Saturday, March 31, 2018

الأوجه التي وردت عليها صفة اليدين وكيف نوفق بينهما


الأوجه التي وردت عليها صفة اليدين وكيف نوفق بينهما:
آپ ان آیتوں پر غور کیجئے:
-اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ﴾ [الملك: 1]
اس آیت میں لفظ"ید"کا استعمال اللہ کے لئے مفرد کے طور پر ہوا ہے۔
- اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ﴾ [المائدة: 64]
سورہ مائدہ کی اس آیت میں تثنیہ کے طور استعمال ہوا ہے۔
- اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَاماً﴾ [يس: 71]
جبکہ اس آیت میں جمع کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
تاویل کرنے والے کہہ سکتا ہے کہ آپ اللہ کے لئے کتنے ہاتھ کے قائل ہیں؟ایک،یا دو یا پھر تین یا انگنت؟
دلائل کے درمیان تطبیق:
پہلا جواب:
قرآن میں لفظ"ید"کا استعمال مفرد کے طور پر بھی ہوا ہے،جیسے:﴿بِيَدِهِ الْمُلْكُ﴾اور تثنیہ کے طور پر بھی،جیسے:﴿يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ﴾،﴿لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾اور جمع کے طور پر بھی،جیسے:﴿مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا﴾۔
جس جگہ یہ مفرد کے طور پروارد ہوا ہے تو مفرد مضاف چونکہ عموم کا فائدہ دیتا ہے،لہذا یہ لفظ اللہ تعالی کے لئے ثابت ہر"ید"پر مشتمل ہے۔
مفرد جب مضاف ہوتو عموم کا فائدہ دیتا ہے اس کی دلیل یہ ہے:﴿وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لا تُحْصُوهَا﴾ [إبراهيم: 34]
اس آیت میں لفظ"نعمت"مفرد اور مضاف ہے،اس سے مراد صرف ایک نعمت نہیں بلکہ بہت ساری نعمتیں مراد ہیں۔جس کا شمار ممکن نہیں۔لہذا"ید اللہ"کے بارے میں ہم یہ کہیں گے کہ اگر تعدد ثابت ہو تو یہ مفرد مضاف اس سے مانع نہیں ہے، اس لئے کہ جب مفرد مضاف ہو تو عموم کا فائدہ دیتا ہے۔
دوسرا جواب:
جمع سے اس کا حقیقی معنی مراد نہیں ہے۔یعنی تین یا اس سے زیادہ۔بلکہ اس سے مراد تعظیم ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید کے اندر متعدد مقامات پر ﴿إنَّا﴾﴿نَحْنُ﴾﴿وقُلْنَا﴾کی تعبیر اختیار کی ہے۔حالانکہ وہ تنہا اور اکیلا ہے۔ایسا صرف تعظیم کے پیش نظر کہا گیا ہے۔اب اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اللہ تین ہیں،جیساکہ عیسائیوں نے سمجھ رکھا ہے۔
تیسرا جواب:
یہ کہا جائے کہ جمع کا اطلاق کم از کم دو پر ہوتا ہے۔اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ قول ہے:﴿إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا﴾ [التحريم:4]-"اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو تو بہت بہتر ہے،یقینا تمہارے دل جھک پڑے ہیں"۔
وہ اللہ کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیویاں تھیں جبکہ[قلوب]جمع کا صیغہ ہے۔اورسب کو معلوم ہے کسی بھی مرد یا عورت کا دو دل نہیں ہوتا۔﴿مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ﴾[الأحزاب:4]
چوتھا جواب:
یہ کہا بھی جا سکتا ہے کہ:﴿مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا﴾[يس: 71]سے مراد اللہ کی ذات ہے،جس کے ہاتھ بھی ہیں۔اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ﴾ [الروم: 41]اس سے مراد انسان کی کمائی ہے،خواہ ہاتھ کی ہویا زبان کی یا پھر دل کی یا دیگر اعضا کی۔اس جیسی تعبیر سے مقصود  فاعل کی ذات ہوا کرتی ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ چوپایوں کو اللہ نے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا۔«إن الله عز وجل خلق ثلاثة أشياء بيده:خلق آدم بيده،وكتب التوراة بيده،وغرس جنة عدن بيده» [رواه الدارقطني في ((الصفات)) (ص45) بتحقيق الفقيهي. والبيهقي في ((الأسماء والصفات)) (ص403) ؛من حديث الحارث بن نوفل مرفوعا]
وصح عن ابن عمر رضي الله عنهما أنه قال:«خلق الله أربعة أشياء بيده:العرش،والقلم،وآدم،وجنة عدن ثم قال لسائر الخلق:كن. فكان» قال الذهبي في ((العلو)) :((إسناده جيد)) .وقال الألباني في ((مختصر العلو)) (ص105):((سنده صحيح على شرط مسلم)) .
لہذا آیت:﴿مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا﴾اور﴿لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾میں بڑا فرق ہے۔گویا پہلی آیت کا معنی ہے"مما عملنا"جبکہ﴿لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾سے مراد دو ہاتھ ہیں،ذات نہیں۔
رہا  اللہ تعالی کا یہ فرمان:﴿وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ﴾[الذاريات: 47]اس جگہ"اید"قوت کے معنی میں ہے۔اس لئے کہ یہ"آد يئيد"کا مصدر ہے۔یہی وجہ وجہ ہے کہ اللہ نے اسے اپنی ذات کی طرف اضافت کرتے ہوئے "بأيدينا"نہیں بلکہ﴿بِأَيْدٍ﴾فرمایا۔

