مولانا وحیدالدین خان
Friday, October 11, 2019
استاد کے بغیر
مولانا وحیدالدین خان
Friday, September 27, 2019
الزوجات وإحراق الكتب
الزوجات وإحراق الكتب
1 - سيبويه :
قامت زوجته بإحراق كتبه لانه كان يشتغل عنها بهذه الكتب ، فلما علم بذلك أغشي عليه ثم فاق وطلقها .
2 - الليث بن المظفر :
كان مشتغلا عن زوجته بحفظ كتاب العين للفراهيدي ، فغارت من الكتاب فأحرقته .
3 - الامير محمود الدولة الآمري :
كان يقتني الكثير من الكتب ، فلما مات كانت زوجته تندبه وترمي بالكتب في بركة ماء وسط الدار لانه كان يشتغل عنها بهذه الكتب.
4- ابراهيم العياشي :
قضى ٢٠ سنة في تأليف كتاب حجرات النساء فأغاظ ذلك زوجته لانشغاله عنها كثيرا فأحرقت الكتاب فأصيب الرجل بالشلل .
5-محمد بن شهاب الزهري:
قالت له زوجته يوما والله لهذه الكتب اشد علي من ثلاث ضرائر .
اليوم يكثر الاشتغال بالهاتف فاستوصوا بالنساء خيرا وتحذروا لا يعق ويكسر..
مختلف طریقے سے علما اور طلبا کی امداد
[مختلف طریقے سے علما اور طلبا کی امداد] :
.............
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
............
1-امام ابو حنیفہ بڑے مالدار تھے، اور شاہی عطیات قبول نہ فرماتے تھے، اپنے ریشمی کارخانہ کی وجہ سے اس قدر مالدار تھے کہ خود دوسروں پر خرچ کرتے تھے، امام ذہبی نے علامہ یافعی کے حوالے سے لکھا ہے :"ولا يقبل جوائز السلطان بل ينفق ويؤثر من كسبه".
امام نووی نے امام ابو حنیفہ کے متعلق لکھا ہے:"اپنے تمام اموال کا نفع جس قدر ہوتا تھا اسے بالعموم مشائخ اور محدثین پر آپ صرف کردیتے،اور کپڑے اور دوسری ضروریات بھی بھیج دیتے اور دینار خرچ کے لئے دیتے اور فرماتے انہیں اپنی ضروریات میں صرف کرو".
2-محمد بن ابی حاتم امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری کے بارے میں کہتے ہیں:
"... آپ صدقہ بڑی کثرت سے کرتے تھے اور طلبہ میں سے جسے تنگ دست پاتے اسے خاموشی سے بیس بیس درہم تھما دیتے، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی".
حافظ ابن حجر نے"مقدمہ فتح الباری" میں لکھا ہے کہ:
"امام بخاری کھانا بہت کم کھاتے تھے اور طلبہ سے انتہائی شفقت سے پیش آتے تھے".
امام ابن جوزی لکھتے ہیں کہ:
"امام بخاری اپنے علمی مشغلہ کے سبب اپنی دولت سے کوئی بھی تجارتی کام خود نہیں کر سکتے تھے بلکہ ایک رقم مضاربت پر لگا رکھی تھی، شریک تجارت آپ کو ایک طیے شدہ حصہ منافع سے دیا کرتا تھا، اس طرح آپ کے تمام مصارف اس سے نکلتے تھے" .
امام بخاری کے تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے:
"اور یہ رقم جو تجارت پر لگا رکھی تھی بڑی موٹی رقم تھی،امام بخاری اپنی آمدنی سے پانچ سو درہم ماہوار غریب طلبا اور محدثین پر صرف فرمایا کرتے تھے" .
3 -ایک محدث احمد بن مہدی ہیں، ان کے تذکرہ میں امام ذہبی نے لکھا ہے کہ علم وفضل کے ساتھ دولت مند بھی تھے، تین لاکھ درہم اہل علم پر آپ نے خرچ فرمایا.
4- امام عبد الوہاب ثقفی محدث ہونے کے ساتھ ساتھ مالدار بھی تھے، امام نووی نے لکھا ہے کہ :
"محدثین کرام پر پچاس ہزار نقد سالانہ صرف فرمایا کرتے تھے".
5-حضرت عبد اللہ بن مبارک علم وفضل میں شیخ الاسلام تھے آپ اہل علم کی نفیس دعوتیں کیا کرتے اور نقد عطیات کے ذریعے معقول امداد کرتے.
6-علامہ ذہبی نے لکھا ہے :
" امام لیث بن سعد بھی بہت بڑے رئیس محدث تھے،اور اپنی رقوم کو علما وفضلا پر خرچ کرتے تھے".
7-شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے بارے میں مولانا عبد الحمید سوہدروی لکھتے ہیں کہ:
"ایک روز میاں صاحب نے مجھے دو روپے دیے، میرے پاس چونکہ اپنے خرچ کے پیسے موجود تھے، اس لئے میں نے معذرت کی، اور روپے لینے سے انکار کیا لیکن انہوں نے بہ اصرار مجھے دو روپے عنایت فرمائے".
