[تصنيف وتالیف کی اہمیت اور اس میں اہل علم کا منہج] :
..............
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
.............
1 -امام ابن جوزی کہتے ہیں :
"موت سے انسان کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے، لہذا اسے چاہئے کہ وہ زندگی ہی میں کچھ ایسا عمل کرکے جائے جس کا ثواب موت کے بعد بھی جاری رہے، اگر ان کے پاس کچھ مال ہو تو اللہ کی راہ میں وقف کرے، کوئی پودا لگا دے،کوئی کنواں خود دے، یا پھر کوئی علمی تصنیف چھوڑ جائے،" فإن تصنیف العالم ولده المخلد"-"اس لئے کہ عالم کی تصنیف اس کی ہمیشہ باقی رہنے والی اولاد ہے".
امام ابن جوزی کی بات بالکل درست ہے اس لئے کہ کچھ لوگ مر کر بھی ہمارے درمیان زندہ ہیں.
حافظ ابن کثیر کہتے ہیں :
"شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا انتقال ہوا، میں نے ان کے چہرے پر سے کپڑا ہٹایا اور بوسہ دیا،ان پر بڑھاپے کے آثار ظاہر تھے، انہوں نے اپنے پیچھےکوئی اولاد نہیں چھوڑی، جو ان کے لئے دعائے خیر کرے،لیکن انہوں نے ایک صالح امت اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہیں جو ان کے لئے دست دعا دراز کرتی رہے گی".
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا جب انتقال ہوا تو شرق وغرب میں ان کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا، ان کے نام کی دھوم صرف مصر وشام میں محدود نہیں تھی، بلکہ جملہ بلاد اسلامیہ میں پھیلی ہوئی تھی، ان کے شاگردوں کا حلقہ ایک تو وہ تھا جنہوں نے رسائل وفتاوی سے علمی فیض حاصل کیا، اور دوسری قسم ان کی تھی جو آپ کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہ کرنے والے تھے،غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے بعد تین چیزیں چھوڑیں :
أ-کتب ورسائل اور فتاوی :جن میں ان کے افکار وآراء تحریری طور پر موجود ہیں.
ب-تلامیذ :ان شاگردوں نے اپنے استاد کی آراء کی وضاحت کی، ان ابواب کو منظم کیا، ان کے مسائل کو مرتب کیا، اور پھر ان کی طرف دعوت دی.
ج-کئی ایسی جماعتیں :جنہوں نے امام صاحب کے افکار وآراء کو اپنایا اور انہی کی راہنمائی میں گام فرسائی کی.
2-ابن الجوزی ہی کا قول ہے:"وجدت أن التأليف والتصنيف أنفع من التدريس" - "کہ تصنیف وتالیف کا شغل درس وتدریس سے زیادہ نفع بخش ہے".
3-امام طبرانی-رحمہ اللہ- اپنی کتاب "المعجم الأوسط" کے متعلق فرماتے تھے:"هذا الكتاب روحي".
حافظ ذہبی-رحمہ اللہ-ان کے اس قول کو نقل کرنے کے بعد اس کا سبب ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"فإنه تعب عليه". یعنی"اسے تیار کرنے میں انہوں نے کافی محنتیں کی ہیں،اسے اپنے خون جگر سے سینچا ہے" ۔
4 - تصنيف وتالیف کے باب میں اہل علم کا منہج :
1 - اخلاص:
کتاب لکھنے یعنی تصنیف وتالیف کے بہت سے مقاصد و اہداف ہیں جیسے :
أ-مال کا حصول:
بہت سارے مصنفین ومؤلفین کتابیں اس لئے لکھتے ہیں تا کہ وہ اس سے دنیا میں مال کما سکیں، اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں.
ب-جاہ ومنصب کا حصول :
کچھ لوگ لکھتے اس لئے ہیں تا کہ وہ اس کے ذریعے کرسی اور منصب حاصل کر سکیں.
ج-شہرت کی بھوک:
کچھ لوگ کتابیں لکھ کر نام کمانا چاہتے ہیں،وہ کتابیں اس لئے لکھتے ہیں تاکہ دنیا میں ان کے نام کا ڈھنڈورا پیٹا جائے،آج یہ بہت بڑی مصیبت اور بیماری بن گئی ہے.(اللہ ہمیں اس سے بچائے) .