Thursday, March 29, 2018

قرآن کی ایک آیت کو دوسری آیت یا ایک سورت کو دوسری سورت پر فضیلت کی ایک اہم وجہ


جن آیتوں یا سورتوں میں اسما وصفات کا ذکر آیا ہے وہ ان آیتوں اور سورتوں پر فضیلت رکھتی ہیں جن میں ان کا بیان نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
"والآيات المتضمنة لذكر أسماء الله وصفاته،أعظم قدراً من آيات المعاد،فأعظم آية في القرآن آية الكرسي المتضمنة لذلك.وأفضل سورة سورة أم القرآن وفيها من ذكر أسماء الله وصفاته أعظم مما فيها من ذكر المعاد وقد ثبت في الصحيح عنه صلى الله عليه وسلم من غير وجه أن«:﴿قل هو الله أحد﴾ تعدل ثلثي القرآن»[درء تعارض العقل والنقل 5/310]
سورہ اخلاص کی فضیلت اور اس کی وجہ:
سورہ اخلاص تہائی قرآن کے برابر ہے،جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  بیان فرمایا ہے:«أنها تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ» [رواه مسلم،حديث:811]
 علما نے اس کی تشریح اس طرح کی ہے کہ قرآن میں جن باتوں کا ذکر آیا ہے ان سب کا خلاصہ تین علوم ہیں۔ پہلا:احکام،جو عبادات واحکام کہلاتے ہیں۔دوسرا:قصص۔تیسرا:علوم توحید۔اور یہ علم یعنی علم توحید، تینوں علوم میں سب سے افضل ہے۔اورچونکہ اس سورت اخلاص میں اجمالی طور پر توحید کی تینوں قسموں یعنی توحید الوہیت،توحید ربوبیت اور توحید اسما وصفات کابیان ہے۔جو پورے قرآن میں ایک تہائی علم ہے۔اس لئے اسے ایک تہائی قرآن کہا گیا ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ ایک صحابی لشکر کے امیر تھےوہ ہر رکعت میں دیگر سورتوں کے ساتھ اسے بھی ضرور پڑھا کرتے تھے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا:«سلوه:لأي شيء يفعلُ ذلك؟» لوگوں نے پوچھا تو صحابی نے جواب دیا:«لِأَنَّهَا صِفَةُ الرَّحْمَنِ فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ بِهَا»-"اس لئے کہ اس میں اللہ کی صفتوں کا بیان ہے،اور مجھے یہ پڑھنا بہت پسند ہے"۔جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاأَخْبِرُوْهُ أَنَّ اللهَ يُحِبُّهُ»[البخاري (7375)،ومسلم (813)]-"اسے بتا دو کہ اس کا رب بھی اس سے محبت کرتا ہے"۔
مسند احمد کی ایک روایت میں سورہ اخلاص کو ایک چوتھائی قرآن کے برابر کہا گیا ہے،لیکن اس کی سند ضعیف ہے:«أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَ رَجُلًا مِنْ صَحَابَتِهِ فَقَالَ:"أَيْ فُلَانُ،هَلْ تَزَوَّجْتَ؟ " قَالَ:لَا،وَلَيْسَ عِنْدِي مَا أَتَزَوَّجُ بِهِ،قَالَ:"أَلَيْسَ مَعَكَ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ؟"قَالَ:بَلَى،قَالَ:"رُبُعُ الْقُرْآنِ " قَالَ: " أَلَيْسَ مَعَكَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ؟"قَالَ:بَلَى.قَالَ:"رُبُعُ الْقُرْآنِ".قَالَ:"أَلَيْسَ مَعَكَ إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ؟"قَالَ:بَلَى،قَالَ:"رُبُعُ الْقُرْآنِ".قَالَ:"أَلَيْسَ مَعَكَ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ؟"قَالَ:بَلَى.قَالَ:"رُبُعُ الْقُرْآنِ ". قَالَ:"أَلَيْسَ مَعَكَ آيَةُ الْكُرْسِيِّ﴿اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ﴾[البقرة: 255]؟"قَالَ:بَلَى.قَالَ:"رُبُعُ الْقُرْآنِ"قَالَ: "تَزَوَّجْ،تَزَوَّجْ،تَزَوَّجْ"»[مسندأحمد،حديث: 13309 قال الشيخ شعيب:إسناده ضعيف لضعف سلمة بن وَرْدان.وأخرجه الترمذي (2895)من طريق ابن أبي فديك، وابن الضريس في"فضائل القرآن"(298)،وابن عدي في"الكامل " 3/1180،والبيهقي في"شعب الإيمان" (2515) من طريق القعنبي، كلاهما عن سلمة بن وردان، به.ووقع في (قل هو الله أحد) عند الترمذي والبيهقي:"ثلث القرآن"،وهو الصحيح الموافق لرواية الثقات،انظر تخريج حديث عبد الله بن عمرو السالف برقم (6613). قال الترمذي:حديث حسن.وأخرج ابن ماجه (3788) من طريق جرير بن حازم،عن قتادة، عن أنس بن مالك قال:قال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" (قل هو الله أحد) تعدل ثلث القرآن".وإسناده صحيح.
وأخرج أبو يعلى (4118) من طريق عبيس بن ميمون القرشي،عن يزيد الرقاشي،عن أنس قال: سمعت النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول:"أمَا يستطيع أحدكم أن يقرأ (قل هو الله أحد) ثلاث مرات في ليلة؟ فإنها تعدل ثلث القرآن". قال الهيثمي في "المجمع " 7/147:وفيه عبيس بن ميمون،وهو متروك.وسلف مختصراَ برقم (12488) عن عبد الله بن الوليد،عن سفيان الثوري،عن سلمة بن وردان.وانظر في تزويج الرجل على ما معه من القرآن حديثَ سهل بن سعد الساعدي عند البخاري (2310) و (5149) ، ومسلم (1425) ، وسيأتي في "المسند" 5/330]
سورہ فاتحہ [ام القرآن]کی فضیلت اور اس کی وجہ:
اسی طرح سورہ فاتحہ جو قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے،یہ سورت قرآن کریم کی عظیم ترین سورت ہے۔اس کی فضیلت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی صحیح حدیثیں آئی ہیں۔مثلا اللہ تعالی نے تورات وانجیل میں سورہ فاتحہ جیسی سورت نہیں اتاری۔بلکہ ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ نہ ہی قرآن میں ویسی کوئی دوسری سورت ہے۔ایک اورحدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عظیم ترین سورت کہاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سورت میں اللہ تعالی کی ذات وصفات،معاد[مرکر دوبارہ اٹھنا]نبوت اور قضا وقدر کا ذکر آیا ہے۔
آیت الکرسی کی فضیلت اور اس کی وجہ:
اسی طرح آیت الکرسی ایک عظیم بلکہ قرآن کریم کی عظیم ترین آیت ہے،اس کی بڑی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ آیت الکرسی قرآن کی عظیم  ترین آیت ہے،اس کے پڑھنے سے رات کو شیطان سے تحفظ رہتا ہے،ہرفرض کے بعد پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے،رات کو سوتے وقت اس کو پڑھنے کی بھی بڑی فضیلت آئی ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی کی توحید،اس کی عظمت اور اس کےاسمائے حسنی اور صفات عالیہ کا بیان ہے۔اس میں اللہ تعالی کے ایسے اسما اور صفات جلال وکمال یکجا ہیں جو کسی دوسری آیت میں یکجا نہیں۔لہذا جو آیت کریمہ ایسے عظیم معانی پر مشتمل ہو بلاشبہ اس لائق ہے کہ قرآن کریم کی سب سے عظیم آیت قرار پائے۔

