Monday, April 15, 2019

ایک المیہ

[ایک المیہ]
.............
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
..................
.....................
ہمارے بر صغیر کے علما اور طلبہ کا ایک بڑا المیہ ہے کسی بھی عالم کے قول کے متعلق عذر تلاش نہ کرنا،جھٹ سے حکم صادر کر دینا، یہ ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے،جبکہ اس کے برخلاف ہمارے اسلاف ہمیشہ اپنے علما کی کسی ایسی بات جو اہل سنت کے عقیدہ کے خلاف معلوم ہوتی تو پہلے اس کے لئے عذر ڈھونڈتے، ان کے لئے بچاؤ کا راستہ تلاش کرتے لیکن جب یہ ممکن نہیں ہوتا تو پھر صراحت کے ساتھ ان کا رد فرماتے.
لیکن بر صغیر میں بالعموم اور اہل حدیثوں میں بالخصوص کیا چھوٹا کیا بڑا،کیا عالم کیا جاہل سب مفتی دوراں بنے بیٹھے ہیں، اور کسی بھی عالم یا طالب کی بات جو ظاہر میں(در حقیقت ہمارے علم کی کمی، قصور فہم یا پھر تعبیر میں لچک کی وجہ سے) عقیدہ کے مخالف لگتی ہے اس میں ان کے لئے عذر تلاش نہیں کرتے اور فوراً حکم صادر کر دیتے ہیں.
اس کے پیچھے علم میں گہرائی نہ ہونا ،جمود، تحجر اور تشدد ہے.
ہمارے بہت سارے علما نے اس موضوع پر کتابیں بھی لکھی ہیں مثلاً:
1-رفع الملام عن الأئمة الأعلام لابن تيمية.
2-الإيقاف على سبب الاختلاف لأبي الحيات السندهي.
3-إعلام الموقعين لابن قيم.
(اس کتاب میں بھی جگہ جگہ اس مسئلہ پر تفصیل سے لکھا ہے).
اس کی عملی طور تطبیق دیکھنی ہو تو ابن قیم کی مشہور کتاب "مدارج السالكين في منازل السائرين" کا مطالعہ کر لینا چاہئے.
دراصل"منازل السائرين" فن تصوف میں امام ہروی[ت:481ھ] کی مشہور تصنیف ہے،ابن قیم [751ھ]نے "مدارج السالكين" کے نام سے اس کی مفصل شرح لکھی ہے،متن میں جہاں جہاں امام ابو اسماعيل عبداللہ بن محمد الھروی رحمۃ اللہ علیہ سے عقدی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں وہاں وہاں انہوں نے ان کے لئے عذر تلاش کئے ہیں اور جب یہ کسی طرح ممکن نہیں ہوسکا تو انہوں نے کھل ان کا رد کیا ہے.
تفصیل کے لئے دیکھو[مدارج السالكين في منازل السائرين 55-62/1 بتحقيق:محمد عزيز شمس والآخرين].
اب شدت کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے:
کچھ دن پہلے ہم جامعۃ الملک سعود اور جامعۃ الامام محمد بن سعود کے کچھ طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، سفر کے دوران ملک سعود کے دراسات علیا کے ایک طالب علم نے بہترین اور سریلی آواز میں ایک خوبصورت نعت پیش کی، اس میں ایک مصرعہ تھا:

"بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر"

جب نعت گو اس مصرعہ پر پہنچا تو اس قافلہ کے امیر یا مشرف-جو ریاض کے کسی دعوہ سنٹر میں نیپالی یا اردو زبان کے داعی ہیں- نے اسے روک اور ٹوک دیا اور دوبارہ اس مصرعہ کو پڑھنے کے لئے کہا، پھر انہوں نے اپنی رائی پیش کی اور کہا کہ یہ مصرعہ درست نہیں ہے!
جس پر اس طالب علم نے کہا کہ اس مصرعہ میں لفظ "خدا" کو چھوڑ کر کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے ہمارے عقیدہ پر ضرب پڑتی ہو.
کئی بچوں نے اس کی وضاحت کی، کئ بھائیوں کے اصرار پر مجھے بھی اپنا موقف پیش کرنے کو کہا گیا،میں نے قرآن مجید کی آیت:{ورفعنا لك ذكرك} - سے بات شروع کی، اور کہا کہ اس شعر میں شاعر کا مقصد اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان "مقابلہ اور مقارنہ" نہیں ہے، اگر ان کا مقصود یہ ہے تو بالکل غلط ہے.
ورنہ اس شعر کا واضح مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا درجہ اللہ سبحانہ وتعالی کے بعد ہے، آپ تمام نبیوں سے افضل ہیں، مخلوقات میں آپ سے بڑھ کر کوئی نہیں.
ایک دوسرے شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

"خدا کے بعد بس وہ ہیں
پھر اس کے بعد کیا کہیئے"

لیکن داعی صاحب اپنی بات پر مصر رہے اور بولا کہ مجھے تسلی نہیں ہوئی ہے میں فلاں شیخ کو مسیج کیا ہے ان کے جواب کا انتظار ہے.
لیکن دو دن کے بعد پھر ہم ساتھ ہی میں ریاض لوٹے لیکن انہوں نے نہ تو شیخ کا جواب پڑھ کر ہمیں سنایا اور نہ ہی اپنا موقف واضح کیا ہے!

No comments:

Post a Comment

جھوٹ ‏بولنے ‏والے ‏کا ‏منہ ‏کالا ‏ہو

اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین .......  ‏شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...