اہل علم ان گھٹیا مقصدوں سے کوسوں دور تھے،تصنیف وتالیف سے ان کا مقصد صرف اللہ کی رضا حاصل کرنا تھی.
أ-چنانچہ بہت سارے ائمہ نے اپنی کتابوں کا آغاز حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث "إنما الأعمال بالنيات" سے کیا ہے،انہی میں سے ایک امام بخاری بھی ہیں.
ب-علامہ کرمانی شرح بخاری کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:"وما توسلت به إلى غرض دنيوي، من مال، أو جاه،.. بل جعلته لله، ولوجهه خالصاً".
ج-امام شاطبی لکھتے ہیں:"لا يقرأ قصيدتي هذه أحد إلا نفعه الله بها، لأني نظمتها لله تعالى مخلصاً له في ذلك".
اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص ہی کی وجہ سے ان کی کتابوں کو قبول عام عطا فرمایا ہے.
امام کرمانی شارح بخاری "صحیح بخاری" کے متعلق لکھا ہے:"لما صحّح فيه النية، وصفّى فيه الطوية، جعل الله تعالى كتابه علما من أعلام الإسلام".
علامہ عینی نے کہا ہے:"أُعطى هذا الكتاب مالم يُعطَ غيره من كتب الإسلام، وقبله أهل المشرق والمغرب".
د-حافظ ابن کثیر نے امام شیرازی کی تصانیف کے متعلق لکھا ہے:"انتشرت تصانيفه شرقاً وغربا لبركة إخلاصه".
2 - اپنی اور امت مسلمہ کی اصلاح کی خاطر کتابیں لکھنا:
اہل علم اپنی اصلاح اور وقت کے تقاضے اور لوگوں کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر کتابیں لکھتے تھے، اپنی صلاحیت کو اجاگر کرنے اور کتابوں کے انبار لگانے کی غرض سے نہیں لکھتے تھے.
أ-امام مالک کہتے ہیں:میں نے اپنے نفس کی اصلاح کی خاطر علم حاصل کیا: "طلبت العلم لنفسي".أي: لإصلاح نفسي.
ب-امام قرطبی اپنی تفسیر"الجامع لأحکام القرآن" کے سلسلے میں لکھا ہے:"عملته تذكرة لنفسي، وذخيرة ليوم رمسي".
ج-ابن اثیر نے اپنی عظیم تصنیف"الکامل"کے تعلق سے لکھا ہے:"شرعت في تأليفه ليكون تذكرة لي..".
د-شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے کسی وقت بھی محض تصنیف کی غرض سے کوئی کتاب یا کوئی رسالہ نہیں لکھا بلکہ وہ وقتی حالات سے مجبور ہو کر لکھتے تھے، انہوں نے یا تو ہنگامہ خیز اختلافی مسائل کے متعلق اپنے خیالات کی ترجمانی کی ہے یا لوگوں کے سوالات کا جواب دیا ہے، یا کسی کی تحریک پر شیعوں، نصرانیوں، اتحادیوں، فلسفیوں اور منطقیوں وغیرہ پر تردید لکھی ہے، یا بتقضائے وقت دوسرے لوگوں کے نام خطوط لکھے ہیں.
ہ-شیخ الاسلام محمد بن عبد الوهاب کی متعدد فنون میں تصانیف ہیں اور یہ انہوں نے وقت کے تقاضے اور لوگوں کی ضرورت کو مد نظر رکھ ہی کر لکھی تھیں، وہ اس لئے نہیں لکھتے تھے کہ وہ لکھ سکتے تھے، بلکہ لوگوں کو اس کے ذریعے دعوت دینا مقصود تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی کتابوں کو قبولیت اور شہرت دوام عطا فرمائی ہے.
3-تصنیف کے وقت استخارہ کرنا:
بہت سارے ائمہ کتابیں لکھنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے اس سلسلے میں استخارہ کرتے تھے.
أ-امام شیرازی کے بارے میں آتا ہے کہ وہ دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد ہی کوئی مسئلہ لکھتے تھے.