تذکرہ نگاروں نے میاں صاحب کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ :
"بارش ہو یا گرمی اور سردی طلبہ کا کھانا خود مدرسے اور مسجد میں پہنچاتے، رمضان میں سحری کے وقت بالخصوص طلبہ کے لئے بروقت کھانا پہنچانے کا اہتمام فرماتے، بارش کی حالت میں جب طلبا کو مدرسے کے دروازے پر جا کر کھانا لینا مشکل ہوتا اور مدرسے کی گلی میں گھنٹوں تک پانی کھڑا ہوجاتا،مولانا فضل حسین بہاری فرماتے ہیں کہ :" اس حالت میں، میں نے اپنے کانوں سے میاں صاحب کی آواز مدرسے کے اندر سے سنی کہ وہ گلی میں کھانا دستر خوان میں لپٹے ہوئے ہر طالب علم کا نام لیکر بار بار پکار رہے ہیں :اجی فلاں مولوی صاحب! اپنی روٹی لے لو، اجی فلاں مولوی صاحب! اپنی روٹی لے لو....".
7-نواب صديق حسن خاں بھوپالی مرحوم نے علما وطلبا کے لئے تصنیف وتالیف اور مختلف علمی موضوعات پر تحقیق کے شعبے قائم کئے، مدرسین کے لئے ان کی ضرورت اور قابلیت کے مطابق معقول مشاہرات کا اہتمام کیا اور طلبا کو ماہانہ وظائف دینے کا فیصلہ کیا.
علما وطلبا میں حفظ حدیث کا جذبہ اور شوق پیدا کرنے کی غرض سے یہ بہت بڑا اقدام کیا کہ جو شخص صحیح بخاری یاد کرے گا،اسے ایک ہزار روپے انعام دیا جائے گا اور جو بلوغ المرام یاد کریں گے ان کی خدمت میں ایک سو روپیہ بہ صورت انعام پیش کیا جائے گا، چنانچہ بعض حضرات نے یہ انعام حاصل کئے.
8-مولانا محمد اسحاق بھٹی اپنے استاد مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کے متعلق لکھا ہے :
"کتابیں خریدنا اور پڑھنا ان کا بنیادی مشغلہ تھا، کتاب کی جو قیمت دکان دار نے مانگی، انہوں نے عطا فرما دی، اس میں کمی کا مطالبہ نہیں کیا کرتے تھے، پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ان کی موجودگی میں کوئی شخص کسی دکان سے کتاب خریدنے آیا، لیکن جیب کا جائزہ لیا تو اتنے پیسے نہیں ہیں کہ کتاب خریدی جا سکے، مولانا کو اس کی مجبوری کا اندازہ ہوا تو اپنی گرہ سے قیمت ادا کرکے اسے کتاب لے دی، حالانکہ نہ دکان دار سے ان کا کوئی تعلق ہے اور نہ کتاب خریدنے والے سے".
9-ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی لکھتے ہیں :
"مبارک پور میں مولانا عبد الرحمن مبارکپوری نے استفادے کی غرض سے میرے قیام کے دوران شدید اصرار کے ساتھ مجھے اپنے ہاں مہمان کی حیثیت سے رکھا، چنانچہ نہ مجھے کسی ہوٹل میں جانا پڑا اور نہ کھانا کہیں سے خریدنے کی نوبت آئی، جب مبارک پور سے میری روانگی کا وقت آیا اور میں نے فیصلہ کیا کہ اعظم گڑھ تک ٹرین سے جاؤنگا تو مولانا نے فرمایا کہ ٹرین سے نہ جاؤ، ہماری جان پہچان کے دو آدمی بیل گاڑی لے کر اعظم گڑھ جانے والے ہیں، ان کے ساتھ چلے جانا، یہ تمہارے لیے زیادہ آسان ہوگا، ادھر ان دونوں حضرات نے طیے کیا کہ آدھی رات کو نکلیں گے، چنانچہ عشا کی نماز کے بعد میں نے مولانا کو الوداع کہنا چاہا تو فرمایا روانگی کے وقت میں رخصت کرنے آؤنگا، میں نے عرض کی آپ کو زحمت ہوگی، نیند میں خلل پڑے گا، فرمایا کوئی بات نہیں، چنانچہ جب روانگی کا وقت ہوا اور میں اپنا بیگ اٹھا کر اپنے مسجد والے حجرے سے باہر نکلا تو مولانا کو موجود پایا، پھر ہم دونوں باتیں کرتے ہوئے وہاں پہنچے جہاں وہ دونوں حضرات گاڑی لے کر ہمارا انتظار کر رہے تھے، رخصت کے وقت جب انہوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں میں لے کر فرمایا :"أستودع الله دينك وأمانتك وخواتيم عملك، زودك الله التقوى ويسر لك الخير أينما توجهت" تو اس کے ساتھ ہی انہوں نے چپکے سے میرے ہاتھ میں کوئی کاغذ تھمایا، میں نے محسوس کیا کہ نوٹ کی شکل