Thursday, May 21, 2020

صدقہ ‏فطر ‏میں ‏کیا ‏نکالیں

[صدقہ فطر میں کیا نکالیں؟]
......... 
1 - صدقہ فطر صرف انسانی خوراک سے ادا کیا جائے :
تمام اشیا (تمام ایسی اجناس جو لوگوں کا طعام یعنی خوراک ہیں) سے ایک صاع فطرانہ نکالا جائے، کتب فقہ میں لکھا ہے کہ : "هي صاع من القوت المعتاد عن كل فرد" - "یعنی روزمرہ کی خوراک/غذا میں سے ایک صاع ہر فرد کی طرف سے ادا کیا جائے". 
اس کے دلائل :
پہلی دلیل :- حضرت ابن عمر - رضی اللہ عنہما - سے مروی ہے کہ :
"فرض رسول الله - صلى الله عليه وسلم - زكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير". 
"یعنی رسول اکرم - صلی اللہ علیہ وسلم - نے رمضان کا صدقۃ الفطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَوْ فرض کیا تھا". 
دوسری دلیل :- حضرت ابوسعید الخدری - رضی اللہ عنہ - سے مروی ہے کہ : 
" كنا نخرج يوم الفطر في عهد النبي - صلى الله عليه وسلم - صاعا من طعام وكان طعامنا الشعير والزبيب والأقط والتمر". 
"یعنی اللہ کے رسول - صلی اللہ علیہ وسلم - کے زمانے میں ہم لوگ صدقہ فطر کھانے کی چیزوں سے نکالا کرتے تھے، اور ہمارا کھانا جَوْ، منقی(خشک انگور/کشمش)، پنیر (Cheese/Cottage Cheese) اور کھجور جیسی چیزیں تھیں".
تیسری دلیل : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ - سے مروی ہے کہ: " فرض رسول الله - صلى الله عليه وسلم - زكاة الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساكين".
" یعنی رسول کریم - صلی اللہ علیہ وسلم - نے صدقہ فطر روزہ دار کی لغو بات اور فحش گوئی سے روزے کو پاک کرنے کے لئے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لئے فرض کیا". 
2- معلوم ہوا اللہ کے رسول - صلی اللہ علیہ وسلم - کے زمانے میں لوگوں کا عام طعام(قوت/کھانا) یہ چیزیں تھیں :
جَوْ، گیہوں/گندم، کھجور، پنیر، اور خشک انگور.
اب اگر کسی علاقے کی غذا ان چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہو تو اس سے بھی صدقہ فطر نکال سکتے ہیں، لہذا جن علاقوں میں :
چاول، آٹا، چنا، دال، مٹر، مکئی، باجرہ اور گوشت(بعض فقہا کے قول کے مطابق) وغیرہ بطور غذا استعمال ہوتے ہوں تو وہاں کے لوگ ان اجناس /اشیا سے بھی فطرانہ ادا کر سکتے ہیں. 
3-ایسی چیز جو انسانی غذا نہ ہو بلکہ جانور کی خوراک ہو اس کا نکالنا کافی نہیں ہوگا.
4- اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسان کا طعام (خوراک/غذا /قوت) زمان(زمانہ) اور مکان (جگہ) کے اعتبار (اختلاف /بدلنے) سے مختلف ہو سکتا ہے.
مثلاً "جَوْ" اللہ کے رسول - صلی اللہ علیہ وسلم - کے عہد مبارک(بلکہ کچھ دہائیاں قبل ہندوستان)میں عام لوگوں کی خوراک تھی، لیکن اب یہ خلیجی ممالک میں جانور کی خوراک ہے، لہذا اب اس کا نکالنا کافی نہیں.