ب-امام ابن جرير طبری کہتے ہیں میں نے تفسیر لکھنے سے پہلے اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کیا.
ج-قاضی ابو یعلی "طبقات الحنابلة" کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ:
"میں نے اس کتاب کی تالیف کے متعلق اللہ تعالیٰ سے استخارہ کیا".
د-امام ابن رجب اپنی کتاب "لطائف المعارف" کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ :
"میں نے اس کتاب کے مواد جمع کرنے کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کیا".
4-اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا:
اگر بندہ کے کسی بھی عمل میں اللہ تعالیٰ کی توفیق ومدد شامل حال نہ رہے تو انسان ہر قدم پر ٹھوکر کھانے پر مجبور ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے اہل علم کچھ بھی لکھنے سے پہلے کے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگا کرتے تھے.
أ-امام ابن جرير طبری کہتے ہیں:"میرے دل میں تفسیر لکھنے کی جو نیت تھی اس کے لیے مسلسل تین سالوں تک میں نے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی اور اللہ تعالیٰ نے مدد کی".
ب-"طبقات الحنابلة" کے مقدمہ میں قاضی ابو یعلی نے لکھا ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جس کے لئے میں نے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی تھی:"هذا كتاب سألنا الله المعونة على تصنيفه".
ج-امام حاکم کہتے ہیں میں نے زمزم کا پانی نوش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ وہ مجھے اچھا لکھنے(حسن تصنیف) کی توفیق دے:"شربت ماء زمزم، وسألت الله أن يرزقني حسن التصنيف".
5-کتاب چھاپنے میں جلد بازی نہ کرنا:
کتاب لکھنے کے بعد اسے بار بار پڑھنا، اس کے نوک و پلک کو درست کرنا،اس میں حذف واضافہ کرنا ایک اچھے مصنف کی پہچان ہے.
أ-امام بخاری کہتے ہیں میں نے اپنی تمام کتابیں تین تین مرتبہ تصنیف کیا ہے:"صنفت كتبي ثلاث مرات".
ب-امام مزنی کہتے ہیں کہ میں نے "المختصر في الفقه"کو تین تین دفعہ لکھا ہے، اور اس میں تبدیلی کیا". "ألفته ثلاث مرت، وغيّرته".
ج-مولانا آزاد کے متعلق مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی صاحب نے لکھا ہے:
"مولانا کی ہر تحریر ایسی ہے کہ عش عش کرتے رہئے، اعلی انشاء وادب کا نمونہ جس کی تقلید ممکن نہیں،...".
آگے لکھا ہے :
".. لیکن لکھ چکتے تو اتنے چاؤ سے سنواری ہوئی تحریر پر بے رحمی سے ٹوٹ پڑتے، سطروں پر سطریں کٹتی چلی جا رہی ہیں، لفظوں کا قتل عام ہو رہا ہے پھر نظر ثانی کی گئی تو پہلی نظر ثانی سے بھی طبیعت غیر مطمئن، اب پھر چھری چلنے اور قیمہ بنانے لگی.... بات یہ ہے کہ مولانا اپنی تحریر میں خوب محنت کرتے تھے ،ایک ایک لفظ چن چن کر، تول تول کر بٹھاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ تحریریں ادبی اسقام ومعائب سے پاک ہوتیں".
د-ایک کتاب لکھنے میں کئی کئی سال لگے ہیں:
-چالیس سال:
-"موطا امام مالک" کی مدت تصنیف چالیس سال ہے.
-" غريب الحديث لأبي عبيد القاسم بن سلام "کی مدت تصنیف چالیس سال ہے.
-" الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر العسقلاني"کی مدت تالیف چالیس سال ہے.
-تفسير التحرير والتنوير لابن عاشور" کی مدت تصنیف چالیس سال ہے.
-"الروض المربع شرح زاد المستقنع لابن قاسم" کی مدت تصنیف چالیس سال ہے.
تیس سال:
-"التمهيد لابن عبد البر "کی مدت تصنیف تیس سال ہے.
-"تهذيب الكمال للمزي" کی مدت تصنیف تیس سال ہے.
-"فصول البدائع في أصول الشرائع في أصول الفقه لمحمد بن حمزة الفنري الرومي" کی مدت تصنیف تیس سال ہے.