میں کچھ رقم ہے تو میں نے واپس کرنا چاہا، اور کہا:"جزاک اللہ، آپ نے تو لطف وکرم کی انتہا کردی، اس کی کیا ضرورت ہے"اس پر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور ان دونوں حضرات سے کچھ دور ہوئے تو زور زور سے رونے لگے، ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، اور کہے جا رہے تھے، "لے لو اسے، لے لو اسے" چنانچہ میں نے وہ روپیہ لے لیا، ان کا رونا دیکھ کر میرے بدن میں کپکپی طاری ہوگئی اور میں بہت شرمندہ ہوا کہ میرا روپیہ لوٹانے ہی ان کے اس شدید گریہ کا سبب بنا، چنانچہ میں نے ان سے معافی چاہی اور انہوں نے معاف کر دیا، سسکیاں لیتے ہوئے آنکھوں سے آنسو پونچھے اور ذرا سنبھلے تو میرا ہاتھ پکڑا اور گاڑی کی طرف بڑھے، پھر میں نے ان کو الوداع کہا اور گاڑی پر سوار ہو گیا، یہ تمام خیالات اور انفعالات میرے ذہن میں گھومتے رہے، یہاں تک کہ فجر کا وقت ہوگیا تو ہم لوگ نماز کے لئے رکے، میں نے ان دونوں حضرات کی امامت کی، جب میں نے قرأت شروع کی تو اس واقعہ کے تصور سے روپڑا".
مولانا مبارک پوری طلبہ سے جس شفقت کا اظہار فرماتے اور تعلیم کے سلسلے میں انہیں جس قسم کے صائب اور صحیح مشورے دیتے، اس سلسلے کا ایک واقعہ مشہور مورخ قاضی اطہر مبارک پوری کا پڑھئے، وہ لکھتے ہیں :"میں مولانا کی خدمت میں بہ سلسلہ علاج آتا جاتا تھا، کبھی کبھی یوں ہی چلا جاتا تھا، ایک مرتبہ مولانا نے پوچھا :" کون کون سی کتابیں پڑھتے ہو؟ میں نے کتابوں کے نام بتائے تو فرمایا :"منطق میں بہت پیچھے ہو، اس میں محنت کرو" ان کی علمی مشغولیت اور تصنیفی انہماک دیکھ کر لکھنے پڑھنے کا حوصلہ ملا، ان کی زبان سے پہلی بار عربی کا یہ مقولہ سنا تھا :" من ساوى يوماه فهو في الخسران" یعنی جس شخص کے دونوں دن برابر ہوں وہ نقصان میں ہے، ہر اگلا دن پچھلے دن سے بڑھا ہونا چاہیے، یہ جملہ آج تک کام دے رہا ہے ".
10-حافظ فتح محمد فتحی کے متعلق مولانا محمد اسحاق بھٹی نے لکھا ہے :"اللہ تعالیٰ نے ان کو سخاوت کی صفت سے بھی خوب نوازا تھا، وہ اہل علم کو کتابیں خرید کر بھی دیتے تھے، مستحقین بالخصوص علما کی مالی امداد بھی کرتے تھے، اور انہیں بہ طور مہمان بھی اپنے یہاں ٹھہراتے تھے، ان ان اوصاف کا تذکرہ بہت حضرات فرماتے ہیں".
11-مولانا عبد التواب ملتانی کے بارے میں بھٹی صاحب نے لکھا ہے :"کتابوں کے جو شائق یک مشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، ان کے ساتھ مولانا کی شفقت کا انداز یہ تھا کہ اسے کتاب دے کر اس کی مالی استطاعت کے مطابق اسے قیمت ادا کرنے کی مہلت دیتے، چنانچہ مولانا عزیز زبیدی نے ملتان کے ایک کتاب دوست علامہ عتیق فکری کا یہ بیان تحریر کیا ہے کہ مولانا کو کتابوں کے متعلق ان کے شوق کا پتا چلا تو انہیں کتاب مرحمت فرما دیتے اور وہ آٹھ آنے ہفتے کے حساب سے اس کی قیمت ادا کرتے، اس طرح انہوں نے ان سے بے شمار کتابیں خریدیں".
12-مولانا عبد الرشید لداخی کے متعلق مولانا محمد اسحاق بھٹی نے لکھا ہے کہ:" جس طرح خود مطالعہ کے شائق تھے، اور مختلف موضوع کی کتابیں پڑھتے رہتے تھے، اپنے شاگردوں کے بارے میں بھی وہ یہی چاہتے تھے کہ وقت کو غنیمت جانیں اور مطالعہ کتب میں مصروف رہیں، چنانچہ وہ انہیں کسی نہ کسی طرح کتابیں مہیا کرتے رہتے تھے اور جس طالب علم کی جس موضوع سے دلچسپی کا اندازہ کرتے، اس کے مطابق اسے مطالعہ کی تلقین کرتے، انہوں نے دارالعلوم غواڑی میں مکتبہ رشیدیہ کے نام سے چھوٹا سا مکتبہ قائم کر رکھا تھا، اس مکتبے میں وہ ملک وبیرون ملک سے کتابیں منگواتے اور سستے داموں وہ کتابیں طلبا کو دیتے تھے ".
