Monday, August 26, 2019

ابن تیمیہ کی کتابوں کی اہمیت

[ابن تیمیہ کی کتابوں کی اہمیت اور ان کی مطبوعہ کتابوں کی فہرست]:
..............
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
...............
1-شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی زندگی ہی میں یہ حال تھا کہ بڑے بڑے اکابر واعاظمِ علم ائمئہ سلف کی کتابیں فروخت کر ڈالتے تاکہ مؤلفات ابن تیمیہ خرید سکیں.
قاضی شیخ شہاب الدین ملکاوی(جو فقیہ الشام کے لقب سے مشہور ہے)انہوں نے امام نووی کی"شرح مسلم" فروخت کردی اور اس کی قیمت سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی"الرد علی النصاری"(جو اب چار جلدوں میں چھپ گئی ہے) خریدی،ایک شخص نے اس پر اعتراض کیا کہ"شرح مسلم" دے کر ابن تیمیہ کی کتاب خریدتے ہو؟تو کہا :میرے پاس شرح مذکور کے دو نسخے تھے، ایک فروخت کردیا، لیکن اگر ایک ہی نسخہ ہوتا، جب بھی مصنفات ابن تیمیہ کے لئے بلا تامل فروخت کردیتا کیونکہ"مافي شرح مسلم أعرفه ومافي مؤلفاته أنا محتاج إليه".[كذا نقل عنه في الرد الوافر].
2-شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی ایک کتاب "بيان تلبيس الجهمية" کے متعلق ابن عبد الہادی[ت:744ھ]رقمطراز ہیں:
"لو رحل طالب العلم لأجل تحصيله إلى الصين ما ضاعت رحلته] .[العقود الدرية ص/23]-
" اگر کوئی طالب علم اس کتاب کے حصول کی خاطر چین کا سفر کرتا ہے تو اس کا یہ سفر بے کار اور رائیگاں نہیں جائے گا".
3 -شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی وفات سے تقریباً پچاس ساٹھ برس بعد حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ :
"میں نے شمار کیا تو مشہور مؤلفات ابن تیمیہ علاوہ تفسير القرآن کے چار ہزار صفحوں سے زیادہ ہیں، اور باوجود علمائے دولت اور سلاطین وحکامِ عہد کی شدید مخالفتوں کے آج کتب فروشوں کے چوبتروں پر سب سے زیادہ مانگ انہیں کی ہے".[تذکرہ ص/225].
4-شیخ ابن یوسف مرعی لکھتے ہیں کہ :"بلاد مصر وشام کے سیاح جب یمن ونجد کی طرف جاتے ہیں، تو بہترین تحفہ جو ان سے اہل علم طلب کرتے ہیں، امام موصوف کی مؤلفات ہیں".[تذکرہ ص/225].
5-مولانا ابوالکلام آزاد[1958م]لکھتے ہیں:
"سچ یہ ہے کہ متاخرین میں یہ فضیلت ومزیت اللہ تعالی نے صرف حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے ارشد تلامذہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے لئے مخصوص کردی تھی کہ حقائق ومعارف کتاب وسنت کے جمال حقیقی کو بے نقاب کریں'اور جو پردے متاخرین نے یکے بعد دیگرے ڈال دیئے ہیں ان کو اللہ تعالی کی بخشی ہوئی قوت مجددہ ومصلحہ سے چاک چاک کردیں'چنانچہ تاریخ اسلام کے ان دو عظیم الشان انسانوں نے اقسام القرآن کی اس حقیقت کو جابجا واضح کیاہے اور موجودہ زمانے میں سب سے بڑا خوش نصیب انسان وہ ہے جس کے دل کو اللہ تعالی ان مصلحین حقیقی کی تصنیفات کے فہم ودرس کے لئے کھول دے'کہ ان کا نور علم'مشکوۃ نبوت سے براہ راست ماخوذ تھا".[ترجمان القرآن سورہ التین کی تفسیر]۔
مولانا آزاد مزید لکھتے ہیں :
"امام موصوف کی زندگی ہی میں ان کی مصنفات کے اس خاصے کی شہرت یہاں تک عالمگیر ہوچکی تھی کہ مصر وشام وعراق کے کتب فروش ائمئہ سلف کی کتابوں سے زیادہ ان کی مصنفات کے نسخے رکھتے تھے، ان کی زندگی ہی میں ان کی مصنفات سیاح ونو آباد عربوں کے ذریعے چین تک پہنچ چکی تھیں".[تذکرہ ص/223]
6--مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم [ت:1953ء]لکھتے ہیں:
"علم کلام کا شوق تمام تر مولانا شبلی کی تربیت کا نتیجہ ہے،ان کی تصنیفات پڑھیں،ان کی حوالہ دی ہوئی کتابیں دیکھیں،ملل ونحل شہرستانی اور فصل فی الملل والنحل ابن حزم نگاہوں میں رہی،ابن رشد کی کشف الادلہ اور شاہ ولی اللہ صاحب کی حجة اللہ البالغہ سب نے یکے بعد دیگرے اپنا رنگ دکھایا،بالآخر علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کی تصنیفات نے ہر نقش کو مٹا ڈالا اور ہر رنگ کو بے رنگ کردیا"۔[مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں].
