الأوجه التي وردت عليها صفة اليدين وكيف نوفق
بينهما:
آپ ان آیتوں پر غور کیجئے:
❶-اللہ
تعالی کا ارشاد ہے:﴿تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ﴾
[الملك: 1]
اس آیت میں لفظ"ید"کا استعمال اللہ
کے لئے مفرد کے طور پر ہوا ہے۔
❷-
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿بَلْ
يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ﴾ [المائدة: 64]
سورہ مائدہ کی اس آیت میں تثنیہ کے طور استعمال
ہوا ہے۔
❸-
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿أَوَلَمْ
يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَاماً﴾ [يس: 71]
جبکہ اس آیت میں جمع کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
تاویل کرنے والے کہہ سکتا ہے کہ آپ اللہ کے لئے
کتنے ہاتھ کے قائل ہیں؟ایک،یا دو یا پھر تین یا انگنت؟
دلائل کے درمیان تطبیق:
پہلا جواب:
قرآن میں لفظ"ید"کا استعمال مفرد کے
طور پر بھی ہوا ہے،جیسے:﴿بِيَدِهِ
الْمُلْكُ﴾اور تثنیہ کے طور پر بھی،جیسے:﴿يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ﴾،﴿لِمَا خَلَقْتُ
بِيَدَيَّ﴾اور جمع کے طور پر بھی،جیسے:﴿مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا﴾۔
جس جگہ یہ مفرد کے طور پروارد ہوا ہے تو مفرد
مضاف چونکہ عموم کا فائدہ دیتا ہے،لہذا یہ لفظ اللہ تعالی کے لئے ثابت
ہر"ید"پر مشتمل ہے۔
مفرد جب مضاف ہوتو عموم کا فائدہ دیتا ہے اس کی
دلیل یہ ہے:﴿وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لا
تُحْصُوهَا﴾ [إبراهيم: 34]
اس آیت میں
لفظ"نعمت"مفرد اور مضاف ہے،اس سے مراد صرف ایک نعمت نہیں بلکہ بہت ساری
نعمتیں مراد ہیں۔جس کا شمار ممکن نہیں۔لہذا"ید اللہ"کے بارے میں ہم یہ
کہیں گے کہ اگر تعدد ثابت ہو تو یہ مفرد مضاف اس سے مانع نہیں ہے، اس لئے کہ جب
مفرد مضاف ہو تو عموم کا فائدہ دیتا ہے۔
دوسرا جواب:
جمع سے اس کا حقیقی معنی
مراد نہیں ہے۔یعنی تین یا اس سے زیادہ۔بلکہ اس سے مراد تعظیم ہے۔اللہ تعالی نے
قرآن مجید کے اندر متعدد مقامات پر ﴿إنَّا﴾﴿نَحْنُ﴾﴿وقُلْنَا﴾کی تعبیر اختیار کی
ہے۔حالانکہ وہ تنہا اور اکیلا ہے۔ایسا صرف تعظیم کے پیش نظر کہا گیا ہے۔اب اس سے
کوئی یہ نہ سمجھے کہ اللہ تین ہیں،جیساکہ عیسائیوں نے سمجھ رکھا ہے۔
تیسرا جواب:
یہ کہا جائے کہ جمع کا
اطلاق کم از کم دو پر ہوتا ہے۔اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ قول ہے:﴿إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ
قُلُوبُكُمَا﴾ [التحريم:4]-"اگر
تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو تو بہت بہتر ہے،یقینا تمہارے دل جھک پڑے ہیں"۔
وہ اللہ کی رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کی دو بیویاں تھیں جبکہ[قلوب]جمع کا صیغہ ہے۔اورسب کو معلوم ہے کسی بھی
مرد یا عورت کا دو دل نہیں ہوتا۔﴿مَا
جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ﴾[الأحزاب:4]
چوتھا جواب:
یہ کہا بھی جا سکتا ہے کہ:﴿مِمَّا عَمِلَتْ
أَيْدِينَا﴾[يس: 71]سے مراد اللہ کی ذات ہے،جس کے ہاتھ بھی ہیں۔اللہ
تعالی فرماتا ہے:﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ
وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ﴾ [الروم: 41]اس سے مراد انسان کی کمائی ہے،خواہ ہاتھ کی ہویا زبان کی یا پھر دل
کی یا دیگر اعضا کی۔اس
جیسی تعبیر سے مقصود فاعل کی ذات ہوا کرتی
ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ چوپایوں کو اللہ نے
ہاتھ سے پیدا نہیں کیا۔«إن الله عز وجل خلق ثلاثة أشياء بيده:خلق آدم بيده،وكتب التوراة بيده،وغرس
جنة عدن بيده» [رواه الدارقطني في ((الصفات)) (ص45)
بتحقيق الفقيهي. والبيهقي في ((الأسماء والصفات)) (ص403) ؛من حديث الحارث بن نوفل
مرفوعا]
وصح عن ابن عمر رضي الله عنهما أنه قال:«خلق
الله أربعة أشياء بيده:العرش،والقلم،وآدم،وجنة عدن ثم قال لسائر الخلق:كن. فكان» قال
الذهبي في ((العلو)) :((إسناده جيد)) .وقال الألباني في ((مختصر العلو)) (ص105):((سنده
صحيح على شرط مسلم)) .
لہذا آیت:﴿مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا﴾اور﴿لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾میں بڑا فرق ہے۔گویا پہلی آیت کا معنی ہے"مما عملنا"جبکہ﴿لِمَا
خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾سے مراد دو ہاتھ ہیں،ذات نہیں۔
رہا اللہ تعالی کا یہ فرمان:﴿وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ﴾[الذاريات: 47]اس جگہ"اید"قوت کے معنی میں ہے۔اس لئے کہ یہ"آد يئيد"کا مصدر ہے۔یہی وجہ وجہ ہے کہ
اللہ نے اسے اپنی ذات کی طرف اضافت کرتے ہوئے "بأيدينا"نہیں بلکہ﴿بِأَيْدٍ﴾فرمایا۔