ اہل علم کس طرح اتنی ضخیم اور محققانہ کتابیں لکھ گئے ہیں اور کتنا بڑا ذخیرئہ علم اپنے بعد میں آنے والوں کو دے گئے ہیں، اب ان کتابوں پر اشاریے لکھ کر اور ان کی تخریج کرکے لوگ پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں.
7-دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے زمانے میں مالی مفاد یا شہرت وناموری کا تصور بہت کم تھا لیکن آج کے موجودہ سہولیات وذرائع ابلاغ کی ایجاد نے عالم گیر شہرت اور مالی مفاد کے مواقع میسر کر دیئے ہیں! (اللہ ہمیں بچائے).
Friday, August 23, 2019
آج کتاب لکھنا آسان ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
جھوٹ بولنے والے کا منہ کالا ہو
اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین ....... شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...
-
[قرآن کریم میں وارد"فتیل"-"نقیر"-اور"قطمیر"کا معنی] کل شام کی بات ہے ایک بھائی نے مجھ سے"نقیر"...
-
صفة اليدين : [ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں،اللہ تعالی کی یہ ایک ذاتی صفت ہے ]: اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَان﴾[...
-
[تصنيف وتالیف کی اہمیت اور اس میں اہل علم کا منہج] : .............. 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین ............. 1 -اما...
No comments:
Post a Comment