7--مولانا سید سلیمان ندوی اپنے استاد شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی کے متعلق لکھتے ہیں:
"الکلام لکھتے وقت ان پر سب سے زیادہ غزالی اور پھر رازی کا اثر تھا لیکن اس کے بعد جب ابن تیمیہ کی کتابیں چھپ چھپ کر آنے لگیں تو علامہ ممدوح کا اثر ان پر غالب آنے لگا، اس اثر کا آغاز علامہ ابن تیمیہ کی کتاب" الر على المنطقيين"سے شروع ہوا اور آخر یہاں تک بڑھا کہ وہ جولائی 1914م میں یعنی وفات سے چار ماہ پہلے مجھے لکھتے ہیں کہ :"تم نے شروع کردیا تو خیر، ورنہ ابن تیمیہ کی لائف فرض اولین ہے، مجھے اس شخص کے سامنے رازی وغزالی سب ہیچ نظر آتے ہیں، ان کی تصنیفات میں ہر روز نئی باتیں ملتی ہیں".
آخر میں مجھ سے فرماتے تھے کہ :"میں اب ہر چیز میں ابن تیمیہ کا ہاتھ پکڑ کر چلنے کو تیار ہوں".[حیات شبلی ص/630].
8-شیخ سراج الدین ابوحفص البزار بغدادی نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تصانیف کے متعلق لکھا ہے :
"ہم سے متعدد علما وافاضل نے ذکر کیا کہ انہوں نے متکلمین کے اقوال ومقالات میں غور وخوض کیا تھا، تاکہ حق وصواب معلوم کریں، لیکن ان میں سے ہر شخص کا یہ حال ہوا کہ جس قدر اس میدان میں بڑھتا گیا، اتنی ہی زیادہ حیرانی وگمراہی سے اپنے تئیں نزدیک پایا، اور ارباب کلام واصول کے اقوال وعقلیات میں سے کوئی بات بھی ایسی نظر نہ آئی جو بنیاد حق کو استوار کرتی اور دل کو اس پر اطمینان وقرار ملتا، حتی کہ ان کی حالت سخت مخدوش ہوگئی، اور اپنے ایمان ویقین کی طرف سے خوف پیدا ہوگیا کہ کہیں تشکیک وانکار کی گمراہی میں ڈوب نہ جائیں، لیکن جب اللہ نے ان پر احسان کیا اور امام ابن تیمیہ کے مؤلفات کے مطالعہ کی توفیق بخشی تو ان کی ہر بات عقل سلیم کے مطابق پائی، اور وہ تمام پردے شک وریب کے ہٹ گئے جو متکلمین کی قیل وقال نے ان کی بصیرت پر ڈال دیے تھے، اگر کسی شخص کو اس بات کی صحت میں شک ہو تو امام موصوف کی مؤلفات آج بھی موجود ہیں، حسد وتعصب سے خالی ہو کر ان کا مطالعہ کرے، ہم کہتے ہیں واللہ، وہ حق ویقین اور طمانیت قلب کو پالے گا، اور دلائل واضحہ وبراہین قاطعہ کا عروۃ الوثقی اس کے ہاتھوں میں ہوگا". [الأعلام العلية في مناقب الإمام ابن تيمية بحوالہ تذكرة مولانا آزاد ص/222-223].
9 - علامہ رشید رضا مصری[ت:1935ء] نے 1923-1925ء کے درمیان جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے چھوٹے چھوٹے رسائل کو اپنے مشہور مجلہ"المنار" میں نشر کرنا شروع کیا تھا، تو ایک مستشرق نے ان کو لکھا کہ یہ تم اپنے مجلہ میں کن کی تحریریں چھاپ رہے ہو:"كأنها القنابل الموقوتة التي تفجّر العالم الإسلامي" - "لگتا ہے ان کی تحریریں ٹائم بم ہیں جن سے عالم اسلام پھٹ پڑیں گے".
برق وبھاپ کے پوجنے والے دانایانِ یورپ کو اس بات علم ہوگیا تھا کہ ابن تیمیہ کی کتابیں دنیا میں انقلاب بپا کر دے گی.
کچھ لوگ چاہتے تھے کہ ابن تیمیہ کی کتابیں منظر عام پر نہ آئیں، کتب خانوں میں سڑ گل جائیں لیکن اللہ تعالیٰ نے کئی لوگوں کو توفیق دی جنہوں نے دنیا کے اطراف واکناف کی لائبریریوں سے ابن تیمیہ کی کتابوں کو نکال کر لوگوں کے سامنے پیش کیا، اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے.
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتابوں کی فہرست:
اگر آپ کے پاس شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی مجموع فتاوی[جو 37 جلدوں پر مشتمل ہے] اور درج ذیل کتابیں ہیں تو سمجھ لیجئے آپ کے پاس شیخ الاسلام کی مطبوعہ ساری کتابیں ہیں.