13-بدر الدین ابن جماعۃ ساتویں آٹھویں صدی ہجری کے بہت بڑے عالم دیں ہیں، ان کے حالات زندگی میں ذکر ہے وہ دمشق میں ایک مدرسہ میں پڑھایا کرتے تھے، جہاں ایک استاد کی ماہانہ تنخواہ (40 دینار یعنی 12 لاکھ روپے تقریبا) ہوا کرتی تھی، ساتھ راشن وغیرہ الگ مہیا ہوتا۔ اور یہ صرف مدرسہ کی تنخواہ ہے، اس کے علاوہ ان کے پاس کئی ایک ذمہ داریاں تھیں۔
آخر میں جب بیمار ہوگئے، نظر کمزور ہوگی، ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگئے، تو بطور پنشن انہیں راشن کی کثیر مقدار کے علاوہ ماہانہ (1000 درہم) دیے جاتے تھے۔
14-ہمارے علاقے کے مشہور بزرگ عالم دین مولانا حاجی سعید الرحمان صاحب نے مجھ سے ایک مرتبہ ہمارے ہی علاقہ کے نامی گرامی شخصیت مسلم حاجی کے بارے میں بتایا کہ ان کی مٹھی میں ہمیشہ پیسہ ہوتا تھا اور وہ چپکے سے طلبہ کو دیتے تھے، میرے مرحوم چچا مولانا امجد مظہری کو بھی میں نے بارہا یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مسلم حاجی مدرسہ کے آخری سال کے طلبہ کو کتب حدیث خرید کر دیتے تھے.
15-آج سے تقریبا ایک سو سال قبل دار الحدیث رحمانیہ دہلی میں اساتذہ کی تنخواہوں وغیرہ کا نظام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا نوشہروی کے بقول شیخ الحدیث کی تنخواہ 90 نوے روپے تھی۔ مولانا
محمد یوسف سورتی کو بطور شیخ الحدیث 150 ڈيڑھ سو روپے تنخواہ پر رکھا گیا۔
جبکہ مولانا احمد اللہ ۤدہلوی رحمہ اللہ کی تنخواہ سو روپے تھی۔ مولانا غلام یحیی کانپوری کی تنخواہ 125 ایک سو پچیس روپے، جبکہ عموما مدرسین کی تنخواہین ساٹھ ستر روپے تھی۔
مولانا عبد الرؤف رحمانی اسی مدرسہ میں پڑھ کر بطور استاد مقرر ہوئے تو آپ کی تنخواہ 30 تیس روپے مقرر ہوئی۔
(ان تفصیلات کے لیے دیکھیں، دار الحدیث رحمانیہ کی تاریخ از مولانا اسعد اعظمی)
آج سے ایک صدی قبل روپے کی قیمت کا اندازہ کرنے کے لیے چند چیزیں نوٹ کریں:
نجد یعنی عرب سے آنے والے ایک طالبعلم کو سفر کا خرچ 60 روپے ملا تھا۔
دار الحدیث رحمانیہ کا وسیع وعریض مکمل مدرسہ اور اس میں دسیوں کمروں کی عمارت کا سارا خرچ ایک لاکھ روپے ہوا تھا۔
روٹی کپڑا اور مکان کی قیمت اس دور میں پتہ نہیں کیا تھی؟ گائے بھینس وغیرہ کی قیمت، اسی طرح سونا چاندی کے ساتھ جوڑ کر اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔(یہ فقرہ خضر حیات کے مضمون سے ماخوذ ہے).
Sunday, September 22, 2019
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
[جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں] :
................
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
................
1-سید نذیر حسین محدث دہلوی کا واقعہ :
"میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے والد ماجد کی خدمت میں ایک پڑھا لکھا برہمن آیا کرتا تھا، ایک دن اس نے میاں صاحب سے کہا :میاں صاحب زادے؟ تم اتنے بڑے ہوگئے ہو اور پڑھنے لکھنے سے محروم ہو، تمہیں پتہ نہیں کہ تمہارے خاندان کے تمام لوگ مولوی ہیں اور تم جاہل ہو!".
برہمن کی اس مختصر اور سیدھی بات نے دل پر اثر کیا کہ اسی آن دل طلب علم کی طرف مائل ہوگیا اور اس جذبے میں اس قدر تیزی آئی کہ پہلی تمام حرکات سے دست کش ہوگئے اور حصول تعلیم کے شوق نے ذہن پر پوری طرح قبضہ کر لیا...
