[افراتفری کے ماحول میں تصنیف وتسوید کا مشغلہ]
........................
کورونا وائرس/Coronavirus کی وجہ سے پوری دنیا میں سناٹا چھایا ہوا ہے، دنیا کی رفتار رک سی گئی ہے، ہر گھر قید خانہ بن گیا ہے اور لوگ اس میں بند ہیں.
اسی بیچ امریکہ سے ایک رپورٹ آئی ہے کہ اس تالہ بندی یعنی lockdown کے دور میں وہاں کے گھروں میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا اور ٹکراؤ عروج پر ہے.
میں کہتا ہوں :جب فارغ ہو کر بیٹھیں گے تو یہ ہونا لازمی ہے.
1 -مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں :
"8/جولائی 1916ء کو یکا یک حکومت ہند نے میری نظر بندی کے احکام جاری کر دیئے... ، نظر بندی کے بعد کوئی موقع باقی نہیں رہا کہ باہر کی دنیا سے کسی طرح کا علاقہ رکھ سکوں.
اب میرے اختیار میں صرف ایک ہی کام رہ گیا تھا، یعنی تصنیف وتسوید کا مشغلہ، نظر بندی کی انیس دفعات میں سے کوئی دفعہ بھی مجھے اس سے نہیں روکتی تھی، میں نے اس پر قناعت کی، اتنا ہی نہیں، بلکہ میں نے خیال کیا، اگر زندگی کی تمام آزادیوں سے محروم ہونے پر بھی لکھنے پڑھنے کی آزادی سے محروم نہیں ہوں اور اس کے نتائج محفوظ ہیں، تو زندگی کی راحتوں میں سے کوئی راحت بھی مجھ سے الگ نہیں ہوئی، میں اس عالم میں پوری زندگی بسر کر دے سکتا ہوں".
2- کہتے ہیں حافظ ابن حجر عسقلانی کی تین صاحبزادیوں کی موت طاعون سے ہوئی، ایسی نازک حالت میں بھی ان کا قلم رکا نہیں اور "بذل الماعون في فضل الطاعون" جیسی کتاب لکھ ڈالی.
3 - امام فخر الدین رازی کی" تفسیر کبیر /تفسیر رازی" کا کل زمانۂ تصنیف کم وبیش آٹھ برس ہے، تصنیف کا زمانہ جس پریشانی اور بے سروسامانی کی حالت میں گزرا ہے اس کا اندازہ اس سے ہوگا کہ مختلف ممالک میں لکھے گئے ہیں مثلاً سورہ ابراہیم کی تفسیر آخر شعبان 601 ھ میں، بغداد کے صحرا میں تمام کی، سورہ بنی اسرائیل کی تفسیر 601ھ میں غزنین میں ختم ہوئی، ایک موقع پر لکھا ہے کہ سلطنت کی برہمی اور طوائف الملوکی کی خانہ جنگیوں کی وجہ سے نہایت بے اطمینانی اور پریشانی ہے، ان سب سے بڑھ کر یہ کہ چوتھی جلد یعنی یونس کی تفسیر لکھنے کے زمانہ میں 601ھ میں ان کے سب سے عزیز فرزند محمد نے انتقال کیا، اس واقعہ نے ان کو سخت صدمہ پہنچایا، خود لکھتے ہیں :
ختمت تفسير هذه السورة يوم السبت من شهر الله الأصم رجب سنة إحدى وستمائة وكنت ضيق الصدر كثير الحزن بسبب وفاة الولد الصالح محمد
"یعنی میں نے اس سورہ کی تفسیر ہفتہ کے دن رجب ٦٠١ھ میں ختم کی اور میں فرزند صالح محمد کی وفات کی وجہ سے سخت غمگین اور تنگ دل ہوں".