1 -منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية[1-9 بتحقيق:رشاد سالم].
2 - درء تعارض العقل والنقل[1-11 بتحقيق :رشاد سالم].
3-الصفدية.
4-الاستقامة.
5-جامع الرسائل [1-2بتحقيق:رشاد سالم].
6-جامع المسائل[1 - 9 بتحقيق :محمد عزير شمس].
7-شرح العمدة[1-4 دار عالم الفوائد] .
8-تنبيه الرجل العاقل[دار عالم الفوائد].
9-الرد على الشاذلي [دار عالم الفوائد].
10-جواب الاعتراضات المصرية على الفتيا الحموية[دار عالم الفوائد].
11-الرد على السبكي في مسألة تغليق الطلاق [دار عالم الفوائد].
12-اقتضاء الصراط المستقيم.
13-بيان الدليل على إبطال التحليل.
14-بغية المرتاد[=السبعينية].
15-التسعينية[=المحنة المصرية].
16-الرد على المنطقيين.
17-الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح[1-6 بتحقيق شيخنا :عبد العزيز بن إبراهيم العسكر].
18-شرح العقيدة الأصفهانية.
19-الصارم المسلول على شاتم الرسول.
20-الكلم الطيب.
21-الرد على البكري [=الاستغاثة].
22-الرد على الإخنائي[=الإخنائية].
23-النبوات[1-2 بتحقيق:الطويان].
24-نطرية العقد[=قاعدة العقود]
25-تفسير آيات أشكلت.
26-بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية. [1-10 مجمع الملك فهد].
27-المسودة في أصول الفقه.
28-مسألة حدوث العالم.
29-مسألة توحيد الفلاسفة.
30-قاعدة عظيمة في الفرق بين عبادات أهل الإسلام.
31-قاعدة مختصرة في قتال الكفار.
32-قاعدة في الرد على القائلين بفناء الجنة والنار.
33- المنتقى من عوالي البخاري.
34-جزء فيه الأبدال العوالي.
35-المستدرک على مجموع الفتاوى.
36-مختصر الفتاوى المصرية.
37-الأخبار العلمية من اختبارات شيخ الإسلام ابن تيمية.

کسی ایک ہی فن میں زور دیں

[کسی ایک ہی فن میں زور دیں] :
...............
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
...............
یحی بن معین نے ابراهيم بن عرعرہ کے بارے میں کہا ہے :"ثقة لكنه أفسد نفسه... يدخل في كل شيء" - "ثقہ ہیں لیکن انہوں نے اپنی ذات میں بگاڑ پیدا کردیا چونکہ وہ ہر فن میں گھس جاتے تھے".
1 - اگر آپ ماضی قریب کے بڑے بڑے علما کی سوانح عمریاں پڑھیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے ہر کوئی کئی علوم وفنون کے جانکار تو تھے لیکن ان کا زور کسی ایک ہی فن میں تھا، جیسے:
أ -البانی حدیث میں.
ب-ابن عثيمين فقہ میں.
ج-ابن باز فقہ وفتوی میں.
د-احمد شاکر حدیث وتحقيق میں.
ه-معلمی جرح وتعدیل میں.
و-سید نذیر حسین محدث دہلوی حدیث میں.
مقدمہ "تحفة الأحوذي" میں حضرت میاں صاحب کے بارے میں مرقوم ہے:
"هو بخاري زمانه في علوم الحديث وفقهه وأبوحنيفة أوانه في الاجتهاد وشروطه، وسيبويه دورانه في العربية، وجرجاني أيامه في البلاغة، وشبلي عصره في السلوك والعرفان والإرشاد، وابن أدهم في الزهد واستحقار الدنيا، وابن حنبل إبانه في الورع والتقوى والقول بالحق والصبر على المكاره، آية من آيات الله وحجة من حجج الله".
" یعنی حضرت میاں صاحب علوم حدیث اور اس کی فقاہت میں اپنے وقت کے امام بخاری، اجتہاد میں ابوحنیفہ، عربیت میں سیبویہ، بلاغت میں جرجانی، سلوک اور عرفان وارشاد میں شبلی، زہد وتقوی میں ابن ادہم اور صبر واستقامت اور راست بازی میں احمد بن حنبل تھے".
لیکن جس فن میں انہیں عالم گیر شہرت حاصل ہوئی وہ فن حدیث ہے.
2 -مولانا عبد الرؤوف جھنڈا نگری مرحوم نے لکھا ہے:
"عہد رسالت مآب ہی سے یہ تقسیم چلی آئی ہے خاص خاص لوگ خاص خاص علم وفن میں زیادہ کامل ہوتے تھے ،ترمذی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کے متعلق خود فرمایا تھا:"أفرضكم زيد بن ثابت"،اسی بنا پر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عام حکم تھا:"من أراد القراءة فليأت أبيا ومن أراد أن يسأل الفرائض فليأت زيدا ومن أراد أن يسأل الفقه فليأت معاذا الخ" -
"یعنی فن قرأت کے مسائل میں ابی بن کعب کی طرف اور مسائل میراث میں زید کی طرف اور فقہی مسائل میں معاذ کی طرف رجوع کرو".
