[ جسمانی طور پر معذور لوگوں نے وہ کر دکھایا...] :
.............
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
.............
اللہ تعالیٰ کے معاملات بھی عجیب قسم کے ہیں،کسی کے جسم کا کوئی حصہ کم زور پڑ جاتا ہے یا ختم ہوجاتا ہے تو عام طور سے دیکھا گیا ہے کہ وہ اس کے جسم کے کسی دوسرے حصے کو توانائی بخش دیتا ہے، ہم نے بہت سے نابیناؤں کو دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بصارت ختم کر دی تو انہیں بصیرت کی نعمت عطا فرما دی اور اس خدا داد نعمت کے نتیجے میں انہوں نے اپنے عہد کے بہت بڑے اصحاب علم کی حیثیت سے شہرت پائی اور ایسے ایسے علمی کارنامے انجام دیے جو ان کے ہم عصر اور ہر وقت کے ساتھی بینا اہل علم انجام نہ دے سکے.
1-تاریخ میں آج سیکڑوں، عالموں، مقرروں اور مصنفوں کے نام ملتے ہیں جو ظاہری آنکھوں سے محروم تھے، مگر علم کی روشنی نے ان کے ضمیر کو اس طرح منور کردیا تھا کہ ظاہری آنکھوں سے مستغنی ہوگئے تھے.
أ-بشار بن برد ،ابوالعيناء ،علی قیروانی ضریر اس پایے کے شاعر اور ادیب تھے کہ اپنے زمانے میں فردِ روزگار سمجھے جاتے تھے، مگر حیرت ہوتی ہے، جب ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ سرمئہ بصارت سے محروم تھے.
ب-ابو العلاء المعری کے فضل وکمال سے کس تاریخ دان کے کان نا آشنا ہیں؟ لیکن وہ بھی اسی طرح باکمال جماعت کا ایک فرد ہے، جو بچپن میں دولت بصارت سے محروم ہوگئے، مگر اپنی کوششوں کے صلے میں دولت علم سے مالا مال ہوئے.
ج-حافظ فتحی:
حافظ فتح محمد فتحی پنجاب کے ضلع چکوال کے ایک گاؤں بھیر پور کے ایک غریب اور ان پڑھ گھرانے میں 1930ء پیدا ہوئے، مادر زاد نابینا تھے، گاؤں اور خاندان کے لوگ پیر پرست اور بدعات میں گھرے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے قرآن مجید حفظ کر لیا،اور بدعات سے نجات ملی، اپنے ملک کے مختلف مدارس میں علم حاصل کیا، اور پھر حج وعمرہ کے لئے مکہ مکرمہ پہنچ گئے، حج کیا پھر ریاض چلے گئے، وہاں شیخ محمد بن ابراہیم اور شیخ ابن باز کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور ان کے حلقہ درس میں شرکت کی، کچھ مدت ریاض میں ان کا قیام رہا، انہی دنوں مدینہ یونیورسٹی کا اجرا عمل میں آیا، اور وہ مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا.
مدینہ یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہی وہ مکہ مکرمہ آگئے اور انہیں حرم مکی میں مدرس مقرر کر دیا گیا، یہ بہت بڑا اعزاز تھا جس کا انہیں سعودی حکومت کی طرف سے مستحق قرار دیا گیا.
حافظ فتحی کتابوں کے بے حد شائق تھے، ان کا ذاتی کتب خانہ جو ان کے گھر میں تھا، متعدد موضوعات کی ہزاروں کتابوں پر مشتمل تھا، نابینا ہونے کی وجہ سے تو وہ خود تو یہ کتابیں پڑھ نہیں سکتے تھے، لیکن بعض اہل علم سے باقاعدہ ان کی سماعت کرتے تھے، وہ بے حد ذہین تھے اور ان کا حافظہ بہت مضبوط تھا، جس کتاب کی ایک مرتبہ سماعت کرلیتے، اس کے مندرجات ان کے حافظے کی لوح پر نقش ہوجاتے. [گلستان حدیث ص/250].
د-شیخ ابن باز:
شیخ عبد العزيز بن باز کی عظیم المرتبت شخصیت عالم اسلام میں کسی تعارف کی محتاج نہیں، وہ مملکت سعودی عرب کے مفتی اعظم، دار الافتاء کے رئیس، مدینہ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر پھر اس کے چانسلر، اس کے علاوہ بے شمار اسلامی اداروں کے سربراہ تھے.
شیخ ابن باز بچپن میں بہت کمزور تھے، یہاں تک کہ تاخیر سے چلنا سیکھا تھا، اٹھارہ سال کی عمر میں نابینا ہوگئے تھے،بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا، 25 سال کی عمر میں ماں بھی چل بسی تھی.
شیخ ابن باز نابینا ہونے کے باوجود بہت سی کتابوں،رسائل اور فتووں کے مصنف ہیں.