اہل بدعت کا ایک مغالطہ اور اس کا ازالہ:

اہل بدعت کا ایک  مغالطہ  اور اس کا ازالہ:

کہتے ہیں:"ابن تیمیہ کے نزدیک"نزول"کے بارے میں"کیف"سے سوال کرنا'یہ بمنزلۂ "استوا"کے بارے میں "کیف"سے سوال کرنا ہے'بلکہ سمع'بصر'علم'قدرت'رزق'خلق کے بارے میں سوال کے مشابہ ہے'یہاں ابن تیمیہ نے تمام صفات کو ایک ترازو میں ڈالا حالانکہ ان کے درمیان زمین وآسمان جیسا فرق ہے تفصیل کا یہ مقام نہیں 'صرف ابن تیمیہ اور اس کے متبعین سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نزول اور استوا کے ساتھ تخلیق'ترزیق بھی ملایا'حالانکہ اگر آپ سورت بقرہ کی آیت نمبر 260 ملاحظہ کریں جس میں ابراہیم علیہ السلام "کیف تحي الموتى"کے ساتھ سوال کرتے ہیں'تو یہ عام قاعدہ بیان نہ کرتے!"۔

اس کا جواب:

1-یقنیا ابن تیمیہ کا یہ کہنا کہ تمام صفات کے بارے میں "کیف"سے سوال نہیں کیا جاسکتا بالکل درست بات ہے'ایک صفت کے بارے میں جو بات کہی جائیگی دیگر صفات کے بارے میں کہی جائیگی یہ تمام ائمہ کا مذہب ہے(اس پر میں ایک مفصل مضمون لکھ چکا ہوں)۔

2-رہی یہ بات کہ ابراہیم علیہ السلام نے کیوں"کیف" سے سوال کیا؟اگر صفات کے متعلق"کیف"سے سوال کرنا ممنوع ہوتا تو آپ نے نبی ہوکر کیوں سوال کیا؟!میں کہتا ہوں یہ ایک احمقانہ سوال ہے'اس لئے کہ تم کو معلوم نہیں سوال کون کر رہاہے اور کس سے کر رہا ہے؟مستفتی کون ہے اور مفتی کون ہے؟سوال کرنے والا ایک نبی ہیں اور جواب دینے والا خود اللہ تبارک وتعالی ہے جو اپنے بارے میں تمام مخلوقات سے زیادہ جانتا ہے!