3 - مولانا عبد الرؤوف جھنڈا نگری مرحوم نے آگے لکھا ہے:
"اس روایت سے صاف معلوم ہوا کہ عہد صحابہ میں خاص خاص فنون کے اندر مہارت رکھنے والے ہوتے تھے، جن کو بہ نسبت دوسرے علوم کے اس میں زیادہ امتیاز حاصل رہتا تھا، مسلمانوں میں دور آخر میں اور بھی فرق ہوگیا، دیکھئے امام ابو حنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد صرف فقاہت میں ممتاز تھے، امام مالک، امام بخاری ،امام مسلم فقیہ ومحدث تھے، کندی ،فارابی، ابن سینا صرف فلسفی تھے، کسائی ،سیبویہ ،خلیل صرف نحوی تھے.. علامہ زمخشری زیادہ تر نحوی مسائل کے لحاظ سے ممتاز ہیں، تاریخ سے ان کو کوئی واسطہ نہیں ہے، علامہ ابوحاتم سجستانی صرف علم قرآن کے ماہر شمار کئے گئے ہیں، علم نحو میں مازنی بہت مشہور گزرے ہیں، امام شاذ کوفی فن حدیث میں بڑا پایہ رکھتے ہیں، زیادی نقل وحکایت میں بے مثل عالم ہیں، ابن صبی شاہی فرامین لکھنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں".
4-بعض اہل علم کا قول ہے :
أ-"ما ناظرت صاحب فنٍّ إلا غلبني، وما ناظرت صاحب فنون إلا غلبته"-"میں نے جب بھی یک فنی عالم سے مناظرہ کیا وہ مجھ پر غالب آگیا، اور جب میں نے ہر فن مولا عالم سے مناظرہ کیا تو میں جیت گیا".
ب-محمد بن جعفر کتانی نے لکھا ہے کہ :"كلام الإمام السخاوي مقدم على الإمام السيوطي عند التعارض في المصطلح، لأن السخاوي صاحب فن، والإمام السيوطي صاحب فنون"-"اگر فن مصطلح الحدیث میں امام سیوطی اور امام سخاوی کے درمیان جھگڑا ہو تو سخاوی کی بات مانی جائے گی اس لئے وہ اس فن کے متخصص ہیں، جبکہ سیوطی ہر فن کے جانکار ہیں ".
ج-حافظ ابن حجر نے" فتح الباری" میں ایک حکمت سے لبریز جملہ لکھ دیا ہے :" إذا تكلم المرء في غير فنه أتى بالعجائب" - "جب کوئی اپنے تخصص سے ہٹ کر کسی دوسرے فن میں منھ کھولتا ہے تو اس سے عجیب عجیب غلطیاں سرزد ہوتی ہیں".
د-اسی لئے امام دارالہجرہ امام مالک نے کہا ہے :"كل علم يسأل عنه أهله".
میں کہتا ہوں :"العبرة بالغالب" ورنہ ماضی میں بہت سے ایسے علما گذرے ہیں اور اب بھی ہیں جو بہ یک وقت کئی کئی علوم وفنون پر دسترس رکھتے تھے اور رکھتے ہیں، جیساکہ میرے ایک مضمون میں اس کی تفصیل موجود ہے.
5-مولانا جھنڈا نگری لکھتے ہیں :"آج کل کے طلبا "طلب الكل فوت الكل" کے صحیح اصول کے مطابق ہر فن وہر علم میں مصروف ہو کر کسی ایک فن میں مہارت تامہ نہیں پیدا کرپاتے، اس کی وجہ علمائے سلف کے اس زریں طرز عمل سے چشم کوری ہے".
6-مجھے یہ جان کر تعجب ہوتا ہے کہ ایک شخص کا تخصص "عربی لغت" ہے لیکن وہ"عقیدہ" پڑھا رہا ہے، وہیں ایک شخص جس نے پورے چودہ سال"عقیدہ"پڑھنے میں لگایا ہے، اب وہ مدرسہ میں"نحو "یا" عربی ادب" پڑھا رہا ہے!
میں یہ نہیں کہتا کہ جو" مادہ"ان کو پڑھانے دیا جاتا ہے، وہ پڑھا نہیں پائیں گے،بالکل پڑھا پائیں گے اور لوگ بے دھڑک پڑھا بھی رہے ہیں، لیکن جو جس فن کا ماہر ہے وہی اس فن کو صحیح طریقے سے پڑھا اور سمجھا سکتا ہے.
مولانا عبدالغفار حسن رحمانی صاحب کا بیان دارالحدیث رحمانیہ میں نقل کیا گیا ہے کہ مولانا احمد اللہ محدث پرتاپ گڑھی کے مدرسہ چھوڑنے کے بعد حدیث کی کوئی کتاب مولانا محمد سورتی کو پڑھانے کے لیے دی گئی لیکن طلبہ مطمئن نہ ہوئے لیکن وہی طلبہ مولانا سورتی سے عربی ادب پڑھتے تھے تو علم کی فراوانی سے خوب محظوظ ہوتے تھے.

