Saturday, December 8, 2018

{ حسبك الله ومن اتبعك من المؤمنين} - كا معنی:

[181]
{حَسْبُكَ اللهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ المؤمنينَ} کا معنی:
................
..........
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
.....................
.....................
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :{يَاأيُّهَا النَبِيُّ حَسْبُكَ اللهُ ومن اتَّبَعَكَ مِنَ المؤمنينَ} [الأنفال :64]
...........
پہلے آیت کریمہ کا ترجمہ دیکھئے :
1-پہلا ترجمہ:(مولانا تقی عثمانی) :
"اے نبی! تمہارے لئے تو بس اللہ اور وہ مومن لوگ کافی ہیں جنہوں نے تمہاری پیروی کی".
آیت کریمہ کا یہی معنی مولانا احمد رضا خاں بریلوی،مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا طاہر القادری، مولانا عبدالماجد دریاآبادی،خالد سیف اللہ رحمانی وغیرہم نے بھی لکھا ہے.
2-دوسرا ترجمہ:(مولانا مودودی) :
"اے نبی! تمہارے لئے اور تمہارے پیرو اہل ایمان کے لئے تو بس اللہ کافی ہے".
یہی ترجمہ مولانا جالندھری،امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ،مولانا محمد جوناگڑھی،ڈاکٹر لقمان السلفی وغیرہم نے بھی کیا ہے.
وضاحت:
اس آیت کریمہ کی تفسیر ومعنی میں بہت سارے لوگوں نے زبردست ٹھوکر کھائی ہے،اور کہا ہے کہ: "اللہ تعالیٰ اور مومنین آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے کافی ہیں"(جیساکہ ابھی ترجمہ میں گذرا).
ایک صاحب نے اپنی تفسیر میں آیت کا پہلا ترجمہ لکھ کر اس کی تفسیر میں لکھا ہے:
"بعض لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ{ومن اتبعك} - کا عطف، {اللہ} - پر ماننے سے شرک کا پہلو پیدا ہوتا ہے، لیکن یہ خیال کلام کے سیاق و سباق پر غور نہ کرنے سے پیدا ہوتا ہے، ہم نے جو تاویل کی ہے وہ بالکل واضح، قرآن کے نظائر کے مطابق اور شرک کے ہر شائبہ سے پاک ہے".
ایک اور صاحب نے لکھا ہے:
" مرتبہ حقیقی میں صرف اللہ، اور درجہ ظاہری میں مومنین متبعین بھی".
میں کہتا ہوں یہ سب تاویلات باردہ ہیں،یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم نے اپنی متعدد کتابوں میں اس معنی کو باطل قرار دیا ہے،ابن قیم نے"زاد المعاد" کے اندر اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی متعدد کتابوں میں اس کا پر زور رد کیا ہے.
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب" الرد على الشاذلي ص/39"میں مذکورہ آیت کا درست معنی لکھ کر پھر اس مذکورہ غلط معنی کو لکھ کر اس کی پر زور تردید کی ہے،لکھتے ہیں:
"أي:حسبك وحسب من اتبعك من المؤمنين.
ومن ظن أن المعنى :أن الله ومن اتبعك حسبك، فقد غَلِط غلطاً عظيماً".
ابن تیمیہ نے اس پر تفصیل سے لکھا ہے دیکھو:
[منهاج السنة النبوية 201/7،ومجموع الفتاوى 293/1]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن قیم اور دوسرے مفسرین نے جو معنی لکھا ہے وہی معنی ومفہوم کتاب وسنت کے موافق اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شان کے مطابق ہے.
1-اس لئے کہ توکل ،تقوی، عبادت کی طرح "کفایت" بھی اللہ کے ساتھ خاص ہے،جہاں تک تائید کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی تائید کبھی خود کرتا ہے اور کبھی مومنوں کے ذریعہ کراتا ہے، اسی لئے اس آیت سے پہلے آیت نمبر(62)میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:{وإن يريدوا أن يخدعوك فإن حسبك الله} -
یعنی اگر ان کا ارادہ یہ ہے کہ تجھے دھوکا دیں تو (کوئی اندیشہ کی بات نہیں) اللہ تعالیٰ کی ذات تیرے لئے کافی ہے.
اس کے بعد فرمایا:{هو الذي أيدك بنصره بالمؤمنين} - یعنی اللہ نے اپنی مددگاری سے آپ کی تائید خود بھی کی اور مومنوں کی جماعت سے بھی تیری تائید کرائی.
2-دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ کے جن اہل توحید اور اہل توکل بندوں نے صرف اللہ کو اپنے لئے کافی مانا، اللہ نے سورہ آل عمران کی آیت (173)میں ان کی تعریف کی، اور فرمایا وہ لوگ جن سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کر لئے ہیں تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے ان کا ایمان بڑھا دیا اور کہنے لگے:" ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کار ساز ہے".