اور آگے چل کر یہی لڑکا شیخ العرب والعجم اور شیخ الکل بن گیا. تفصیل کے لیے دیکھو [دبستان حدیث /28].
2-سید امیر علی اور علم دین کی طلب:
سید امیر علی ملیح آبادی پہلےاردو دان منشی اور بہرائچ کے کسی ڈاک خانے میں پوسٹ ماسٹر تھے،اس وقت ان کی عمر 18-19 برس کی تھی، علم دین سے بالکل بے بہرہ تھے، تاہم صوم وصلاۃ کے پابند تھے، ایک دن ایسا اتفاق پیش آیا کہ جس وقت یہ نماز پڑھنے مسجد گئے ہوئے تھے، کوئی افسر ڈاک خانہ دیکھنے آ پہنچا، پوسٹ ماسٹر کو غیر حاضر پاکر بہت نا خوش ہوا، کسی ڈاکئے نے دوڑ کر انہیں مسجد میں خبر دی، یہ وضو کر رہے تھے، مگر انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی، اطمینان سے نماز ختم کرکے واپس آئے، افسر نے اعتراض کیا، انہوں نے معذرت بھی نہیں کی بلکہ استعفا داخل کرکے ملازمت سے علیحدہ ہوگئے.
مولانا فرماتے تھے، اس واقعہ کا مجھ پر بڑا اثر پڑا، میرا خاندان اگرچہ غربت میں مبتلا تھا، تاہم ملازمت چھوٹنے اور ذریعہ رزق سے محروم ہوجانے پر کوئی افسوس نہیں ہوا، البتہ یہ خیال کرکے میری حسرت بے حساب تھی کہ جس دین کی پابندی پر میری نوکری گئی، اس سے بالکل جاہل ہوں، ٹکریں لگانا جانتا ہوں، مگر نماز کی حقیقت اور قرآن کے فہم سے بے بہرہ ہوں.اس خیال نے انہیں عربی اور دینی علوم کی تحصیل پر آمادہ کیا.
مولانا سید امیر علی ملیح آبادی بہت بڑے عالم، بہت بڑے مفسر، بہت بڑے مدرس، بہت بڑے مصنف اور بہت بڑے مترجم تھے.
ان کی ایک عالمانہ تصنیف"تفسیر مواہب الرحمن" ہے جو دس ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، اردو زبان کی تفسيروں میں اسے بڑی اہمیت حاصل ہے،ان کی دوسری بڑی خدمت فتاوی عالگیری کا اردو ترجمہ ہے، انہوں نے فقہ حنفی کی مشہور کتاب "ہدایہ" کا بھی اردو ترجمہ "عین الہدایہ" کے نام سے کیا ہے.[دیکھو قافلہ حدیث ص/13].
3-کسائی کی رگ غیرت بھڑک گئی:
فن ادب کے مشہور امام کسائی ایک مجلس میں گئے،چونکہ بہت تھکے ہوئے تھے،اس لئے کہا:"عييت"(بالتشديد)اہل مجلس نے ٹوکا کہ تم غلط لفظ استعمال کر رہے ہو،صحیح"عييت"(بالتخفيف) ہے، اس کے دل پر ایسی چوٹ لگی کہ اس فن کے سیکھنے کا تہیہ کر لیا، چنانچہ خلیل بصری کی خدمت میں گئے، اور پھر وہاں سے بنی تمیم وبنی آمد کے قبیلوں میں پھرے، یہاں تک کہ امام فن تسلیم کئے گئے. [علمائے سلف /حبیب الرحمن شیروانی، العلم والعلماء مولانا جھنڈا نگری ص/59].
4-سیبویہ کا واقعہ :
امامِ نحو سیبویہ کا واقعہ ہے کہ طالب علمی کے دور میں جبکہ حدیث پڑھا کرتے تھے،نحو سے اس وقت چنداں مناسبت نہ تھی، ایک روز ان کے استاد حماد بن سلمہ نے کسی حدیث کی روایت میں الفاظ "ليس أبا الدرداء" املا کرائے، سیبویہ نے ان کو ادا کرتے ہوئے اور طلبہ کے سامنے "لیس أبودرداء" کہا، شیخ نے کہا غلط لفظ نہ بتاؤ "ليس أبا الدرداء" ہے،اس گرفت سے سیبویہ کو ندامت ہوئی اور دل میں سوچا کہ میں وہ علم کیوں نہ سیکھوں جو ایسی غلطی سے بچا سکے، چنانچہ انہوں نے نحو سیکھی اور ایسی جانفشانی اور آمادگی سے سیکھی کہ "الكتاب=كتاب سيبويه" جیسی نامی اور ضخیم کتاب لکھ دی. [علمائے سلف ص/22،العلم والعلماء جھنڈا نگری ص/59].