Friday, August 23, 2019

آج کتاب لکھنا آسان ہے

[ اس زمانے کی نسبت آج کے دور میں کتاب لکھنا آسان ہے]:
............
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
............
اس زمانے میں آج کل کی طرح سہولتیں بالکل حاصل نہ تھیں، نہ سفر زیادہ آرام دہ تھا اور نہ قیام میں وہ سہولتیں میسر تھیں جو موجودہ دور میں میسر ہیں،اس لئے اُس زمانے کی نسبت آج کے دور میں کتاب لکھنا بہت آسان ہے.
1-اس زمانے میں کتابوں کا حصول بہت مشکل تھا:
أ-ایک وقت تھا کہ نواب صديق حسن خاں نے"اتحاف النبلاء" لکھی تو اس میں جا بجا چند ایسی کتابوں کی دستیابی پر "ظفرتُ بها" کا جملہ لکھا ہے ،جن میں سے ہر ایک کتاب اب ہر چھوٹی بڑی لائبریری میں بآسانی مل سکتی ہے، مثلاً "نيل الأوطار للشوكاني"- "إعلام الموقعين عن رب العالمين لابن القيم" - "زاد المعاد في هدي خير العباد لابن القيم"وغیرہ کے مل جانے پر نواب صاحب نے بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے بہ فضل ایزدی مجھے یہ کتاب قلمی یا مطبوعہ میسر آئی ہے.
ب-ایک وہ زمانہ بھی تھا کہ "زاد المعاد" کی تلاش میں علامہ امیر صنعانی صاحب "سبل السلام" کی عمر تمام ہوگئی اور بہ صرف زرِ کثیر بھی یہ کتاب آپ کو نہ ملی، آخری عمر کے قریب جب دستیاب ہوئی تو انتہائی حسرت زا اشعار درد وغم میں ڈوبے ہوئے آپ کی زبان میں جاری ہوئے،لیکن آج ہر طالب علم کے لیے بآسانی میسر ہے.
ج-ابن حزم:
ابن حزم کے دور میں بعض حدیث کی کتابیں اندلس نہیں پہنچی تھیں، جیسے ابن ماجہ وغیرہ، اس کے باوجود بھی انہوں نے تصنیفات کے انبار لگا دیئے!
د-بیہقی:
مشہور جغرافیائی عالم یاقوت حموی کے بقول امام بیہقی ایک ہزار جزء لکھے ہیں ،اور تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کے پاس بعض مصادر ومراجع کی کتابیں نہیں تھیں جیسے:سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور سنن ترمذی، جیساکہ ابن عبد الہادی نے لکھا ہے.
"صنف الإمام البيهقي ألف جزء كما قاله ياقوت الحموي ومما يتعجب منه أنه لم يكن عنده سنن النسائي ولا ابن ماجه ولا الترمذي كما قاله ابن عبدالهادي".
آج تو کہیں سے چھپی کتابیں گھر بیٹھے پڑھ اور منگوا سکتے ہیں!
2- اس زمانے میں جو کتابیں ملتی تھیں، ان میں بعض میں فہرست مضامین بھی نہیں ہوتی تھی، لکھنے والا بڑی محنت سے اس کے صفحات سے اپنے مطلب کی عبارت تلاش کرتا تھا.
تذکرہ نگاروں نے امام مسلم کے تعلق سے لکھا ہے کہ ان سے کسی نے کسی حدیث کے بارے میں پوچھا جس کے متعلق امام مسلم کے پاس صحیح علم نہ تھا، آپ اس کا جواب نہ دے سکے، گھر آکر آپ اس حدیث کی تلاش میں لگ گئے، احادیث کی نوشتوں کا معائنہ کرتے ہوئے الٹ پھیر کرنے لگے، پاس میں کھجور کا ٹوکرا رکھا ہوا تھا، اس دوران اس میں سے کھاتے رہے، تلاش حدیث کی انہماک کے سبب، اس طرح بے شعوری میں کھجور کا ٹوکرا کھا کر خالی کر دیئے، اس کا احساس اس وقت ہوا جب آپ کو حدیث مل گئی، کھجوریں زیادہ کھا جانے کی وجہ سے آپ بیمار ہوگئے، اور اسی بیماری میں آپ کی وفات ہوگئی.
آج حوالے کی کتابیں بالعموم میسر آجاتی ہیں،ان پر فہرست مضامین کے علاوہ اسمائے رجال وکتب اور اسمائے مقامات کا اشاریہ بھی آخر کتاب میں مرقوم ہوتا ہے، اشاریہ دیکھئے اور جس شخص کے نام، جس کتاب اور جس مقام کی آپ کو ضرورت ہے، صفحہ دیکھ کر اسے نکال لیجئے،بلکہ آج کل ایک بٹن دبانے پر مطلوبہ چیزیں نگاہوں کے سامنے ہوتی ہیں.