اللہ کے ان نیک بندوں نے "حسبنا الله ورسوله" یعنی "اللہ اور اس کا رسول ہمارے لئے کافی ہے" نہیں کہا، بلکہ یہ کہا:{حسبنا الله} - کہ صرف ہمارے لئے اللہ کافی ہے.
چنانچہ ابراهيم علیہ السلام نے آگ میں پھینکے جانے کے وقت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ نے احد کے بعد کفار کے جمع ہوکر دوبارہ حملہ آور ہونے کے موقع پر{حسبنا الله ونعم الوكيل} - کہا، [دیکھو:صحیح البخاری، التفسير، سورہ آل عمران :4563].
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ اور میرے ساتھی کافی ہیں.
خود اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا :{فإن تولوا فقل حسبي الله لا إله إلا هو عليه توكلت وهو رب العرش العظيم} - [التوبة:129]
بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{إن ينصركم الله فلا غالب لكم وإن يخذلكم فمن ذا الذي ينصركم من بعده} [آل عمران :160].
3- اس آیت سے پہلے فرمایا تھا کہ اللہ تعالٰی آپ کو کافی ہے، اس سے شاید کوئی خیال کرتا کہ اللہ تعالٰی کی تائید صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خاص ہے،اس لئے یہاں دوبارہ اس جملے کو لا کر نبی کے ساتھ مومنین کا بھی اضافہ کردیا کہ اللہ تعالٰی آپ کو اور آپ کی پیروی کرنے والے تمام مومنوں کو کافی ہے.
4-پورے قرآن وحدیث میں صرف اللہ تعالیٰ ہی پر توکل کرنے اور اسی کو کافی سمجھنے کا حکم دیا گیا ہے، قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر صرف اللہ تعالیٰ پر توکل کا حکم ہے.
5-مخلوق تو خود اپنے لئے کافی نہیں، وہ دوسروں کو کیا کفایت کرے گی، ولله در من قال:
سنبھلتا نہیں جن سے اپنا دو پٹا
سنبھالیں گے کیا وہ کلیجہ کسی کا.
6-{ومن اتبعك} - میں "واؤ" کا عطف {حسبك} - کے"کاف" - پر ہے ،یعنی اللہ تعالیٰ تجھے اور تیرے پیچھے چلنے والے مومنوں کو کافی ہے.
یہ" واؤ"بمعنی"مع"بھی ہوسکتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو مع آپ کے ساتھیوں کے سب کو کافی ہے.
7-صوفیوں،شیعوں اور بعض اہل سنت کے لوگوں نے اس"واؤ"کا عطف لفظ{ الله}-پر ڈالا ہے، اس صورت میں ترجمہ ہوگا کہ" تجھے اللہ کافی ہے اور وہ مومن کافی ہیں جو تیرے پیروکار ہیں" .
مگر یہ عطف اور ترجمہ سراسر غلط ہے جیسا کہ اوپر اس کی تفصیل گذر چکی ہے.
8-امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے:
"اے پیغمبر! اللہ تیرے لئے کفایت کرتا ہے اور ان مومنوں کو بھی جو تیرے پیچھے چلنے والے ہیں".
پھر حاشیہ میں لکھا ہے:
"اس آیت کا صحیح ترجمہ یہی ہے اگرچہ بصرہ کے ائمہ نحو اس کے خلاف گئے ہیں، وما كان سيبويه نبي النحو ولا معصوما" [دیکھو :ترجمان القرآن 118/2]
کیا قیمتی بات لکھ گئے ہیں، جزاہ اللہ عنا خير الجزاء
9-آیت کریمہ میں وارد لفظ"الحسب" کے معنی ہیں"الكافي"،پس اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی ہے، جیساکہ دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{أليس الله بكاف عبده} [الزمر:36]-
یہاں اس آیت کریمہ میں اس بات کو نہایت قوت اور زور سے بیان کرنے کے لئے اسے سوالیہ انداز میں بیان فرمایا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟ یقیناً وہ اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے اور اپنے ہر بندے کے لئے کافی ہے.
10-پریشانی اور مشکلات کے وقت"حسبي الله/حسبنا الله" اور"الله حسبي" کہنا سنت ہے،اور یہ کتاب وسنت سے ثابت ہے.
لیکن"حسبي من سؤالي علمه بحالي" یہ الفاظ کسی معروف سند سے ثابت نہیں.
تفصیل کے لئے دیکھو[الرد على الشاذلي لشيخ الإسلام ابن تيمية ص/38-43]
امام بغوی نے اپنی تفسیر"معالم التنزيل" میں صیغۂ تمریض کے ساتھ اس کو ذکر کیا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے "مجموع الفتاوى" کے اندر اسے باطل قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ اس کی نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کرنا سرار غلط ہے.
ابن عراق [تنزيه الشريعة 250/1]کے اندر اسے "موضوع" قرار دیا ہے، تفصیل کے لئے دیکھو:(كشف الخفاء 427-428/1،السلسة الضعيفة، رقم الحدیث:21]

No comments:

Post a Comment

جھوٹ ‏بولنے ‏والے ‏کا ‏منہ ‏کالا ‏ہو

اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین .......  ‏شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...