اسی طرح "مکئی" کی کھیتی ہمارے علاقے میں خوب ہوتی ہے، لیکن بہت ہی کم لوگ اس کی روٹی یا ستو کھاتے ہیں، بلکہ سارے لوگ اسے بیچ دیتے ہیں یا کچھ جانور(گائے اور بھینس) کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں، لہذا اس کا فطرانہ نکالنے سے پہلے انسان کو غور کر لینا چاہیے.
5- فطرانہ میں کپڑا لتا، تھالی برتن اور عام سامان کے نکالنے سے صدقہ فطر ادا نہ ہوگا ،اس لئے کہ یہ چیزیں انسانی غذا میں سے نہیں ہیں، اور رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - نے صدقہ فطر کھانا میں سے فرض کیا ہے. 
6-خوراک کے بدلے قیمت دینا بھی کافی نہیں:
أ- احادیث میں منصوص غلہ کی قیمت نکالنا رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - کی کھلی مخالفت ہے، اور حدیث میں آیا ہے: "من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد" - "یعنی جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا عمل نہیں تو اس کا عمل مردود اور ناقابل قبول ہے".
ب-خوراک کی قیمت نکالنے میں صحابہ کرام کے عمل کی بھی مخالفت لازم آتی ہے، اور حدیث میں آیا ہے :"عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي".
ج- قیمت کی ادائیگی میں معین جنس سے غیر معین جنس کی طرف عدول ہے.
جس طرح صدقہ فطر ادا کرنے کا وقت متعین ہے اسی طرح اس کی اجناس بھی متعین ہیں، اگر کوئی غیر معین وقت میں اس کو نکالتا ہے تو وہ صدقہ فطر شمار نہیں ہوگا بلکہ عام صدقہ شمار کیا جائے گا، اسی طرح اگر کوئی معین جنس(جو اہل بلد کا طعام ہے) سے عدول کرتا ہے اور غیر معین جنس (جیسے اس کی قیمت) ادا کرتا ہے تو اس سے صدقہ فطر ادا نہ ہوگا.
د-اللہ کے رسول - صلی اللہ علیہ وسلم - نے مختلف اجناس (انسانی خوراک) متعین کر دیئے ہیں اور ان کی قیمتوں کے درمیان آسمان وزمین کا فرق ہے، اب کس جنس کی قیمت معتبر ہوگی؟ یہی وجہ ہے کہ ہر سال ہمارے گاؤں میں اسے لے کر ہنگامہ ہوتا ہے!
ھ- قیمت نکالنے میں صدقہ فطر کا جو مقصد ہے وہ فوت ہو جاتا ہے، اناج نکالنا اور غریبوں میں تقسیم کرنا ظاہری صدقہ ہے اور ہر چھوٹا بڑا مسلمان اسے ناپبتے اور بانٹتے دیکھتا ہے جبکہ اس کی قیمت نکالنا خفیہ صدقہ ہے، دینے اور لینے والے ہی کے درمیان محدود رہتا ہے.
ز- صدقہ فطر اور زکوۃ کے درمیان فرق ہے، زکوٰۃ میں انسان نقدی دیتا ہے جبکہ صدقہ فطر میں غلہ(خوراک) نکالنے کا حکم ہے.
ح- یہ کہنا کہ : "مساکین کو کھلانا مقصود ہے اور وہ قیمت سے بھی ممکن ہے لہذا ایسا کرنا بھی درست ہے".