3-اس زمانے میں کاغذ اور قلم کی فراوانی بھی نہیں تھی:
آج کاغذات کی فراوانی ہے لیکن ایک وقت تھا قلم نہ آج کے دور کی طرح لکھتا تھا اور نہ ہی کاغذات اس طرح میسر تھے.
أ-امام ابو حاتم رازی فرماتے ہیں کہ :
"... میں امام شافعی کی کتابوں کو لکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا لیکن جب وہاں (مصر) میں ٹھہرنے کا ارادہ بن گیا تو میں نے امام صاحب کی کتابوں سے سب سے زیادہ واقفیت رکھنے والے شخص سے رابطہ کیا اور یہ طے پایا کہ وہ ساری کتابیں اسی(80)درہم میں مجھے نقل کر دے گا، میں نے کاغذ اس کے حوالہ کر دیا، میں اپنے ساتھ استعمال کے لئے دو باریک کپڑے لے گیا تھا لیکن جب امام شافعی کی کتابوں کو لکھوانے کا ارادہ بن گیا تو ان دونوں کو ساٹھ درہم میں فروخت کر دیا، اور اس اس درہم میں سو ورق کاغذ خرید کر امام صاحب کی کتابیں لکھوائیں". [مقدمة الجرح والتعديل ص/340].
ب-شیخ البانی کے متعلق آتا ہے کہ ایک وقت تھا جب ان کو لکھنے کے لئے کاغذ بھی دستیاب نہ تھے، چنانچہ گلیوں میں ادھر ادھر پڑے دعوتی کارڈ اٹھا لاتے تاکہ ان کے خالی حصوں پر لکھ سکیں.
4-پھر بجلی،اے سی اور پنکھے وغیرہ کی سہولت بھی حاصل نہ تھی،جبکہ آج بجلی اور پنکھے وغیرہ کا نہایت آرام دہ سلسلہ موجود ہے.
أ-امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری-رحمہ اللہ-نے "التاريخ الكبير" (جو متعدد جلدوں پر مشتمل ہے) مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی کے صحن پر چاندنی راتوں میں لکھی ہے، اس وقت ان کی عمر محض اٹھارہ سال تھی،خود امام موصوف کا بیان ہے:
"فلما طعنت في ثماني عشرة سنة جعلت أصنف قضايا الصحابة والتابعين وأقاويلهم وذلك أيام عبيد الله بن موسى وصنفت كتاب التاريخ إذ ذاك عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم في الليالي المقمرة وقل اسم في التاريخ إلا وله عندي قصة".
ب-مولانا ابوالکلام آزاد-رحمہ اللہ-کی بیوی زلیخا بیگم وفاشعار اور شوہر کی خوشی پر قربان ہوجانے والی ایک مکمل مشرقی خاتوں تھیں،حمیدہ سلطانہ لکھتی ہیں کہ ایک دن صبح جو ہم پہنچے تو بیگم آزاد کی نرگسی آنکھوں میں ڈورے دیکھ کر والدہ نے ان سے مسکرا کر کہا ،کیا بات ہے؟انہوں نےجواب دیا:
"آج کل مولانا قرآن پاک کی تفسیر لکھ رہے ہیں،رات کے دو بجے کے بعد اٹھ بیٹھتے ہیں،جتنی دیر وہ لکھتے ہیں پنکھا کھینچتی رہتی ہوں،موسم بے حد گرم ہے،یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ جاگیں اور محنت کریں اور میں آرام سے سوتی رہوں ". (ایوان اردو کا مولانا آزاد نمبر ص/145)۔
5- کمپیوٹر کی سہولت سے بھی آج کا مصنف بہرہ ور ہے، جبکہ پہلے یہ خواب تھا،ویڈیو لیکچرز تو اس دور کی ایجاد ہے، آڈیو ریکارڈنگ بھی محض نصف صدی کا قصہ ہے،چھاپہ خانہ اگرچہ کسی درجے قدیم ہے لیکن مسلمان تو اس میں بھی بہت پیچھے رہے ہیں اور آج! آج تو صورت حال یہ ہے کہ معمولی پڑھا لکھا طالب علم بھی کمپیوٹر کی مدد سے تحقیق وتخریج کر رہا ہے،سب سے بڑھ کر یہ کہ انٹرنیٹ کی سہولت بھی دستیاب ہے.
ماضی میں ہمارے اسلاف کو یہ محیر العقول سہولیات کہاں حاصل تھیں؟ انہیں تو اُس دور کے مطابق سہولیات بھی آسانی حاصل نہیں ہو پائی تھیں.
6-اس زمانے میں زیادہ تر لوگ زمین پر صف یا دری بچھا کر بیٹھتے اور لکھتے تھے یا چار پائی پر بیٹھ کر یہ فریضہ انجام دیتے تھے، اب میز اور کرسیوں کا زمانہ ہے، تعجب ہوتا ہے، وہ اہل علم کس طرح اتنی ضخیم اور محققانہ کتابیں لکھ گئے ہیں اور کتنا بڑا ذخیرئہ علم اپنے بعد میں آنے والوں کو دے گئے ہیں، اب ان کتابوں پر اشاریے لکھ کر اور ان کی تخریج کرکے لوگ پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں.