لہذا یہاں اشکال پیدا ہی نہیں ہوتا'ہم تو"کیف"سے ان کی صفات کے بارے میں سوال کرنے سے اس لئے روکتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کی ذات'صفات اور معلومات کا احاطہ کر سکے!اور اللہ کی صفات کی کیفیت کی معرفت حاصل کرنے کے ذرائع بھی نہیں ہیں۔


Wednesday, March 28, 2018

ماہ رجب بدعات کے گھیرے میں


[ماہ رجب بدعات کے گھیرے میں]

ماہ رجب اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے،لفظ رجب "ترجیب"سے ہے جس کے معنی تعظیم کے ہیں،اس مہینے کی تعظیم اور حرمت کی وجہ سے اس کا نام "رجب" پڑ گیا۔
فضیلت:
رجب کا مہینہ ایسا ہے جس کی کوئی امتیازی فضیلت کسی صحیح حدیث میں وارد نہیں،سوائے اس فضیلت کے کہ ماہ رجب چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔
رسومات وبدعات:
مسلمان اس ماہ رجب میں کئی ایسے کام کرتے ہیں جو بدعات کے دائرے میں آتے ہیں،جیسے:
۱-ماہ رجب کے جمعرات،جمعہ اور ہفتہ کے تین روزے رکھنا۔
۲-جمعے کی رات مغرب سے عشاء تک مخصوص انداز میں ۱۲ رکعت نماز پڑھنا۔
۳-رجب کے پہلے جمعے کی شام کو"صلاة الرغائب"پڑھنا۔
۴- کثرت سے نفلی روزوں کا اہتمام کرنا اور کثرت ثواب کی نیت سے اسی ماہ میں زکاة دینا۔
۵- 22 رجب کو کونڈوں کی رسم ادا کرنا۔
۶-رجب کی 27 ویں شب کو "شب معراج"کی وجہ سے خصوصی عبادت کرنا۔
۷-مساجد میں چراغاں کرنا اور تقریبات ومحافل کا انعقاد کرنا۔
۸-  27 ویں کو یوم معراج کے طور پر منانا اور اس دن روزہ رکھنا'جلسے جلوس کا اہتمام کرنا،آتش بازی کرنا چراغاں کرنا۔
دین تو پورا ہوچکا تھا،جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً﴾،عبادت تو توقیفی ہے ....
لہذا یہ سب اعمال مردود اور ناقابل قبول ہیں۔چنانچہ ارشاد نبوی ہے: أخرج البخاري (2697) "من أحدث فِي أمرنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ "،ومسلم (1718) (18) بلفظ:"مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ"