ہم ان سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کیا یہ مقصد اللہ کے رسول - صلی اللہ علیہ وسلم - کو معلوم نہیں تھا، کیا اس زمانے میں دینار ودرہم کا وجود نہیں تھا، کیا دینار ودرہم سے اس زمانے کے فقرا اپنی حاجت پوری نہیں کر سکتے تھے! 
بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ اس زمانے میں غلہ سے زیادہ پیسوں کی قیمت تھی ، لہذا اللہ کے رسول - صلی اللہ علیہ - سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کیجئے. 
ط- کہتے ہیں :"پیسہ فقرا کے لئے اناج سے زیادہ مفید ہے". 
میں کہتا ہوں اناج کا نکالنا آپ کے لئے زیادہ مفید ہے، اور فقیر کے لیے بھی زیادہ نفع بخش ہے، کون ہے جو اناج خرید کر نہیں کھاتا؟! اچھا چاول،اچھی گیہوں اور اچھا آٹا سب کو چاہئے، ردی چیزیں نہ نکالا کریں!
ی-آپ کو یہ کہا گیا ہے کہ آپ کو صرف عید کے دن فقیر کو دردر کی ٹھوکر کھانے سے بے نیاز کرنا ہے ، لہذا آپ ان کے لئے اس دن کا بندوبست کر دیجئے، اور یہی صدقہ فطر کا مقصد ہے. 
مزید تعاون کرنا چاہتے ہیں تو صدقہ وخیرات اور زکوۃ کے پیسوں سے ان کی مدد کیجئے. 
ک- حدیث میں صدقہ فطر کی علت یہ بیان کی گئی ہے کہ لغو باتوں اور بیہودہ کاموں سے روزے دار کے روزوں کی پاکی اور مسکینوں کے لئے کھانا ہے.
اور ظاہر بات ہے یہ دونوں امر اسی وقت متحقق ہوسکتے ہیں جب صدقہ فطر غلہ کی شکل میں ادا کیا جائے، کیونکہ جن انسانی کوتاہیوں اور غلطیوں کا کفارہ شریعت میں مسکینوں کو کھانا کھلانے کی شکل میں مقرر ہے، جیسے : قسم کا کفارہ، ظہار کا کفارہ، رمضان میں جماع کا کفارہ اور حج میں فدیہ وغیرہ، ان میں کھانا کھلانا ہی متعین ہے، وہاں کفارہ نقد کی شکل میں دینا جائز نہ ہوگا. 
ل- بہرے حال فقہا نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے، میں یہاں کچھ علما کے اقوال لکھ دیتا ہوں:
أ- امام مالک، امام شافعی اور امام احمد - رحمہم اللہ - کے نزدیک اجناس کے عوض قیمت دینا جائز نہیں.
ب- امام ابو حنیفہ - رحمہ اللہ - کے نزدیک قیمت دینا جائز ہے.
ج- امام شوکانی - رحمہ اللہ - کے نزدیک کسی عذر کی وجہ سے قیمت دینا جائز ہے. 
د- امام ابن حزم - رحمہ اللہ - کے نزدیک اجناس کی قیمت کفایت نہیں کرتی.
ھ- شیخ الاسلام ابن تیمیہ - رحمہ اللہ - کے نزدیک صدقہ فطر روز مرہ کی خوراک سے ادا کیا جائے.
و- شیخ ابن عثيمين کے نزدیک قیمت کفایت نہیں کرتی.
ز-شیخ البانی کا بھی یہی رجحان ہے، شیخ البانی نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ پڑھ کر رونکٹے کھڑے ہو جاتے ہیں :
"فانحراف بعض الناس عن تطبيق النص إلى البديل الذي هو النقد ، هذا اتهام للشارع بأنه لم يحسن التشريع؛ لأن تشريعهم أفضل وأنفع للفقير هذا لو قصده ، كفر به لكنهم لا يقصدون هذا الشيء". انظر: [سلسلة الهدى والنور شريط رقم :٢٧٤]. 