7-دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے زمانے میں مالی مفاد یا شہرت وناموری کا تصور بہت کم تھا لیکن آج کے موجودہ سہولیات وذرائع ابلاغ کی ایجاد نے عالم گیر شہرت اور مالی مفاد کے مواقع میسر کر دیئے ہیں! (اللہ ہمیں بچائے).

Wednesday, August 21, 2019

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتابوں کا مطالعہ کیجئے

فرصت نکال کر شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتابوں کا مطالعہ کیجئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
✍ابوتقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ ذہبی'مزى اور زملکانی نے اگر شیخ الاسلام ابن تیمیہ کو فکر و نظر کے اعتبار سے بے نظیر اور بے مثل قرار دیا ہے تو اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں'بقول مولانا حنیف ندوی:
"یہ واقعہ ہے کہ اسلام کی پوری علمی تاریخ میں ایسا جامع الصفات انسان پیدا نہیں ہوا'تفسیر'حدیث'فقہ'اصول'نحو'عقلیات اور کلام کونسا ایسا فن ہے جس کے دقائق اور باریکیوں پر انہیں مجتہدانہ عبور حاصل نہیں"۔
چنانچہ ابن دقیق العید نے کہا ہے:
"العلوم كلها بين عينيه يأخذ منها ما يريد ويدع مايريد"
"یعنی تمام علوم ان کی نظر کی زد میں ہیں'ان میں جس کو چاہتے ہیں'لے لیتے ہوں'اور جس کو چاہتے ہیں ناقابل اعتنا سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں"۔
ابوحیان نحوی جب ان سے ملے تو یہ کہنا پڑا کہ:
"ما رأت عينائي مثل ابن تيمية"
"میں نے اپنی سر کی آنکھوں سے ایسا غیر معمولی انسان نہیں دیکھا"
لیکن جب ابن تیمیہ نے ایک خاص مسئلہ سے متعلق پیغمر نحو علامہ سیبویہ کی مخالفت کی اور کہا کہ اس نے قرآن حکیم کے فہم وتعبیر کے ضمن میں اسی مقامات پر ٹھوکر کھائی ہے'تو یہ سن کر ابوحیان صاحب تفسیر البحر المحیط چکرا کر رہ گئے!اور پیغمبر نحو کی شان میں اس گستاخی کو برداشت نہیں کر سکے!
فن حدیث میں ان کی مہارت وستعداد کا کیا عالم ہے سنئے ان کے مایہ ناز شاگرد حافظ ذہبی سے وہ کہتے ہیں:
"كل حديث لا يعرفه ابن تيميه فليس بحديث"
جہاں تک بات ہے عقلیات اور علم الکلام کی تو اس میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کسی کو اپنا مدمقابل یا حریف نہیں سمجھتے'اشعری'جوینی'غزالی'رازی'ابن سینا'فارابی'ابن عربی'اور حکمت و دانش کے مینار ارسطو پر ایسی کڑی اور کراری تنقید کرتے ہیں کہ داد نہیں دی جاسکتی۔
اہل کلام و فلسفہ کے متعلق ابن تیمیہ کا مشہور مقولہ ہے:
"أوتوا ذكاء وما أوتوا زكاء'وأعطوا فهوما وما أعطوا علوما وأعطوا سمعا وأبصارا وأفئدة:(فما أغنى عنهم سمعهم ولا أبصارهم ولا أفئدتهم من شيء إذ كانوا يجحدون بآيات الله وحاق بهم ما كانوا به يستهزئون).