5-مشہور شاعر امراء القیس کا واقعہ :
امرء القیس بن حجر الکندی نے اپنی بیوی سے کہا :"اقتلي السراج" - "چراغ کو گل کردو" عورت نے یہ سن کر کہا :"والله أنه أعجمي" - "یہ شخص عجمی ہے جو عرب کی زبان سے نا واقف ہے" کیونکہ عرب ایسے موقع پر بولا کرتے ہیں: "إطفي السراج" نہ کہ "اقتلي السراج" جو کہ خلاف استعمال ومحاورہ ہے. [دیکھو یہ واقعہ حاشیہ کافیہ ص/ 29,شرح جامی ص/104].
آخر یہی امرء القیس اس عورت کو ایک وجہ سے طلاق دے کر بیابان نوردی پر آمادہ ہوجاتا ہے اور اہل عرب کے تمام قبیلوں کی بولیوں کو ان کے محاورہ اور بدؤوں کے استعمال کے طریقوں کو ضبط کرتا ہے اور سالہاسال اسی تحقیق میں لگ جاتا ہے، آخر ایک جگہ ایک قبیلہ کی بولی اس موقع پر وہی نکلی جو امرء القیس نے چراغ بجھانے کے لئے اپنی شب عروسی میں کہا تھا، اور جس سے عورت چراغ پا ہوگئی تھی،یہ وہی امرء القیس کندی وہی تھا جو اپنی معشوقہ عنیزہ کا ذکر اپنے قصیدہ میں کرتا ہے جو قصیدہ کہ سبعہ معلقہ میں بہتر قصیدہ مانا گیا ہے.
مولانا عبد الرؤوف جھنڈا نگری مرحوم لکھتے ہیں :
"ان واقعات سے اسلاف کی بیداری اور ان کے احساس عالی کے زندہ ہونے کا ثبوت ملتا ہے اور جس سے یہ خوب معلوم ہوتا ہے کہ انہیں جاہل کا طعنہ حد درجہ ناگوار خاطر تھا، ان کا ایک جزئی مسئلہ میں غلطی کرنا اس امر کے لئے باعث ہوتا ہے کہ وہ ایک دفترِ عظیم اس کی تحقیق میں چھوڑ گئے اور انکشاف حقیقت کی خاطر سارا بیابان، قبیلہ قبیلہ چھانتے پھرے اور یہی حال دور جاہلیت کی بھی تھا".
تفصیل کے لیے دیکھو [العلم والعلماء ص/ 58-59]
Friday, September 20, 2019
ابن تیمیہ کی کتابوں کی اہمیت
[ابن تیمیہ کی کتابوں کی اہمیت اور ان کی مطبوعہ کتابوں کی فہرست]:
..............
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
...............
1-شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی زندگی ہی میں یہ حال تھا کہ بڑے بڑے اکابر واعاظمِ علم ائمئہ سلف کی کتابیں فروخت کر ڈالتے تاکہ مؤلفات ابن تیمیہ خرید سکیں.
قاضی شیخ شہاب الدین ملکاوی(جو فقیہ الشام کے لقب سے مشہور ہے)انہوں نے امام نووی کی"شرح مسلم" فروخت کردی اور اس کی قیمت سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی"الرد علی النصاری"(جو اب چار جلدوں میں چھپ گئی ہے) خریدی،ایک شخص نے اس پر اعتراض کیا کہ"شرح مسلم" دے کر ابن تیمیہ کی کتاب خریدتے ہو؟تو کہا :میرے پاس شرح مذکور کے دو نسخے تھے، ایک فروخت کردیا، لیکن اگر ایک ہی نسخہ ہوتا، جب بھی مصنفات ابن تیمیہ کے لئے بلا تامل فروخت کردیتا کیونکہ"مافي شرح مسلم أعرفه ومافي مؤلفاته أنا محتاج إليه".
2-شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی ایک کتاب "بيان تلبيس الجهمية" کے متعلق ابن عبد الہادی[ت:744ھ]رقمطراز ہیں:"لو رحل طالب العلم لأجل تحصيله إلى الصين ما ضاعت رحلته]
" اگر کوئی طالب علم اس کتاب کے حصول کی خاطر چین کا سفر کرتا ہے تو اس کا یہ سفر بے کار اور رائیگاں نہیں جائے گا".
3 -شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی وفات سے تقریباً پچاس ساٹھ برس بعد حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ :
"میں نے شمار کیا تو مشہور مؤلفات ابن تیمیہ علاوہ تفسير القرآن کے چار ہزار صفحوں سے زیادہ ہیں، اور باوجود علمائے دولت اور سلاطین وحکامِ عہد کی شدید مخالفتوں کے آج کتب فروشوں کے چوبتروں پر سب سے زیادہ مانگ انہیں کی ہے".
4-شیخ ابن یوسف مرعی لکھتے ہیں کہ :"بلاد مصر وشام کے سیاح جب یمن ونجد کی طرف جاتے ہیں، تو بہترین تحفہ جو ان سے اہل علم طلب کرتے ہیں، امام موصوف کی مؤلفات ہیں".