اخیر میں یہی کہونگا کہ اناج(جیسے چاول، آٹا وغیرہ ) نکالنے میں سارے علما کا اتفاق ہے لہذا انہیں چیزوں کو نکالئے اور جن میں شک اور اختلاف ہے اس سے بچئیے.
(واللہ اعلم) 
 وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم 

🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین

Saturday, April 25, 2020


کچھ تو ایسا کر کہ عالم بھر افسانہ رہے

[کچھ تو ایسا کر کہ عالم بھر میں افسانہ رہے]
................. 
1 -امام ابن جریر طبری - رحمہ اللہ - کی سوانح عمری میں حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے :
"رُوي عنه أنه مكث أربعين سنة يكتب وكل يوم يكتب أربعين ورقة" - "یعنی وہ مسلسل چالیس سال تک لکھتے رہے اور روزانہ چالیس ورق لکھتے تھے". 
2-ام فخر الدین رازی کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ایک سو سے کم نہ ہوگی۔ صرف تفسیر کبیر تیس جلدوں میں ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کھانے پینے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے میں ہمیشہ اس پر افسوس کرتا ہوں۔
"تفسیر کبیر /تفسیر رازی" ان کی مشہور کتاب ہے، اس کا کل زمانۂ تصنیف کم وبیش آٹھ برس ہے، تصنیف کا زمانہ نہایت پریشانی اور بے سروسامانی کی حالت میں گزرا ہے.
(جس کی تفصیل ایک مضمون میں بیان کر چکا ہوں). 
تصنیف کی روزانہ مقدار:
اس تصنیف کی روزانہ مقدار حیرت انگیز ہے، اکثر سورتوں کے خاتمہ سے تصنیف کی مدت کا پتہ لگتا ہے، مثلاً سورہ انفال کے اخیر میں لکھا ہے کہ رمضان 601ھ میں تمام ہوئی، اس کے بعد سورہ توبہ کی تفسیر شروع ہوتی ہے اس کے خاتمہ میں لکھتے ہیں کہ 14 رمضان میں تمام ہوئی یعنی زیادہ سے زیادہ دو ہفتے صرف ہوئے، سورہ کی تفسیر مصری چھاپے کے نسخے میں 193 صفحوں میں آئی ہے، ہر صفحہ میں 31 سطریں ہیں اور نہایت باریک خط اور درآورد کتابت ہے، اس حساب سے روزانہ کم وبیش بیس صفحے ہوتے ہیں، اس قدر آج کوئی شخص کتابت نہیں کر سکتا، یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ تصنیف کے زمانہ میں اور بھی بہت سے کام یعنی درس، تدریس، افتا، وعظ وپند روزانہ جاری رہتے تھے اور دن کا بڑا حصہ ان مشغلوں میں صرف ہوتا ہے.
3- علامہ ابن الجوزی - رحمہ اللہ - فرماتے ہیں کہ :
میری پہلی تصنیف اس وقت ہوئی جب میری عمر تقریباً تیرہ برس تھی. 
آپ کے پوتے ابوالمظفر کہتے ہیں میں نے اپنے دادا سے آخری عمر میں منبر پر یہ کہتے سنا ہے کہ میری ان انگلیوں نے دوہزار جلدیں لکھیں ہیں، میرے ہاتھ پر ایک لاکھ آدمیوں نے توبہ کی ہے اور بیس ہزار یہود ونصاری مسلمان ہوئے ہیں. 
علامہ موصوف کی تصانیف کو دیکھ کر علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ کسی عالم نے ایسی تصانیف کیں جیسی آپ نے کیں. 
جن قلموں سے علامہ ابن الجوزی نے کتابیں لکھی تھی، ان کا تراشہ جمع کرتے گئے تھے، جب وہ وفات پانے لگے تو وصیت کی کہ میرے غسل کا پانی اسی تراشے سے گرم کیا جائے، چنانچہ جس پانی سے ان کو غسل دیا گیا اس کے نیچے وہی تراشے بطور ایندھن کے جلایا گیا تھا.