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تصنیفات کا دائرہ بہت وسیع اور متنوع ہے'اس کی زندگی ہی میں ان کے آثار قلم کی تعداد پانچ سو تک پہنچ چکی تھی'بزاز کا کہنا ہے کہ ان کی کتابوں کی مقبولیت وپذیرائی کا یہ حال ہے کہ اسلامی ممالک میں'میں جہاں بھی گیا وہاں لوگوں کو ان کی کتابوں سے استفادہ کرتے پایا۔
حافظ ذہبی اپنے "معجم شیوخ"میں جب اس نادرة الأرض واعجوبة الدہر کے اوصاف ومدائح لکھتے لکھتے تھک گئے اور وہ ختم نہ ہوئے تو بالآخر یہ کہہ کر خاموش ہوجانا پڑا:
"ﻫﻮ ﺃﻛﺒﺮ ﻣﻦ ﺃﻥ ﻳﻨﺒﻪ ﻣﺜﻠﻲ ﻋﻠﻰ ﻧﻌﻮﺗﻪ، ﻓﻠﻮ ﺣﻠﻔﺖ ﺑﻴﻦ
ﺍﻟﺮﻛﻦ ﻭﺍﻟﻤﻘﺎﻡ ﺃﻧﻲ ﻣﺎﺭﺃﻳﺖ ﺑﻌﻴﻨﻲ ﻣﺜﻠﻪ، ﻭﻻ ﻭﺍﻟﻠﻪ ما ﺭﺃﻯ
ﻫﻮ ﻣﺜﻞ ﻧﻔﺴﻪ'لما حنثت"
"ان کا مقام اس سے کہیں ارفع و اعلی ہے کہ مجھ جیسا شخص ان کی شہرت و فضیلت اور اوصاف بیان کرے'قسم اللہ کی اگر میں خانئہ کعبہ میں عین رکن و مقام کے درمیان کھڑے ہوکر قسم کھاؤں کہ نہ تو میری آنکھوں نے ان کا مثل دیکھا اور نہ خود انہوں نے اپنا ہمتا'تو میری قسم سچی ہوگی اور میرے لئے کفارئہ یمیں نہیں"
حافظ مزی کو کون نہیں جانتا انہوں نے بھی یہی کہا کہ:
"ما رأيت مثله ولا رأى هو مثل نفسه'وما رأيت أحدا أعلم بكتاب الله وسنة رسوله ولا أتبع لهما منها
"نہ میں نے ان کا مثل دیکھا اور نہ خود انہوں نے کسی اپنا ہمتا پایا'اور نہ میں نے کسی شخص کو ان سے زیادہ کتاب وسنت کا علم رکھنے والا اور کتاب وسنت کا اتباع کرنے والا دیکھا
حافظ موصوف نے ایک اور موقعے پر کہا:
"لم ير مثله منذ أربع مئة سنة
"چارسو برس سے ایسا با کمال پیدا نہیں ہوا
مولانا آزاد لکھتے ہیں:
"یہ جملہ ان کے اکثر معاصرین کی زبان پر بعینہ جاری ہوا ہے'ذہبی اور مزی کی زبانی سن چکے'حافظ برزالی اور ابن حجی سے ایسا ہی منقول ہے شیخ عماد الدین واسطی'ابن سید الناس'ابن نصر مقدسی'ابن دقیق العید'سخاوی وغیرہم نے بھی یہی جملہ دہرایا ہے"
امام الہند مولانا آزاد نے ان کو درج ذیل القاب سے نوازا ہے:
"آیة من آيات الله'وحجة قائمة من حجج الله'شیخ المصلحین وملاذ المجددین'سند الکاملین و امام العارفین'وارث الانبیا'وقدوة الاولیا"(تذکرہ ص/161)۔
حافظ ابن حجر نے تو یہ کہہ کر سب کا منہ بند کردیا ہے کہ وہ اپنے دور میں شیخ الاسلام تھے اور اب بھی ہیں اور آنے والے کل بھی شیخ الاسلام ہی رہیں گے جیسا کل تھے:
"ﺗﻠﻘﻴﺒﻪ ﺑﺸﻴﺦ ﺍﻹﺳﻼﻡ ﻓﻲ ﻋﺼﺮﻩ ﺑﺎﻕ ﺇﻟﻰ
ﺍﻵﻥ ﻋﻠﻰ ﺍﻷﻟﺴﻨﺔ ﺍﻟﺰﻛﻴﺔ،ﻭﻳﺴﺘﻤﺮ ﻏﺪﺍ ﻛﻤﺎ ﻛﺎﻥ
ﺑﺎﻷﻣﺲ"(الرد الوافر ص/145)
لیکن مثل مشہور ہے"المعاصرة سبب المنافرة"چنانچہ مولانا آزاد اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"مشہودات ومحسوسات میں ہمیشہ تمام ارباب انظار واحساس یک حکم یک زبان ہوتے ہیں'یہاں اختلاف کی گنجائش نہیں'الا یہ کہ کوئی اندھا یا فاتر الحواس ہے'شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے عہد میں بھی ایسے لوگ تھے جن کی نظروں پر تعصب ونفسانیت یا جہل و تقلید کا حجاب پڑگیا تھا' ان کو وہی نظر آیا جو بند آنکھوں کو نظر آسکتا ہے"(تذکرہ مولانا آزاد ص/162)
ہم کتنا کم ظرف ہیں کہ ان کی کتابوں کو پڑھے بغیر منہ بھر بھر کر اس امام جلیل کو گالیاں دیتے ہیں۔جس نے داخلی وخارجی فتن اور فکر وعقیدہ کے قیامت خیز انتشار میں یکہ وتنہا احیاء اسلام کے نقشوں کو ترتیب دیا ہے اور ترتیب ہی نہیں دیا بلکہ تلوار وسنان سے اور زبان وقلم سے ان تمام تاریکیوں کے خلاف صف آرا بھی ہوا'اس سلسلے میں انہوں نے کن کن آزمائشوں کو برداشت کیا'کس کس طرح علمائے سو اور برخود غلط صوفیا کی سازشوں کی بنا پر قید و بند کی جاں گسل صعوبتوں کو جھیلا یہاں تک دمشق کے قید خانہ سے لاش باہر آئی!رحمہ اللہ
بس اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے

جھوٹ ‏بولنے ‏والے ‏کا ‏منہ ‏کالا ‏ہو

اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین .......  ‏شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...