-پچیس سالوں سے زیادہ لگے:
-"فتح الباري لابن حجر العسقلاني" کی مدت تصنیف پچیس سال ہے.
-"دراسات في أسلوب القرآن الكريم لمحمد عبد الخالق عظيمة" کی مدت تصنیف پچیس سال ہے.
-"رحمۃ للعالمین لمنصورپوری "کی مدت تصنیف پچیس سال سے زیادہ ہے.
-بیس سال لگے :
-"المختصر في الفقه للمزني" کی مدت تصنیف بیس سال ہے.
-پندرہ سال لگے:
"صحیح مسلم"کی مدت تصنیف پندرہ سال ہے.
"معاني القرآن للزجاج" کی مدت تصنیف پندرہ سال ہے.
-"نزهة القلوب في تفسير غريب القرآن لمحمد السجستاني" کی مدت تصنیف پندرہ سال ہے.
-"المهذب للشيرازي" کی مدت تصنیف پندرہ سال ہے.
-"المبسوط للسرخسي" کی مدت تصنیف پندرہ سال ہے.
ھ-ہاں بعض ایسے علما بھی گذرے ہیں جو زود نویس، بسیار نگار اور علم کے سمندر تھے،یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی انہون نے ایک ہی نشست میں کتاب لکھ ڈالی، جیسے:
-شیخ الاسلام ابن تیمیہ بہت تیز لکھا کرتے تھے ، ان کے سامنے حوالے کی کتابیں نہیں ہوتی تھیں ،ان کا دماغ خود ایک بہت بڑا کتب خانہ تھا جس کی بنا پر ان کو حوالوں کے تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھی، اکثر ایسا ہوتا تھا کہ کوئی ان کے پاس سوال لے کر آتا اور وہ وہیں بیٹھے بیٹھے تھوڑی دیر میں اس کا جواب لکھ کر دے دیتے تھے،"العقيدة الحموية الكبرى" چھپن صفحوں کا ایک رسالہ ہے جس کو انہوں نے ظہر اور عصر کی نماز کے درمیان لکھا تھا.
"العقيدة الواسطية" ان کی ایک مشہور کتابچہ ہے جس کو انہوں نے عصر اور مغرب کے درمیان لکھا تھا.
اسی طرح ایک شخص حروف قرآن کے قدیم یا حادث ہونے کے متعلق ایک سوال لے کر آیا اور چاہتا تھا کہ اسی وقت اس کا جواب مل جائے تو انہوں نے ایک ہی نشست میں چون صفحوں کا جواب لکھ کر اس کے حوالے کر دیا.
-شاہ محمد اسماعیل شہید نماز کے لئے مسجد کی طرف جا رہے تھے، راستے میں انہیں مولوی فضل حق کا رسالہ ملا، نماز سے فارغ ہوتے ہی جواب لکھنے بیٹھ گئے اور ایک ہی نشست میں اسے پورا کر دیا اسی وجہ ان کی اس تصنیف کا نام "یک روزی" پڑ گیا.
6-کتاب لکھنے کے بعد اسے اہل اختصاص کی خدمت میں پیش کرنا:
تصنيف کے بعد چاہئے کہ اس کو کسی باصلاحیت شخص کی خدمت میں پیش کرے، اور اس سلسلہ میں ان کی رائے جانے.
امام بخاری نے اپنی "صحیح" کو امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین اور علی بن مدینی جیسے کبار شخصیات کے سامنے پیش کیا، انہوں نے اسے پڑھ کر اس کی تعریف کی.
Friday, August 16, 2019
تصنيف وتالیف کی اہمیت اور اس میں علما کے مناہج
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
جھوٹ بولنے والے کا منہ کالا ہو
اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین ....... شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...
-
[قرآن کریم میں وارد"فتیل"-"نقیر"-اور"قطمیر"کا معنی] کل شام کی بات ہے ایک بھائی نے مجھ سے"نقیر"...
-
صفة اليدين : [ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں،اللہ تعالی کی یہ ایک ذاتی صفت ہے ]: اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَان﴾[...
-
[تصنيف وتالیف کی اہمیت اور اس میں اہل علم کا منہج] : .............. 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین ............. 1 -اما...
No comments:
Post a Comment