جوان اور صالح بیٹے کا یہ داغ تھا کہ متعدد سورتوں کے خاتمہ میں بار بار روتے ہیں اور دوسروں کو رلاتے ہیں یہاں تک کہ سورہ یوسف کی تفسیر کے خاتمہ میں ایک پردرد مرثیہ لکھا ہے اور تفسیر میں شامل کیا ہے، اس کے اشعار یہ ہیں :
فَلَوْ كانَتِ الأقْدارُ مُنْقادَةً لَنا
فَدَيْناكَ مِن حِماكَ بِالرُّوحِ والجِسْمِ
ولَوْ كانَتِ الأمْلاكُ تُؤْخَذُ رِشْوَةً
خَضَعْنا لَها بِالرِّقِّ في الحُكْمِ والِاسْمِ
ولَكِنَّهُ حُكْمٌ إذا حانَ حِينُهُ
سَرى مِن مَقَرِّ العَرْشِ في لُجَّةِ اليَمِّ
سَأبْكِي عَلَيْكَ العُمْرَ بِالدَّمِ دائِمًا
ولَمْ أنْحَرِفْ عَنْ ذاكَ في الكَيْفِ والكَمِّ
سَلامٌ عَلى قَبْرٍ دُفِنْتَ بِتُرْبِهِ
وأتْحَفَكَ الرَّحْمَنُ بِالكَرَمِ الجَمِّ
وما صَدَّنِي عَنْ جَعْلِ جَفْنِي مَدْفَنًا
لِجِسْمِكَ إلّا أنَّهُ أبَدًا يَهْمِي
وأُقْسِمُ إنْ مَسُّوا رُفاتِي ورِمَّتِي
أحَسُّوا بِنارِ الحُزْنِ في مَكْمَنِ العَظْمِ
حَياتِي ومَوْتِي واحِدٌ بَعْدَ بُعْدِكم
بَلِ المَوْتُ أوْلى مِن مُداوَمَةِ الغَمِّ
رَضِيتُ بِما أمْضى الإلَهُ بِحُكْمِهِ
لِعِلْمِي بِأنِّي لا يُجاوِزُنِي حُكْمِي
ابتدائے تصنیف کے زمانہ سے کبھی ایک جگہ چین سے رہنا نصیب نہیں ہوا، عالمگیر خونریزیوں سے جان اور مال کے لالے ہیں، جوان اور قابل بیٹا بے کسی اور غربت کی حالت میں مرچکا ہے، یہ سب کچھ ہے لیکن سلف کی یادگار پہلو میں ایک دل ہے جو ان تمام قیامت انگیز مصائب پر بھی نہیں دبتا، جوان اور لائق بیٹے کی لاش سامنے ہے لیکن مضامین
اسی زور، اسی بلندی، اسی شان کے ساتھ قلم سے نکلتے ہیں کہ گویا آسمان سے ملکوتی فوجیں اتر رہیں ہیں.
ذكرْتُكِ والخَطَىّ يخطِر بيننا
وقد نَهِلتْ منا المثقَّفةُ السُمْرُ
یعنی میں تجھ کو یاد کر رہا تھا اور حالت یہ تھی کہ برچھیاں جسم سے پار ہو رہی تھیں اور نیزے میرا خون پی کر سیراب ہو رہے تھے.
4-امام اہل سنت حضرت امام احمد بن حنبل [164-241ھ]- رحمہ اللہ - کی پیٹھ پر جلاد تازیانے مار رہے تھے، خود المعتصم سر پر کھڑا تھا، تمام پیٹھ سے خون کے فوارے بہہ رہے تھے اور یہ کچھ صرف اتنی بات کے لئے ہو رہا تھا کہ قرآن کی نسبت ایک ایسے سوال کا جواب دے دیں جس کا جواب اللہ کے رسول - صلی اللہ علیہ و سلم - اور اس کے یاروں نے نہیں دیا ہے، اور نہ دینے کا حکم دیا ہے وہ سب کچھ سہہ رہے تھے مگر جواب نہیں دیتے تھے اگر کوئی صدا نکلتی بھی تھی تو یہی نکلتی:
"أعطوني شيئا من كتاب الله أو سنة رسوله حتى أقول"
درے مارے نے سے کیا ہوتا ہے؟ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے ثابت کر دکھاؤ تو اقرار کر لوں، اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے جس کے آگے اتباع واقتدا کا سر جھک سکے!
مامون ومعتصم کے عہد میں بدعت اعتزال اور قول بخلق القرآن کی وجہ سے ایک فتنئہ عظیم برپا ہوا تھا، علماء سنۃ پر جو جو مظالم وشدائد ہوئے سب معلوم ہیں.
سب سے زیادہ ظلم وستم کا نشانہ امام احمد بن حنبل کو بنایا گیا تھا ، وقت کے بادشاہ مار مار کر جب ان سے اپنی بات منوا نہیں سکے تو پابند سلاسل کرکے قید خانہ میں ڈال دیا، امام احمد - رحمہ اللہ - نے اسی بغداد کے قید خانے میں "الرد على الزناقة والجهمية" جیسی قیمتی کتاب لکھ ڈالی.
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ :
"إن الإمام أحمد ألّف الرسالة "الرد على الزناقة والجهمية" وهو في السجن، وتحت وطأة التعذيب".
ابوالخطاب کلوذانی - رحمہ اللہ - نے لکھا ہے :
"أن الإمام أحمد ألفه في محبسه كما في التمهيد [2/101'136]".
شیخ الاسلام ابن تیمیہ - رحمہ اللہ - نے بھی لکھا ہے :
"أن الإمام أحمد ألفها في السجن" .
اس طرح کے واقعات کی تفصیل کے لیے میرے مضمون "قيد خانہ اور تصنیف " دیکھنا چاہئے.
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
No comments:
Post a Comment