بعض علما ایسے گذرے ہیں اور شاید اب بھی ہونگے کہ وہ سفر میں کسی ایک خاص کتاب کو ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے.
1-جیسے امام غزالی[ت:505ھ] کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ہمیشہ سفر میں راغب اصفہانی[ت:502] کی تصنيف "کتاب الذريعة" کو اپنے ساتھ رکھتے تھے.
2-اسی طرح علامہ شنقیطی[ت:1393ھ]کے متعلق آتا ہے کہ وہ سفر میں امام شوکانی[ت:1250ھ] کی مایہ ناز کتاب "نیل الأوطار" کو اپنے ہمراہ رکھتے تھے.
3-میں اپنے بعض ایسے دوستوں کو جانتا ہوں جو ہمیشہ سفر میں اللہ تعالیٰ کی لازوال کتاب "قرآن مجید" کو اپنی جیب میں رکھتے ہیں.
Tuesday, April 23, 2019
کتاب اور سفر
Monday, April 15, 2019
ایک المیہ
[ایک المیہ]
.............
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
..................
.....................
ہمارے بر صغیر کے علما اور طلبہ کا ایک بڑا المیہ ہے کسی بھی عالم کے قول کے متعلق عذر تلاش نہ کرنا،جھٹ سے حکم صادر کر دینا، یہ ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے،جبکہ اس کے برخلاف ہمارے اسلاف ہمیشہ اپنے علما کی کسی ایسی بات جو اہل سنت کے عقیدہ کے خلاف معلوم ہوتی تو پہلے اس کے لئے عذر ڈھونڈتے، ان کے لئے بچاؤ کا راستہ تلاش کرتے لیکن جب یہ ممکن نہیں ہوتا تو پھر صراحت کے ساتھ ان کا رد فرماتے.
لیکن بر صغیر میں بالعموم اور اہل حدیثوں میں بالخصوص کیا چھوٹا کیا بڑا،کیا عالم کیا جاہل سب مفتی دوراں بنے بیٹھے ہیں، اور کسی بھی عالم یا طالب کی بات جو ظاہر میں(در حقیقت ہمارے علم کی کمی، قصور فہم یا پھر تعبیر میں لچک کی وجہ سے) عقیدہ کے مخالف لگتی ہے اس میں ان کے لئے عذر تلاش نہیں کرتے اور فوراً حکم صادر کر دیتے ہیں.
اس کے پیچھے علم میں گہرائی نہ ہونا ،جمود، تحجر اور تشدد ہے.
ہمارے بہت سارے علما نے اس موضوع پر کتابیں بھی لکھی ہیں مثلاً:
1-رفع الملام عن الأئمة الأعلام لابن تيمية.
2-الإيقاف على سبب الاختلاف لأبي الحيات السندهي.
3-إعلام الموقعين لابن قيم.
(اس کتاب میں بھی جگہ جگہ اس مسئلہ پر تفصیل سے لکھا ہے).
اس کی عملی طور تطبیق دیکھنی ہو تو ابن قیم کی مشہور کتاب "مدارج السالكين في منازل السائرين" کا مطالعہ کر لینا چاہئے.
دراصل"منازل السائرين" فن تصوف میں امام ہروی[ت:481ھ] کی مشہور تصنیف ہے،ابن قیم [751ھ]نے "مدارج السالكين" کے نام سے اس کی مفصل شرح لکھی ہے،متن میں جہاں جہاں امام ابو اسماعيل عبداللہ بن محمد الھروی رحمۃ اللہ علیہ سے عقدی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں وہاں وہاں انہوں نے ان کے لئے عذر تلاش کئے ہیں اور جب یہ کسی طرح ممکن نہیں ہوسکا تو انہوں نے کھل ان کا رد کیا ہے.
تفصیل کے لئے دیکھو[مدارج السالكين في منازل السائرين 55-62/1 بتحقيق:محمد عزيز شمس والآخرين].