4- مشہور عالم دین مولانا عبد الحئی فرنگی محلی - رحمہ اللہ - ہر فن میں دسترس رکھتے تھے، علم حدیث، علم اسناد ورجال، تفسير، فقہ وفتاوی ،فلسفہ ،ریاضی وہیئت جیسے علوم میں آپ کی بیش بہا تصانیف موجود ہیں جن کی تعداد ایک سو بیس ہے، اور آپ کی عمر صرف 39 سال ہے، اتنی قلیل عمر میں دوسرے مشاغل کے ساتھ اس قدر تصانیف عطیہ الہی ہے، آپ کی سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر آپ کی تصانیف کے صفحات کو آپ کے ایام زندگی پر تقسیم کیا جائے تو صفحات کتب ایام زندگی پر فوقیت لے جائیں گے. 
5- شیخ الاسلام ابن تیمیہ - رحمہ اللہ - کو کون نہیں جانتا، ان کی زندگی کے آخری تین سال مختلف ہنگاموں سے پر رہے، یہی وہ زمانہ تھا کہ ان کی زبان اور ان کا قلم رات دن چلتا تھا اور تھکنے کا نام نہیں لیتا تھا.
ابن تیمیہ کسی ایک جگہ پر مقیم نہیں رہے اس لئے ان کی تحریروں کو ایک جگہ جمع کرکے نہیں رکھا گیا، کسی کو بھی اس کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے کتنا لکھا اور ان کی تصنیفات کی تعداد کیا ہے، بعض نے پانچ سو اور بعض نے ایک ہزار سے زیادہ تصنیفات کا اندازہ لگایا ہے، مگر سب اپنا اپنا اندازہ ہے. 
اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ بہت تیز لکھا کرتے تھے، ان کے سامنے حوالے کی کتابیں نہیں ہوتی تھیں ،ان کا دماغ خود ایک بہت بڑا کتب خانہ تھا جس کی بنا پر ان کو حوالوں کے تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھی، اکثر ایسا ہوتا تھا کہ کوئی ان کے پاس سوال لے کر آتا اور وہ وہیں بیٹھے بیٹھے تھوڑی دیر میں اس کا جواب لکھ کر دے دیتے تھے، "العقيدة الحموية الكبرى" ڈیڑھ سو صفحوں کی ایک کتاب ہے، جس کو انہوں نے ظہر اور عصر کی نماز کے درمیان لکھا تھا، اسی طرح "العقیدة الواسطية" ساٹھ صفحوں کا ایک رسالہ ہے جس کو انہوں نے عصر اور مغرب کی نماز درمیان لکھا تھا.
اسی طرح ایک شخص حروف قرآن کے قدیم یا حادث ہونے کے متعلق سوال لے کر آیا اور چاہتا تھا کہ اسی وقت اس کا جواب مل جائے تو انہوں نے ایک ہی نشست میں چون صفحوں کا جواب لکھ کر اس کے حوالے کر دیا. 
امام موصوف نے آخری قید میں بہت کچھ لکھا جس پر حریفوں نے قبضہ کر لیا تھا، یہ کل چودہ بستے (گھٹریاں) تھے، انہی میں سے ایک قرآن مجید کی مشکل آیتوں کی تفسیر بھی تھی، ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ اس کی چالیس جلدیں تھیں، بعض نے پچاس کا اندازہ لگایا ہے.
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تقریباً ساری مطبوعہ کتابیں میرے پاس ہے، ان کی کتابیں پڑھ کر ان کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہے. 
میں نے بہت پہلے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا "شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتابوں کی اہمیت اور ان کی مطبوعہ کتابوں کی فہرست". 
لہٰذا تفصیل وہاں دیکھنی چاہیے.
..... 
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین 