Tuesday, March 27, 2018

عقیدہ کے تعلق سے میرے مضامین


کچھ دنوں سے میں نے مضمون لکھنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا،آج ان مضامین کی تعداد کئی درجن تک پہنچ چکی ہے،جو تقریبا آٹھ سو صفحات پر پھیل چکے ہیں،جس کے لئےمیں اللہ تعالی کا بے حد شکر گذار ہوں۔
لوگوں کا رد عمل:
میرے مضامین پڑھ کر کئی لوگوں نے فون کر کے میری حوصلہ افزائی کی تو کئی لوگوں نے مسیج کرکے دعائیں دی جبکہ وہیں کچھ لوگوں نے مجھے ملکۂ وکٹوریہ کی اولاد بھی کہا اور یہ بھی لکھا کہ میں پاگل ہوں(سب کے تاثرات میں نے سنبھال کر رکھے ہیں)۔
مجھے یہ مضامین لکھنے کا خیال کیسے آیا؟:
چند ماہ قبل گرمی کی چھٹی گھر پے گذار رہا تھا،ایک دن اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی کتاب"قافلۂ حدیث" کا مطالعہ کر رہا تھا،میں سید امیر علی کی حالت زندگی پڑھ رہا تھا اس کتاب کے  مندرجہ ذیل پیراگراف نے مجھے بہت متاثر کیا:
"سید امیر علی رحمہ اللہ کسی کے حق میں زبان نہیں کھولتے تھے۔لیکن ایک دن﴿يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا﴾[الكهف:104] کی تفسیر میں بے اختیار ان کی زبان سے نکل گیا"بعض لوگوں کی حالت کس درجہ قابل رحم ہے،حدیث کی تکمیل کرکے ناول نگاری میں عمر صرف کردی اور سمجھتے ہیں کہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں!یہ کہتے کہتے اچانک چپ ہوگئے،شاید یاد آگیا کہ مذمت وغیبت ہورہی ہے،میں نے بالکل خلاف عادت ان کی زبان سے یہ تصریح سن کر پوچھا:وہ کون لوگ ہیں؟دیر تک سرجھکائے بیٹھے رہے،مگر طبیعت میں مروت بہت تھی،جواب دینا پڑا،بہت آہستہ سے کہنے لگے: عبد الحلیم شرر۔خدا انہیں معاف کرے! میاں صاحب(یعنی مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی)سے انہوں نے میرے ساتھ حدیث سنی۔اب ناول لکھتے ہیں!"۔
میں نے عرض کیا"حضرت کے خیال میں ناول نویسی بری بات ہے؟"فرمانے لگے"شاید نہیں،مگر شغل حدیث،اولی واحسن ہے"[قافلۂ حدیث محمد اسحاق بھٹی ص/۲۲]
میں سید امیر علی رحمہ اللہ کے مذکورہ الفاظ سے بہت محظوظ اور متاثر ہوا ۔اور میں نے اپنے ارد گرد کے قلم کاروں کو دیکھا،تو مجھے اندازہ ہوا کہ لکھاڑیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔کچھ لوگ سیاست اور حالت حاضرہ پر بے لاگ تبصرہ کر رہے ہیں تو کچھ لوگ شعر وشاعری میں فصاحت وبلاغت کا دریا بہا رہے ہیں۔جبکہ کچھ لوگ بدعات وخرافات کی اشاعت میں پورا  زور صرف کر رہے ہیں۔ وہیں کچھ لوگ وسائل تواصل پر عریانیت کو فروغ دینے میں اپنے قلم وزبان کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ان میں سے اکثر لوگ دینی مدارس کے فارغین ہیں۔
دینی موضوعات پر لکھنے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ عقیدہ کے موضوع پر لکھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے!
پھر میں نے سوچا ۔میرا تخصص تو عقیدہ ہے۔میں بھی اگر اور لوگوں کی طرح ان چیزوں کی نشر اشاعت میں زور صرف کروں تو بڑی ناانصافی ہوگی۔ لہذا مجھے عقیدہ پر کچھ لکھنا چاہئے،پھر بسملہ کہہ کر قلم اٹھایا اور لکھتا چلا گیا...مختلف نام اور عنوان کے تحت میں نے مضامین لکھ کر واٹس اپ اور فیس بک پر نشر کیا۔تمام مضامین کا تعلق کسی نہ کسی ناحیہ سے عقیدہ سے ہے۔میرے جن مضامین کا تعلق عقیدہ سے نہیں تھا اس کو مضامین کے اس مجموعہ سے ہٹا دیا ہے۔
اسلوب:
عقیدہ ایک پیچیدہ،خشک اور نہایت نازک موضوع ہے،لہذا  اس میں قدم پھونک پھونک رکھنے پڑتے ہیں،لہذا  ان مضامین میں میرا  اسلوب نہایت سادہ ہے،نہ تو ان میں ادب کی مٹھاس ہے اور نہ ہی زبان کی چاشنی،بلکہ میں نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنے مطالعے کا نچوڑ اور خلاصۃ الخلاصہ پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے،تاکہ قارئین آسانی کے ساتھ ان مسائل کو سمجھ سکیں۔
مصادر ومراجع:
یقینی بات ہے کہ میں نے اپنی طرف سے گھڑھ کر یہ باتیں پیش نہیں کی ہے،بلکہ الفاظ اور تعبیرات میرے ہیں اور مواد میرے اساتذہ اور سلف کی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ایک ایک مضمون کی تیاری میں کئی کئی کی کتابوں کی طرف رجوع کیا،مشکل عربی تعبیرات  ومصطلحات کو اردو میں ڈھالنے میں کافی مشقت اٹھانی پڑی،لیکن اللہ کی مدد ہر موڑ پر شامل حال رہی(الحمد لله اولا وآخرا)۔

Monday, March 26, 2018

کیا اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں؟

صفة اليدين: [اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں،اللہ تعالی کی یہ ایک ذاتی صفت ہے]:

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَان﴾[المائدة: 64]-"اللہ تعالی کے دونوں ہاتھ کھلے ہیںنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:«يَمِينُ الله مَلْأى لا يَغِيضُها نَفَقَة سحَّاء اللَّيل والنَّهار»إلى قوله:«بِيَدِه الأُخْرى الميزانُ ويَخْفِض ويَرْفَعُ»[ البخاري (7411) ،ومسلم (993)]-" اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے،اسے رات دن کی بخشش بھی کم نہیں کرتی۔۔۔اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے،جسے جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے"۔
اس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے  فی الحقیقت دو ہاتھ ہیں،لیکن مخلوق کے مشابہ نہیں اس لئے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:﴿لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير﴾ [الشورى: 11]اس جیسی کوئی چیز نہیں نہ ذات میں اور نہ صفات میں اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔یہی سلف صالحین اور ائمہ کرام کا مذہب ہے۔اللہ کے ہاتھوں کی تاویل قدرت،یانعمت یا احسان سے کرنا جیسا کہ بعض گمراہ فرقے کرتے ہیں درست نہیں،نیز یہ آیت ان کا دندان شکن جواب ہے یہاں پر ذکر کردہ تینوں تاویلات میں کوئی بھی تاویل قطعی طور پر مستقیم نہیں ہوسکتی۔
کیا اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں؟:
آپ مندرجہ ذیل احادیث پر غور کیجئے:
1-اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:«كِلْتَا يَدَيْهِ يمينٌ»[حديث صحيح، أخرجه أحمد 2/ 160، ومسلم (1827)، والنسائي8/ 221، والبيهقي في"الأسماء والصفات"ص: 324 من حديث عبد الله بن عمرو رفعه]-"اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں"۔اس حدیث میں دونوں ہاتھ کو دایاں کہا گیا ہے۔2-اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:«يطوي الله عَزَّ وجَلَّ السماوات يوم القيامة،ثم يأخذهن بيده اليمنى،ثم يقول:أنا الملك! أين الجبارون؟أين المتكبرون؟ ثم يطوي الأرضين بشماله ثم يقول:أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟»[مسلم في"صحيحه" (2788)]-"اللہ تعالی قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹ لے گا،اور ان کو داہنے ہاتھ میں لے لے گا پھر فرمائے گا:میں بادشاہ ہوں کہاں ہے زور والے؟کہاں ہے غرور کرنے والے؟پھر بائیں ہاتھ سے زمین کو لپیٹ  لے گا۔[جو داہنے کے مثل ہے،اسی وجہ سے دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں]پھر فرمائے گا :میں بادشاہ ہوں کہاں ہے زور والے؟کہاں ہے غرور کرنے والے؟اس حدیث میں اللہ تعالی کے ایک ہاتھ دایاں اور دوسرے کو بایاں کہا گیا ہے۔
3- اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:«يَمِينُ الله مَلْأى لا يَغِيضُها نَفَقَة سحَّاء اللَّيل والنَّهار»إلى قوله: «بِيَدِه الأُخْرى الميزانُ ويَخْفِض ويَرْفَعُ» [ البخاري (7411) ،ومسلم (993)]-"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے،اسے رات دن کی بخشش بھی کم نہیں کرتی۔۔۔اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ترازو ہے،جسے جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے"۔
جبکہ اس حدیث میں ایک ہاتھ کو داہنا کہا گیا ہے جبکہ دوسرے  ہاتھ کو شمال یعنی بایاں کہنے کے بجائے"بِيَدِه الأُخْرى"کہا گیا ہے۔
اس سلسلے میں علما کے مختلف آرا ہیں:
پہلا قول:
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے دوہاتھ ہیں ایک داہنا اور دوسرا بایاں۔یہ قول امام دارمی،ابویعلی،محمد بن عبد الوہاب،نواب صدیق حسن خاں،محمد خلیل ہراس اور عبداللہ الغنیمان وغیرہم کا ہے۔ان کی دلیل مسلم شریف کی حدیث ہے۔
دوسرا قول:
کچھ علما کہتے ہیں اللہ تعالی  کے دو ہاتھ ہیں اور دونوں داہنا ہاتھ ہیں۔ان کی دلیل وہ احادیث ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے دونوں  ہاتھ دائیں ہیں۔
یہ قول امام ابن خزیمہ،امام احمد،بیہقی اور البانی وغیرہم کا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں،جیساکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:«كِلْتَا يَدَيْهِ يمينٌ»[حديث صحيح، أخرجه أحمد 2/ 160، ومسلم (1827)، والنسائي8/ 221، والبيهقي في"الأسماء والصفات"ص: 324 من حديث عبد الله بن عمرو رفعه]-"اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں"۔
اس سے اللہ تعالی کے اس قول کی تاکید ہوتی ہے:﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ﴾-لہذا اللہ کے رسول کا یہ کہنا کہ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں اس سے تنزیہ کی تاکید مقصود ہے،کہ اللہ کا ہاتھ  انسان کے ہاتھ کی طرح نہیں ہے چونکہ انسان کا ایک ہاتھ دایاں اوردوسرا  بایاں ہوتا ہے،جبکہ اللہ تعالی کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔
اور جس حدیث میں"بشماله"کا ذکر آیا ہے وہ شاذ ہے،ابوداود میں یہی حدیث موجود ہے لیکن اس میں" الشِّمال"کی جگہ" بيده الأخرى"کے الفاظ آئے ہیں۔
رہی یہ حدیث:«فقال للتي في يَمِينه:إلى الجنة ولا أبالي،وقال للتي في يساره:إلى النار ولا أبالي» [رواه:عبد الله ابن الإمام أحمد في "السنة"(1059) ،والبزار في ((مسنده)) (2144-كشف)،وقال: ((إسناده حسن))
اسی حدیث کو امام احمد نے مسند (6/441)میں اور ابن عساکر نے"تاریخ دمشق"میں اس حدیث کو روایت کیا ہے۔جیساکہ البانی نے  ((الصحيحة)) (49)میں کہا ہے۔ان دونوں میں مذکورہ روایت اس طرح آیاہے: «وقال للذي في كتفه اليسرى إلى النار ولا أبالي»یہاں«كتفه» میں جوضمیر ہے اس کا مرجع اللہ سبحانہ وتعالی نہیں بلکہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔
میری رائی:
مذکورہ وضاحت کے بعد میری رائی میں اللہ سبحانہ وتعالی کی شان تعظیم وتوقیربجالاتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھوں کو داہنا کہنا زیادہ بہتر اورنص کے موافق ہے،اور اس لئے بھی کہ جب بایاں کہتے ہیں تو اس میں ضعف اور نقص کا شائبہ پایا جاتا ہے۔اور اس سے اللہ تعالی بلند وبالا ہے۔

[ابوتقی الدین ضیاء الحق سیف الدین]