اب شدت کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے:
کچھ دن پہلے ہم جامعۃ الملک سعود اور جامعۃ الامام محمد بن سعود کے کچھ طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، سفر کے دوران ملک سعود کے دراسات علیا کے ایک طالب علم نے بہترین اور سریلی آواز میں ایک خوبصورت نعت پیش کی، اس میں ایک مصرعہ تھا:
"بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر"
جب نعت گو اس مصرعہ پر پہنچا تو اس قافلہ کے امیر یا مشرف-جو ریاض کے کسی دعوہ سنٹر میں نیپالی یا اردو زبان کے داعی ہیں- نے اسے روک اور ٹوک دیا اور دوبارہ اس مصرعہ کو پڑھنے کے لئے کہا، پھر انہوں نے اپنی رائی پیش کی اور کہا کہ یہ مصرعہ درست نہیں ہے!
جس پر اس طالب علم نے کہا کہ اس مصرعہ میں لفظ "خدا" کو چھوڑ کر کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے ہمارے عقیدہ پر ضرب پڑتی ہو.
کئی بچوں نے اس کی وضاحت کی، کئ بھائیوں کے اصرار پر مجھے بھی اپنا موقف پیش کرنے کو کہا گیا،میں نے قرآن مجید کی آیت:{ورفعنا لك ذكرك} - سے بات شروع کی، اور کہا کہ اس شعر میں شاعر کا مقصد اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان "مقابلہ اور مقارنہ" نہیں ہے، اگر ان کا مقصود یہ ہے تو بالکل غلط ہے.
ورنہ اس شعر کا واضح مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا درجہ اللہ سبحانہ وتعالی کے بعد ہے، آپ تمام نبیوں سے افضل ہیں، مخلوقات میں آپ سے بڑھ کر کوئی نہیں.
ایک دوسرے شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
"خدا کے بعد بس وہ ہیں
پھر اس کے بعد کیا کہیئے"
لیکن داعی صاحب اپنی بات پر مصر رہے اور بولا کہ مجھے تسلی نہیں ہوئی ہے میں فلاں شیخ کو مسیج کیا ہے ان کے جواب کا انتظار ہے.
لیکن دو دن کے بعد پھر ہم ساتھ ہی میں ریاض لوٹے لیکن انہوں نے نہ تو شیخ کا جواب پڑھ کر ہمیں سنایا اور نہ ہی اپنا موقف واضح کیا ہے!
Sunday, April 14, 2019
[صحيح البخاري خط أحمر]
[ "صحیح البخاري" خط أحمر]
.........
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
.....
......
فرض کرو ایک ماہر انجنئیر ہے،جس نے اپنی ساری زندگی اسی فن کی طلب اور حصول میں کھپا دی ہے،اس نے اس کے لئے دنیا کی خاک چھانی ہے،دنیا کے قابل اور ماہر انجنئیروں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے،اس راستے میں اپنے سارے مال لٹا دیئے ہیں،اور وہ ذہین اور فطین بھی ہے،اس کی ذہانت وفطانت اور قوت حافظہ پر دنیا کے سارے انجنئیر انگشت بدنداں ہیں،سارے لوگ مل کر ان کا امتحان بھی لیتے ہیں اور وہ اس امتحان میں سوفیصد نمبر حاصل کرتا ہے، پھر دنیا کے سارے منجھے ہوئے انجنئیر ان کی قابلیت کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں.
اب وہ ماہر انجنئیر ایک مکان تعمیر کرتا ہے،اس کے لئے کڑی سے کڑی اور سخت سے سخت شرطیں رکھتا ہے،مثلاً اینٹ اور سمنٹ کے اندر یہ یہ خوبیاں ہوں،لوہا اس طرح کا ہو،بالو اس طرح کا ہو، پتھر اس صفت کا ہو، زمین جہاں یہ مکان بنے گا اس کے اندر یہ مواصفات پائے جاتے ہوں، جو مستری اس میں کام کریں گے اس کے اندر فلاں فلاں صفات پائی جاتی ہوں،اور اب وہ مکان کے لئے رات دن محنت کرتا ہے، ان کی پچیس سالوں کی سخت محنت اور جہد مسلسل سے وہ مکان تیار ہوتا ہے،اب وہ اس مضبوط اور محکم مکان کو دنیا کے ماہرین(مہندسین وانجنئروں) کے سامنے پیش کرتا ہے،سارے انجنئیر اس مکان میں کمی اور خامی کو ڈھونڈتے ہیں،ہر طرح سے اسے پرکھتے ہیں، لیکن مکان میں انہیں کوئی کمی نظر نہیں آتی، سارے انجنئیر ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں،سب اس ماہر انجنئیر کے آگے سر جھکا دیتے ہیں، اور تمام لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہوجاتا ہے کہ یہ دنیا کے سب سے مضبوط مکان ہے!