5-مولانا ابوالکلام آزاد[1958م]لکھتے ہیں:
"سچ یہ ہے کہ متاخرین میں یہ فضیلت ومزیت اللہ تعالی نے صرف حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے ارشد تلامذہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے لئے مخصوص کردی تھی کہ حقائق ومعارف کتاب وسنت کے جمال حقیقی کو بے نقاب کریں'اور جو پردے متاخرین نے یکے بعد دیگرے ڈال دیئے ہیں ان کو اللہ تعالی کی بخشی ہوئی قوت مجددہ ومصلحہ سے چاک چاک کردیں'چنانچہ تاریخ اسلام کے ان دو عظیم الشان انسانوں نے اقسام القرآن کی اس حقیقت کو جابجا واضح کیاہے اور موجودہ زمانے میں سب سے بڑا خوش نصیب انسان وہ ہے جس کے دل کو اللہ تعالی ان مصلحین حقیقی کی تصنیفات کے فہم ودرس کے لئے کھول دے'کہ ان کا نور علم'مشکوۃ نبوت سے براہ راست ماخوذ تھا".
مولانا آزاد مزید لکھتے ہیں :
"امام موصوف کی زندگی ہی میں ان کی مصنفات کے اس خاصے کی شہرت یہاں تک عالمگیر ہوچکی تھی کہ مصر وشام وعراق کے کتب فروش ائمئہ سلف کی کتابوں سے زیادہ ان کی مصنفات کے نسخے رکھتے تھے، ان کی زندگی ہی میں ان کی مصنفات سیاح ونو آباد عربوں کے ذریعے چین تک پہنچ چکی تھیں".
6--مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم [ت:1953ء]لکھتے ہیں:"علم کلام کا شوق تمام تر مولانا شبلی کی تربیت کا نتیجہ ہے،ان کی تصنیفات پڑھیں،ان کی حوالہ دی ہوئی کتابیں دیکھیں،ملل ونحل شہرستانی اور فصل فی الملل والنحل ابن حزم نگاہوں میں رہی،ابن رشد کی کشف الادلہ اور شاہ ولی اللہ صاحب کی حجة اللہ البالغہ سب نے یکے بعد دیگرے اپنا رنگ دکھایا،بالآخر علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کی تصنیفات نے ہر نقش کو مٹا ڈالا اور ہر رنگ کو بے رنگ کردیا"۔
7--مولانا سید سلیمان ندوی اپنے استاد شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی کے متعلق لکھتے ہیں:"الکلام لکھتے وقت ان پر سب سے زیادہ غزالی اور پھر رازی کا اثر تھا لیکن اس کے بعد جب ابن تیمیہ کی کتابیں چھپ چھپ کر آنے لگیں تو علامہ ممدوح کا اثر ان پر غالب آنے لگا، اس اثر کا آغاز علامہ ابن تیمیہ کی کتاب" الر على المنطقيين"سے شروع ہوا اور آخر یہاں تک بڑھا کہ وہ جولائی 1914م میں یعنی وفات سے چار ماہ پہلے مجھے لکھتے ہیں کہ :"تم نے شروع کردیا تو خیر، ورنہ ابن تیمیہ کی لائف فرض اولین ہے، مجھے اس شخص کے سامنے رازی وغزالی سب ہیچ نظر آتے ہیں، ان کی تصنیفات میں ہر روز نئی باتیں ملتی ہیں".
آخر میں مجھ سے فرماتے تھے کہ :"میں اب ہر چیز میں ابن تیمیہ کا ہاتھ پکڑ کر چلنے کو تیار ہوں".
8-شیخ سراج الدین ابوحفص البزار بغدادی نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تصانیف کے متعلق لکھا ہے :
"ہم سے متعدد علما وافاضل نے ذکر کیا کہ انہوں نے متکلمین کے اقوال ومقالات میں غور وخوض کیا تھا، تاکہ حق وصواب معلوم کریں، لیکن ان میں سے ہر شخص کا یہ حال ہوا کہ جس قدر اس میدان میں بڑھتا گیا، اتنی ہی زیادہ حیرانی وگمراہی سے اپنے تئیں نزدیک پایا، اور ارباب کلام واصول کے اقوال وعقلیات میں سے کوئی بات بھی ایسی نظر نہ آئی جو بنیاد حق کو استوار کرتی اور دل کو اس پر اطمینان وقرار ملتا، حتی کہ ان کی حالت سخت مخدوش ہوگئی، اور اپنے ایمان ویقین کی طرف سے خوف پیدا ہوگیا کہ کہیں تشکیک وانکار کی گمراہی میں ڈوب نہ جائیں، لیکن جب اللہ نے ان پر احسان کیا اور امام ابن تیمیہ کے مؤلفات کے مطالعہ کی توفیق بخشی تو ان کی ہر بات عقل سلیم کے مطابق پائی، اور وہ تمام پردے شک وریب کے ہٹ گئے جو متکلمین کی قیل وقال نے ان کی بصیرت پر ڈال دیے تھے، اگر کسی شخص کو اس بات کی صحت میں شک ہو تو امام موصوف کی مؤلفات آج بھی موجود ہیں، حسد وتعصب سے خالی ہو کر ان کا مطالعہ کرے، ہم کہتے ہیں واللہ، وہ حق ویقین اور طمانیت قلب کو پالے گا، اور دلائل واضحہ وبراہین قاطعہ کا عروۃ الوثقی اس کے ہاتھوں میں ہوگا".