شیخ محمد بن عبد الوهاب نجدی کے بعد سعودی عرب کے لوگوں کے دلوں میں سب سے زیادہ جس عالم کی عزت واحترام ہے وہ یہی شیخ ابن باز ہیں.
ظاہری بصارت سے محروم اور ایمانی اور قلبی بصیرت سے معمور یہ شخص نوجوانی ہی کے دور سے حق گو، بے باکی، امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں عالمی شہرت کا مالک رہا ہے،اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے :
استاد(شیخ محمد بن ابراہیم) کے احترام کے باوجود "طلقات ثلاثہ" کے ایک مجلس میں ایک ہی طلاق ہونے اور آٹھ رکعات تراویح وغیرہ کے سلسلے میں آپ نے استاد اور تمام حنبلی علما سے اختلاف کیا اور اہل حدیث مسلک کی نشر واشاعت کی.(رحمہ اللہ).
ھ-شیخ عبد العزيز بن عبد اللہ آل شيخ:
سعودی عرب کے موجودہ مفتی بھی نابینا ہیں،اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ اپنی حفاظت وصیانت میں رکھے اور آپ سے اپنے دین کی بیش از بیش خدمات لے.
و-طہ حسین :
مشہور مصری ادیب، نقاد،اور انشا پرداز ڈاکٹر طہ حسین کو پوری دنیا "عميد الأدب العربي" - "عربی ادب کا ڈین" کے نام سے جانتی ہے، یہ تیس برس کی عمر میں نابینا ہوگیا تھا، تاہم اپنی مسلسل محنت اور لگن سے وہ علم کے مدارج طئے کرتے چلے گئے اور اب عربی زبان وادب میں بین الاقوامی سطح پر ایک معتبر حوالہ مانے جاتے ہیں.
ڈاکٹر طہ حسین کی خواہش جامعہ ازہر میں پڑھنے کی تھی لیکن وہاں ان کا داخلہ نہیں ہوا، لہذا مصر کی کسی دوسری یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید اعلی تعلیم کے لئے فرانس چلے گئے،انہوں نے 1917ء میں فرنچ زبان میں رسالہ "الفلسفة الاجتماعية عند ابن خلدون" لکھا اور اس کے ذریعہ سے "سربون یونیورسٹی" سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، واضح رہے کہ طہ حسین کی حیثیت عرب دنیا میں جدیدیت کے راہنماؤں کی ہے.
ز-قاری حنیف:
برصغیر کا مشہور اردو خطیب، جس کی تلاوت قرآن اور سریلی آواز سے قارئین کے پہلو میں رکھا ہوا دل اچھلنے لگتا ہے.
ح-اسٹیفن ہاکنگ:
پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ(Stephen howking) یہ ایک مشہور برطانوی سائنس داں تھے، جو جنوری 1942 کو انگلینڈ میں پیدا ہوئے اور 14 مارچ 2018 کو ان کی وفات ہوئی، یہ ایک عجیب و غریب مرض میں مبتلا تھے، جس کی وجہ سے انکا سارا جسم سوائے آنکھوں کے پلکوں کے کام نہیں کرتا تھا، وہ اپنی بات پلکوں کے ذریعہ کرتے تھے، جس کو انکا کمپیوٹر ٹائپ کرکے لکھ دیتا تھا - انہیں اس صدی کا آئنستائن کہتے ہیں، ان کے کئی کارنامے ہیں، انہیں انہی کارناموں کی وجہ سے 18 بڑے بڑے ایوارڈوں سے نوازا گیا تھا، اتنی لاچاری کے باوجود بھی یہ اپنی زندگی سے نا امید نہیں ہوئے اوردنیا کو کئی ایسی راستے دیئے جسکا تصور تک کوئی نہیں کرسکتے، جن میں سے ایک بلیک ہول(Black Hole) کا تعارف ہے.
ط - قالون:
مدینے کا مشہور قاری قالون کو کون نہیں جانتا؟ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ صاحب شدید بہرے تھے،کہا جاتا ہے کہ: "كان قالون أصم شديد الصمم لايسمع البوق"-"وہ اتنے بہرے تھے کہ بگل(ہارن) کی آواز بھی انہیں سنائی نہیں دیتی تھی" لیکن جب کوئی ان کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کرتا تو ان کے ہونٹوں کے حرکات سے غلطیاں پکڑ لیتے تھے!
2-{ قُلْ هو الذي أنشأكم وجعل لكم السمع والأبصار والأفئدة قليلاً ما تشكرون} [الملك:23]-"کہہ دیجئے کہ وہی اللہ ہی جس نے تمہیں پیدا اور تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے تم بہت ہی کم شکرگزاری کرتے ہو".