Monday, April 13, 2020

افراتفری کے ماحول میں تصنیف وتسوید کا مشغلہ

[افراتفری کے ماحول میں تصنیف وتسوید کا مشغلہ] 
........................ 
کورونا وائرس/Coronavirus کی وجہ سے پوری دنیا میں سناٹا چھایا ہوا ہے، دنیا کی رفتار رک سی گئی ہے، ہر گھر قید خانہ بن گیا ہے اور لوگ اس میں بند ہیں. 
اسی بیچ امریکہ سے ایک رپورٹ آئی ہے کہ اس تالہ بندی یعنی lockdown کے دور میں وہاں کے گھروں میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا اور ٹکراؤ عروج پر ہے.
میں کہتا ہوں :جب فارغ ہو کر بیٹھیں گے تو یہ ہونا لازمی ہے. 
1 -مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں :
"8/جولائی 1916ء کو یکا یک حکومت ہند نے میری نظر بندی کے احکام جاری کر دیئے... ، نظر بندی کے بعد کوئی موقع باقی نہیں رہا کہ باہر کی دنیا سے کسی طرح کا علاقہ رکھ سکوں.
اب میرے اختیار میں صرف ایک ہی کام رہ گیا تھا، یعنی تصنیف وتسوید کا مشغلہ، نظر بندی کی انیس دفعات میں سے کوئی دفعہ بھی مجھے اس سے نہیں روکتی تھی، میں نے اس پر قناعت کی، اتنا ہی نہیں، بلکہ میں نے خیال کیا، اگر زندگی کی تمام آزادیوں سے محروم ہونے پر بھی لکھنے پڑھنے کی آزادی سے محروم نہیں ہوں اور اس کے نتائج محفوظ ہیں، تو زندگی کی راحتوں میں سے کوئی راحت بھی مجھ سے الگ نہیں ہوئی، میں اس عالم میں پوری زندگی بسر کر دے سکتا ہوں". 
2- کہتے ہیں حافظ ابن حجر عسقلانی کی تین صاحبزادیوں کی موت طاعون سے ہوئی، ایسی نازک حالت میں بھی ان کا  قلم رکا نہیں اور "بذل الماعون في فضل الطاعون" جیسی کتاب لکھ ڈالی.
3 - امام فخر الدین رازی کی" تفسیر کبیر /تفسیر رازی" کا کل زمانۂ تصنیف کم وبیش آٹھ برس ہے، تصنیف کا زمانہ جس پریشانی اور بے سروسامانی کی حالت میں گزرا ہے اس کا اندازہ اس سے ہوگا کہ مختلف ممالک میں لکھے گئے ہیں مثلاً سورہ ابراہیم کی تفسیر آخر شعبان 601 ھ میں، بغداد کے صحرا میں تمام کی، سورہ بنی اسرائیل کی تفسیر 601ھ میں غزنین میں ختم ہوئی، ایک موقع پر لکھا ہے کہ سلطنت کی برہمی اور طوائف الملوکی کی خانہ جنگیوں کی وجہ سے نہایت بے اطمینانی اور پریشانی ہے، ان سب سے بڑھ کر یہ کہ چوتھی جلد یعنی یونس کی تفسیر لکھنے کے زمانہ میں 601ھ میں ان کے سب سے عزیز فرزند محمد نے انتقال کیا، اس واقعہ نے ان کو سخت صدمہ پہنچایا، خود لکھتے ہیں :
ختمت تفسير هذه السورة يوم السبت من شهر الله الأصم رجب سنة إحدى وستمائة وكنت ضيق الصدر كثير الحزن بسبب وفاة الولد الصالح محمد
"یعنی میں نے اس سورہ کی تفسیر ہفتہ کے دن رجب ٦٠١ھ میں ختم کی اور میں فرزند صالح محمد کی وفات کی وجہ سے سخت غمگین اور تنگ دل ہوں".
جوان اور صالح بیٹے کا یہ داغ تھا کہ متعدد سورتوں کے خاتمہ میں بار بار روتے ہیں اور دوسروں کو رلاتے ہیں یہاں تک کہ سورہ یوسف کی تفسیر کے خاتمہ میں ایک پردرد مرثیہ لکھا ہے اور تفسیر میں شامل کیا ہے، اس کے اشعار یہ ہیں :

فَلَوْ كانَتِ الأقْدارُ مُنْقادَةً لَنا
فَدَيْناكَ مِن حِماكَ بِالرُّوحِ والجِسْمِ

ولَوْ كانَتِ الأمْلاكُ تُؤْخَذُ رِشْوَةً
خَضَعْنا لَها بِالرِّقِّ في الحُكْمِ والِاسْمِ

ولَكِنَّهُ حُكْمٌ إذا حانَ حِينُهُ 
سَرى مِن مَقَرِّ العَرْشِ في لُجَّةِ اليَمِّ

سَأبْكِي عَلَيْكَ العُمْرَ بِالدَّمِ دائِمًا 
ولَمْ أنْحَرِفْ عَنْ ذاكَ في الكَيْفِ والكَمِّ

سَلامٌ عَلى قَبْرٍ دُفِنْتَ بِتُرْبِهِ 
وأتْحَفَكَ الرَّحْمَنُ بِالكَرَمِ الجَمِّ

وما صَدَّنِي عَنْ جَعْلِ جَفْنِي مَدْفَنًا 
لِجِسْمِكَ إلّا أنَّهُ أبَدًا يَهْمِي

وأُقْسِمُ إنْ مَسُّوا رُفاتِي ورِمَّتِي
أحَسُّوا بِنارِ الحُزْنِ في مَكْمَنِ العَظْمِ

حَياتِي ومَوْتِي واحِدٌ بَعْدَ بُعْدِكم 
بَلِ المَوْتُ أوْلى مِن مُداوَمَةِ الغَمِّ