9 - علامہ رشید رضا مصری[ت:1935ء] نے 1923-1925ء کے درمیان جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے چھوٹے چھوٹے رسائل کو اپنے مشہور مجلہ"المنار" میں نشر کرنا شروع کیا تھا، تو ایک مستشرق نے ان کو لکھا کہ یہ تم اپنے مجلہ میں کن کی تحریریں چھاپ رہے ہو:"كأنها القنابل الموقوتة التي تفجّر العالم الإسلامي" - "لگتا ہے ان کی تحریریں ٹائم بم ہیں جن سے عالم اسلام پھٹ پڑیں گے".
برق وبھاپ کے پوجنے والے دانایانِ یورپ کو اس بات علم ہوگیا تھا کہ ابن تیمیہ کی کتابیں دنیا میں انقلاب بپا کر دے گی.
کچھ لوگ چاہتے تھے کہ ابن تیمیہ کی کتابیں منظر عام پر نہ آئیں، کتب خانوں میں سڑ گل جائیں لیکن اللہ تعالیٰ نے کئی لوگوں کو توفیق دی جنہوں نے دنیا کے اطراف واکناف کی لائبریریوں سے ابن تیمیہ کی کتابوں کو نکال کر لوگوں کے سامنے پیش کیا، اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے.
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتابوں کی فہرست:
اگر آپ کے پاس شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی مجموع فتاوی[جو 37 جلدوں پر مشتمل ہے] اور درج ذیل کتابیں ہیں تو سمجھ لیجئے آپ کے پاس شیخ الاسلام کی مطبوعہ ساری کتابیں ہیں.
1 -منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية[1-9 بتحقيق:رشاد سالم].
2 - درء تعارض العقل والنقل[1-11 بتحقيق :رشاد سالم].
3-الصفدية.
4-الاستقامة.
5-جامع الرسائل [1-2بتحقيق:رشاد سالم].
6-جامع المسائل[1 - 9 بتحقيق :محمد عزير شمس].
7-شرح العمدة[1-4 دار عالم الفوائد] .
8-تنبيه الرجل العاقل[دار عالم الفوائد].
9-الرد على الشاذلي [دار عالم الفوائد].
10-جواب الاعتراضات المصرية على الفتيا الحموية[دار عالم الفوائد].
11-الرد على السبكي في مسألة تغليق الطلاق [دار عالم الفوائد].
12-اقتضاء الصراط المستقيم.
13-بيان الدليل على إبطال التحليل.
14-بغية المرتاد[=السبعينية].
15-التسعينية[=المحنة المصرية].
16-الرد على المنطقيين.
17-الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح[1-6 بتحقيق شيخنا :عبد العزيز بن إبراهيم العسكر].
18-شرح العقيدة الأصفهانية.
19-الصارم المسلول على شاتم الرسول.
20-الكلم الطيب.
21-الرد على البكري [=الاستغاثة].
22-الرد على الإخنائي[=الإخنائية].
23-النبوات[1-2 بتحقيق:الطويان].
24-نطرية العقد[=قاعدة العقود]
25-تفسير آيات أشكلت.
26-بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية. [1-10 مجمع الملك فهد].
27-المسودة في أصول الفقه.
28-مسألة حدوث العالم.
29-مسألة توحيد الفلاسفة.
30-قاعدة عظيمة في الفرق بين عبادات أهل الإسلام.
31-قاعدة مختصرة في قتال الكفار.
32-قاعدة في الرد على القائلين بفناء الجنة والنار.
33- المنتقى من عوالي البخاري.
34-جزء فيه الأبدال العوالي.
35-المستدرک على مجموع الفتاوى.
36-مختصر الفتاوى المصرية.
37-الأخبار العلمية من اختبارات شيخ الإسلام ابن تيمية.
جھوٹ بولنے والے کا منہ کالا ہو
اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین ....... شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...
-
[قرآن کریم میں وارد"فتیل"-"نقیر"-اور"قطمیر"کا معنی] کل شام کی بات ہے ایک بھائی نے مجھ سے"نقیر"...
-
صفة اليدين : [ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں،اللہ تعالی کی یہ ایک ذاتی صفت ہے ]: اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَان﴾[...
-
[تصنيف وتالیف کی اہمیت اور اس میں اہل علم کا منہج] : .............. 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین ............. 1 -اما...