بیشمار نعمتوں میں سے یہ تین نعمتیں (کان، آنکھ اور دل) اس لئے ذکر فرمایا کہ یہ تینوں علم حاصل کرنے کے ذرائع ہیں، ان میں بھی سب سے اہم ذریعہ "کان" ہے ،یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے اس کو مقدم رکھا ہے.
دنیا کا عام خیال ہے کہ آنکھوں سے بڑھ کر انسان کے لئے کوئی نعمت نہیں، یہ جاتی ہے تو تنہا نہیں جاتی، زندگی کا لطف بھی اپنے ساتھ لے جاتی ہے، عام طور پر بہرے سے زیادہ مجبور اور بہت زیادہ قابل رحم اندھا سمجھاجاتا ہے، جو زندگی میں مجبور ومحتاج ہوجاتا ہے، نہ چل سکتا ہے، نہ کسی کو دیکھ سکتا ہے، فطرت کے مناظر سے محروم اور دوستوں، عزیزوں کی صورت سے نا آشنا رہتا ہے، لیکن درحقیقت یہ خیال صحیح نہیں، سب سے زیادہ مجبور، محتاج اور قابل رحم وہ انسان ہے، جو قوت سماعت سے محروم دنیا میں آیا، یا زمانِ طفولیت میں اس دولت سے محروم ہو گیا، آنکھوں سے معذور انسان اس لئے بدقسمت ہے کہ ایک قوت جاتی رہی، لیکن قوت سماعت سے محروم اس سے زیادہ بدقسمت ہے کہ دو قوتیں اس سے ضائع ہوگئیں، اندھا دنیا کے دل چسپ مناظر کے جلوؤں سے محروم ہے، دوستوں کی صورت سے نا آشنا ہے، مگر پھر بھی ایک ایسی چیز اپنے پاس رکھتا ہے جو نقشہ اور صورت اس کے ذہن میں محفوظ کر دیتی ہے، لیکن بہرا دنیا کے دل چسپ جلوؤں کو دیکھتا ہے، مگر چونکہ نہ کسی کی سنتا ہے اور نہ اپنی سنا سکتا ہے، اس لئے علم کی روشنی سے بالکل محروم رہتا ہے، آنکھوں سے معذور ہزاروں برسوں کی علمی تحقیقات سے قوت سماعت کی بدولت واقف ہو سکتا ہے، اس لئے آنکھوں کا کام کانوں سے لے سکتا ہے، مگر جو بدقسمت قوت سے محروم ہے اس کے پاس کوئی طبعی ذریعہ ایسا نہیں، جس سے اس قوت کی کمی کی تلافی ہوسکے، اس بنا پر ظاہر ہے کہ سب سے بڑی نعمت قوت سماعت ہے جس کا ضائع ہونا درحقیقت قوت گویائی کا ضائع ہونا ہے، جو شخص اس قوت سے محروم ہے وہ زندگی کے لطف سے محروم ہے، اگرچہ قدرت کی بخشی ہوئی نعمتوں میں سے کوئی نعمت ایسی نہیں ہے، جس کا ضائع ہونا زندگی کے لئے بربادی نہ ہو.
3-جو بچے ذہنی یا جسمانی طور پر معذور پیدا ہوتے ہیں گھر والے ان معذور بچوں کو دیکھ کر نہ صرف خون کے آنسو بہاتے ہیں بلکہ ایک ایسا بھی وقت اور مقام آتا ہے کہ وہ ان سے تنگ بھی آجاتے ہیں، ایسے معذور بچوں کو معاشرے کا ایک بہترین شہری بنانے کے لئے قوم کے دانشوروں کو کوشش کرنی چاہیے، صرف حکومت پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے. یوروپ اور ترقی یافتہ ملکوں میں ذہنی اور جسمانی طور معذور بچوں کے لئے تعلیم کا بہترین سسٹم ہے، لیکن ہمارے ہندوستان کا اس سلسلے میں کیا رول ہے اس کا ریکارڈ میرے پاس نہیں ہے.
ویسے ہمارے بہار کے سرکاری اسکولوں کی حالت نہایت خستہ ہے، ایسی صورت میں چھوٹے چھوٹے ذہنی وجسمانی معذور بچوں کی تعلیم گاہوں کا وجود نا ممکن سا لگتا ہے.
Monday, August 19, 2019
جسمانی طور پر معذور لوگوں نے وہ کر دکھایا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
جھوٹ بولنے والے کا منہ کالا ہو
اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین ....... شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...
-
[قرآن کریم میں وارد"فتیل"-"نقیر"-اور"قطمیر"کا معنی] کل شام کی بات ہے ایک بھائی نے مجھ سے"نقیر"...
-
صفة اليدين : [ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں،اللہ تعالی کی یہ ایک ذاتی صفت ہے ]: اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَان﴾[...
-
[تصنيف وتالیف کی اہمیت اور اس میں اہل علم کا منہج] : .............. 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین ............. 1 -اما...
No comments:
Post a Comment