رَضِيتُ بِما أمْضى الإلَهُ بِحُكْمِهِ 
لِعِلْمِي بِأنِّي لا يُجاوِزُنِي حُكْمِي

ابتدائے تصنیف کے زمانہ سے کبھی ایک جگہ چین سے رہنا نصیب نہیں ہوا، عالمگیر خونریزیوں سے جان اور مال کے لالے ہیں، جوان اور قابل بیٹا بے کسی اور غربت کی حالت میں مرچکا ہے، یہ سب کچھ ہے لیکن سلف کی یادگار پہلو میں ایک دل ہے جو ان تمام قیامت انگیز مصائب پر بھی نہیں دبتا، جوان اور لائق بیٹے کی لاش سامنے ہے لیکن مضامین
اسی زور، اسی بلندی، اسی شان کے ساتھ قلم سے نکلتے ہیں کہ گویا آسمان سے ملکوتی فوجیں اتر رہیں ہیں.
ذكرْتُكِ والخَطَىّ يخطِر بيننا
وقد نَهِلتْ منا المثقَّفةُ السُمْرُ
یعنی میں تجھ کو یاد کر رہا تھا اور حالت یہ تھی کہ برچھیاں جسم سے پار ہو رہی تھیں اور نیزے میرا خون پی کر سیراب ہو رہے تھے. 

4-امام اہل سنت حضرت امام احمد بن حنبل [164-241ھ]- رحمہ اللہ - کی پیٹھ پر جلاد تازیانے مار رہے تھے، خود المعتصم سر پر کھڑا تھا، تمام پیٹھ سے خون کے فوارے بہہ رہے تھے اور یہ کچھ صرف اتنی بات کے لئے ہو رہا تھا کہ قرآن کی نسبت ایک ایسے سوال کا جواب دے دیں جس کا جواب اللہ کے رسول - صلی اللہ علیہ و سلم - اور اس کے یاروں نے نہیں دیا ہے، اور نہ دینے کا حکم دیا ہے وہ سب کچھ سہہ رہے تھے مگر جواب نہیں دیتے تھے اگر کوئی صدا نکلتی بھی تھی تو یہی نکلتی:
"أعطوني شيئا من كتاب الله أو سنة رسوله حتى أقول" 
درے مارے نے سے کیا ہوتا ہے؟ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے ثابت کر دکھاؤ تو اقرار کر لوں، اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے جس کے آگے اتباع واقتدا کا سر جھک سکے!
مامون ومعتصم کے عہد میں بدعت اعتزال اور قول بخلق القرآن کی وجہ سے ایک فتنئہ عظیم برپا ہوا تھا، علماء سنۃ پر جو جو مظالم وشدائد ہوئے سب معلوم ہیں.
سب سے زیادہ ظلم وستم کا نشانہ امام احمد بن حنبل کو بنایا گیا تھا ، وقت کے بادشاہ مار مار کر جب ان سے اپنی بات منوا نہیں سکے تو پابند سلاسل کرکے قید خانہ میں ڈال دیا، امام احمد - رحمہ اللہ - نے اسی بغداد کے قید خانے میں "الرد على الزناقة والجهمية" جیسی قیمتی کتاب لکھ ڈالی. 
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ :
"إن الإمام أحمد ألّف الرسالة "الرد على الزناقة والجهمية" وهو في السجن، وتحت وطأة التعذيب". 
ابوالخطاب کلوذانی - رحمہ اللہ - نے لکھا ہے :
"أن الإمام أحمد ألفه في محبسه كما في التمهيد [2/101'136]".
شیخ الاسلام ابن تیمیہ - رحمہ اللہ - نے بھی لکھا ہے :
"أن الإمام أحمد ألفها في السجن" .
اس طرح کے واقعات کی تفصیل کے لیے میرے مضمون "قيد خانہ اور تصنیف " دیکھنا چاہئے.
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین

جھوٹ ‏بولنے ‏والے ‏کا ‏منہ ‏کالا ‏ہو

اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین .......  ‏شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...