Sunday, March 25, 2018

معصوم بچوں کے عقیدے پر کارٹون کا اثر

کارٹون(cartoon) سے مراد:
اصل سے ملتا جلتا خطوط یا لکیروں کا بنایا ہوا خاکہ یا تصویر جس سے مزاح کا رنگ پیدا ہو'اخبارات ورسائل میں چھپنے والے اور پردہ سیمیں پر دکھائے جانے والے تفریحی یا مزاحیہ یا طنزیہ خاکے۔
کارٹون سے یہاں میری مراد: پردۂ سیمیں پر دکھائے جانے والے تفریحی یا مزاحیہ یا طنزیہ خاکے ہیں۔
کارٹون کی اہمیت: 
کارٹون ہمیشہ سے بچوں کے لئے دلچسپی کا باعث رہے ہیں'موجودہ دور میں بننے والے کارٹون بچوں کے لئے Entertainment کا ذریعہ اور وقت گذاری کا سامان ہی نہیں بلکہ بچے ان سے بہت کچھ سیکھ رہے ہیں'جن میں بہت کم اچھی اور بے شمار بیہودہ چیزیں موجود ہیں'جو بچوں کی سوچ پر اثر انداز ہورہی ہیں'اس کی وجہ سے بچوں میں تشدد پسندی'غیر اسلامی ثقافت'رسم ورواج' اخلاقی اقدار سے دوری اور ٹپوری زبان فروغ پارہی ہے۔
بچوں کا ذہن:
 بچوں کا ذہن صاف سلیٹ کی مانند اور دل بالکل سفید کاغذ کی طرح ہوتے ہیں'آپ اس کے دل ودماغ پر جو چھاپ چھوڑنا چاہیں گے چھوڑ سکتے ہیں:
"كل مولود يولد على الفطرة فأبواه يو...."۔
ايک اشکال اور اس کا جواب: 
یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ایک معمولی سا کارٹون شو بچوں پر کیسے اثر انداز ہوسکتا ہے؟معصوم بچے کو یہ کس طرح متاثر کرتا ہے؟۔ 
  اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے گھر میں اپنے بچوں کی نفسیات اور الفاظ اور ان کی معصومانہ خواہشات کا جائزہ لے لیں تو بغیر کسی دلیل کے آپ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
 موجودہ دور کے کارٹون سریز اور فلمیں: 
موجودہ دور کی تقریبا ۹۹ فیصد کارٹون سریز'سیریل اور فلمیں اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔چونکہ ان کو بنانے والے اور ان کے لئے مواد فراہم کرنے والے اکثر دہریت زدہ انسان یا پھر یہود ونصاری ہوتے ہیں جن کا ہدف بچوں اور نئی نسل کی تربیت نہیں بلکہ مقصد اول پیسہ کمانا ہوتا ہے!یہی وجہ ہے کہ یہ صرف پروگرام تک ہی محدود نہیں بلکہ آج بازاروں میں اس سیریل کے نام سے یا اس کے کرداروں کے نام وشکل(جیسے بال بیر'ٹوم اینڈ جیری'موٹو اور پتلو..) میں بنیادی ضرورت کی چیزیں دستیاب ہیں۔ آپ اتنے بے احتیاط کیوں ہیں؟!جب آپ کا بچہ کھانے کے معاملے میں ایک مخصوص عمر سے پہلے عام کھانے نہیں کھا سکتا'مرچ مصالحے ہضم نہیں کرسکتا'جب آپ کو اس کی جسمانی غذا کے متعلق بتدریج ہی چلنا ہے'تو روحانی اور ذہنی نشوونما اور غذا کے متعلق اتنی بے احتیاطی کیوں؟!  
کارٹون کا اثر مسلم بچوں کے عقیدے پر: 
 کارٹون فلمیں ایسے مواد پر مشتمل ہوتی ہیں جو بچوں کے اخلاق'زبان'ثقافت اور عقیدہ کو بگاڑنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں: 
1-عقیدۂ تثلیث اور بتوں کی پوجا کی نمائش:
چونکہ زیادہ تر کارٹونسٹ یہود ونصاری اور بت کے پجاری ہوتے ہیں اس لئے وہ گاہ بگاہ اس طرح کے مناظر رکھتے ہیں تاکہ بچوں کی ذہن سازی ہوسکے'آپ ہندی کے اکثر کاٹون میں اداکاروں کو بتوں سے مدد مانگتے اور غیر اللہ کے آگے سر جھکاتے ہوئے دیکھیں گے۔
2-جادوگروں اور شعبدہ بازوں کی تصدیق اور تکریم:
 کارٹون سیریز میں عام طور پر جادوگروں کی طاقت کا مظاہرہ ہوتا ہے'جادو گر مردوں کو زندہ اور غائب چیز کو حاضر کرکے مشاہدین کو ورطئہ حیرت میں ڈال دیتا ہے'یقینا بچوں کے کچے ذہن کے لئے یہ بہت خطرناک ہے۔
  3-غیر اللہ سے مافوق الاسباب طریقے سے مدد طلب کرنے کی ترغیب:                                               کارٹون میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ جب کوئی بچہ پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ بھوت'جن'شیطانی ملکہ یا پھر کسی شخص کو پکارتا ہے اور وہ فورا پہنچ کر اس کی مدد کرتا ہے.(بال بیر وغیرہ اس کی زندہ مثال ہے)۔ 
-وطن کے تقدس کی تعلیم: 
 اکثر ان کارٹون سیریز میں یہ دکھایا جاتا ہے ایک آدمی بار بار اپنے وطن کی قسم کھاتا ہے'جیسے بھارت ماتا کی قسم(موٹو اور پتلو کارٹون میں یہ جملہ باربار دہرایا جاتا ہے)۔ 
  4-تشدد اور قساوت کا مظاہرہ اور موت وحیات کا مذاق: 
بالغوں کے لئے بننے والی فلمیں ماردھاڑ سے بھر پور سمجھی جاتی ہیں ایک تازہ رپورٹ کے مطابق بچوں کی کارٹوں فلمز میں کردار عام فلموں کے مقابلے میں دگنے سے بھی زیادہ مرتے نظر آتے ہیں۔    
کارٹون فلموں میں معصومیت کی جگہ خوفناک اور پرتشدد مناظر پیش کئے جاتے ہیں(جیسے ٹوم اینڈ جیری)جبکہ بعض کارٹون میں خنجر سے وار کرنے کے مناظر دکھائے'تو بعض کارٹون فلموں میں جانوروں کو انسانوں پر حملے کرتے دکھایا گیا ہے۔اور بھی بہت سارے نقصانات ہیں۔   
  اس کا متبادل کیا ہے:
 مسلم بچوں کے لئے اچھے اور معیاری کارٹون وقت کی ضرورت ہیں'جو Entertainment کے ساتھ ان کی اچھی تربیت کر سکے'جیساکہ عبد الباری کے نام سے بننے والے کارٹون ہیں جن کے ذریعے بچوں کو دعائیں اور اخلاقی سبق اور اسلامی عقائد کی تعلیم دیئے جاتے ہیں۔میری رائی ہے بچوں کو معصوم ہی رہنے دیں اور ان چیزوں سے دور رکھیں۔
[ابوتقی الدین ضیاء الحق سیف الدین]