لیکن کچھ دن کے بعد ایک ایسا آدمی جو نہ تو انجنئیر ہے اور نہ ہی اس فن میں اس کو مہارت ہے، وہ اس مضبوط مکان کو دیکھنے کے بعد کہتا ہے"یہ کمزور مکان ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ یہ سب سے مضبوط مکان ہے میں ان کی بات کو نہیں مانتا، اس لئے کہ اس کو تعمیر کرنے والا انجنئیر معصوم نہیں ہے".
اب تم انصاف سے بتاؤ تم انجنئیروں کی بات کو تسلیم کروگے یا اس جاہل کی بات مانوگے؟ یقیناً کسی کو اس گنوار کی بات پر بھروسہ نہیں ہوگا، اس لئے کہ وہ اس میدان کا شہ سہوار نہیں ہے.
یہ تو دنیاوی معاملہ تھا اب تم امام بخاری کی سیرت کا مطالعہ کرو،جن کو دنیا کے ماہرین حدیث نے،نقادوں نے"أمير المؤمنين في الحديث" کا لقب سے نوازا ہے، جس نے علم حدیث کے حصول کے لیے سب کچھ قربان کر دیا تھا،آگے چل کر وہ ایک کتاب لکھتا ہے، جس میں وہ سخت سے سخت شرطیں رکھتا ہے،لمبی مدت کے بعد وہ کتاب منظر عام پر آتی ہے، جس کو لوگ"صحيح البخاري" کے نام سے جانتے ہیں،علمی دنیا میں جب یہ کتاب آتی ہے، اسے لیکر علمی حلقوں میں ہلچل اور کہرام مچ جاتا ہے، اسے پڑھ کر ماہرین حديث حیرت میں پڑ جاتے ہیں،ماہرین اس کو جانچتے ہیں، پرکھتے ہیں، اس فن کے اصولوں پر رکھتے ہیں، کتاب ان کے وضع کردہ معیار پر پورا اترتی ہے، جب ان کو اس میں کوئی جھول نظر نہیں آتا، کمی نظر نہیں آتی، تو سب یک زبان ہو کر چیخ اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں:
"أصح الكتب بعد القرآن صحيح البخاري".
اب صدیوں بعد ایک جاہل اٹھ کھڑا ہوتا ہے نہ تو وہ اس میدان کا کھلاڑی ہے اور نہ ہی وہ اس فن میں ماہر ہے،لیکن وہ کہتا ہے کہ:" بخاری کی ساری حدیثیں صحیح ہیں، میں اس کو نہیں مانتا اس لئے کہ امام بخاری معصوم نہیں تھے"
خدا را بتاؤ تم اس کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟تم اس اناڑی کی بات مانوگے یا امت کے ماہرین حدیث، حفاظ سنت رسول کی بات تسلیم کروگے؟.
مجھے یقین ہے اگر تمہارے اندر ذرہ برابر بھی دینی غیرت، حمیت اورر انصاف کا مادہ باقی ہے تو تم اس جاہل کی بات کو مسترد کردوگے ؛اس لئے کہ اللہ تعالٰی نے جس طرح اپنی کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اسی طرح سنت رسول کی حفاظت کی بھی ذمہ داری لی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:{إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون} -
جھوٹ بولنے والے کا منہ کالا ہو
اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین ....... شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...
-
[قرآن کریم میں وارد"فتیل"-"نقیر"-اور"قطمیر"کا معنی] کل شام کی بات ہے ایک بھائی نے مجھ سے"نقیر"...
-
صفة اليدين : [ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں،اللہ تعالی کی یہ ایک ذاتی صفت ہے ]: اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَان﴾[...
-
[تصنيف وتالیف کی اہمیت اور اس میں اہل علم کا منہج] : .............. 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین ............. 1 -اما...