Saturday, March 24, 2018

کیا "جبار وقہار"بھی اسمائے حسنی ہیں؟

قرآن میں اللہ تعالی کے بعض ایسے اسما بھی ہیں جو بظاہر قہر وجلال کے اسما ہیں۔مثلا جبار،قہارلیکن قرآن کہتا ہے،وہ بھی"اسمائے حسنی"ہیں۔کیونکہ ان میں قدرت وعدالت کا ظہور ہوا ہے۔اور قدرت وعدالت  حسن وخوبی ہے۔خونخواری وخوفناکی نہیں ہے۔چنانچہ سورہ حشر  میں صفات رحمت وجمال کے ساتھ قہر وجلال کا بھی ذکر کیا ہے اور پھر متصلا ان سب کو "اسمائے حسنی"قرار دیا ہے:﴿هُوَ اللَّهُ الَّذِي لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الأَسْمَاء الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾[الحشر:23-24]-"وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔وہ شہنشاہ ہے،ہرعیب سے پاک ہے،سلامتی دینے والا ہے،امن وسکون عطاکرنے والاہے،سب کا نگہبان ہے،بالادست ہے،ہرچیز پر غالب ہے،شان کبریائی والا ہے،اللہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔وہ اللہ پیدا کرنے والا ہے۔ہر مخلوق کو اس کا وجود دینے والا ہے،اس کی صورت بنانے والا ہے۔تمام پیارے نام اسی کے لئے ہیں۔آسمانوں اور زمین میں پائی جانے والی ہرچیز اس کی پاکی بیان کرتی ہے،اور وہ زبردست،بڑی حکمتوں والا ہے۔"۔
[تفصیل کے لئے دیکھو مولانا آزاد کی تفسیر "ترجمان القرآن" سورہ فاتحہ کی تفسیر]

Tuesday, March 20, 2018

"وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ"کا معنی؟

صحیح مسلم کی مشہورحدیث ہے:«وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللَّهُ بِكُمْ وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ وَيَسْتَغْفِرُونَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ»
امام الہند مولانا آزاد اس حدیث کا ترجمہ یوں کیا ہے:

"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،اگرتم ایسے ہوجاو کہ گناہ تم سے سرزد ہی نہ تو اللہ تمہیں زمیں سے ہٹا دے اورتمہاری جگہ ایک دوسرا گروہ پیدا کردے جس کا شیوہ یہ ہو کہ گناہوں میں مبتلا ہو اور پھر اللہ سے بخشش ومغفرت کی طلبگاری کرے"۔[ترجمان القرآن ۱۵۰:۱]

امام الہند کا ترجمہ بالکل درست اور منہج سلف کے مطابق ہے۔جبکہ آج کل اکثرلوگوَ«الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ»کا ترجمہ یوں کرتے ہیں۔"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ[قدرت]میں میری جان ہے"

یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے،اس لئے کہ «بِيَدِهِ»کا ترجمہ"قبضہ"یا"قدرت"سے کرنا منہج سلف کے خلاف ہے۔

جھوٹ ‏بولنے ‏والے ‏کا ‏منہ ‏کالا ‏ہو

اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین .......  ‏شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...