Saturday, December 29, 2018

الإيقاف على سبب الاختلاف

علامہ محمد حیات سندھی 1163ھ کی ایک مفید تصنیف: [الإيقاف على سبب الاختلاف]
...........
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
..............
محمد حیات سندھی جہاں بہت بڑے استاذ حدیث تھے، وہاں متعدد علمی اور تحقیقی کتابوں کے مصنف بھی تھے،ان کی تصانیف سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے دور کے نامور محدث، جلیل القدر فقیہ، عظیم محقق اور عالی دماغ عالم تھے.
شیخ محمد حیات سندھی کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ عقیدے کے بارے میں نہایت سخت تھے، یا نرم الفاظ میں یوں کہیے کہ بہت محتاط تھے، وہ اس بات کا بہ درجہ غایت اہتمام فرماتے کہ کوئی امر خلاف سنت نہ ہو، جس سے عقیدے کے مجروح ہونے کا خطرہ پیدا ہوجائے، یہاں دو مثالیں پیش کرتا ہوں:
1-اس سلسلے کا ایک واقعہ ان کے تلمیذ رشید میر سید غلام علی آزاد بلگرامی نے بیان کیا ہے، جو خود انہی کی ذات سے تعلق رکھتا ہے، اس واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ"غلام علی" وغیرہ قسم کے ناموں کو بھی خلاف شرع قرار دیتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اس قسم کی اضافت صرف اللہ کی طرف ہونی چاہئے، چنانچہ انہوں نے خود اپنے شاگرد کے نام "غلام علی" کو محل اعتراض ٹھہرایا.
تفصیل کے لئے دیکھئے[مآثر الکرام (فارسی) اور سبحة المرجان(عربی)]
2-اس ضمن دوسرا واقعہ قابل ذکر ہے، اور وہ یہ ہے کہ جس زمانے میں میں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوهاب مدینہ میں شیخ محمد حیات سندھی کے حلقہ درس میں شریک تھے، انہوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرۂ مبارک پر کھڑے دعا واستغاثہ میں مشغول ہیں اور کئی قسم کی بدعات کے مرتکب ہو رہے ہیں، ادھر سے شیخ محمد حیات سندھی بھی تشریف لے آئے، شیخ محمد بن عبدالوهاب انہیں دیکھ کر احترام بجا لائے، استاد کے خیر مقدم کے لئے آگے بڑھے اور سوال کیا کہ ان لوگوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ شیخ نے جواب میں یہ آیت پڑھی:
{ إن هؤلاء متبر ما هم فيه وباطل ما كانوا يعملون} - [الأعراف :139]
"یہ لوگ جس (شغل) میں (پھنسے ہوئے) ہیں، وہ برباد ہونے والا ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں، سب بے سود ہے".
الإيقاف على سبب الاختلاف:
شیخ کی یہ معروف تصنیف ہے،یہ ایک رسالہ ہے جو "تقلید اور عمل بالحديث" کے اہم موضوع پر مشتمل ہے، اس میں فاضل مصنف نے یہ صراحت کی ہے کہ صحابہ کرام، تابعین عظام، ائمہ مجتہدین اور ان کے تلامذہ عالی مقام کے درمیان فقہی نوعیت کے اختلافات کیوں کر ابھرے، ان اختلافات کی اصل حقیقت کیا ہے اور کن وجوہ واسباب کی بنا پر بعض مسائل میں وہ مختلف الرائے ہوئے، نیز اس رسالے میں انہوں نے صحابہ کرام کے طریق استدلال، اسلوب استنباط اور تخریج مسائل کی بھی وضاحت کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ ہمیشہ کتاب وسنت ہی کو مدار عمل ٹھہراتے تھے، اگر انہیں اپنے قول وعمل کے خلاف کوئی حدیث پہنچ جاتی تو اسی وقت رجوع فرما لیتے.
یہ رسالہ اپنے موضوع میں نہایت عمدہ علمی مباحث پر محیط ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ شیخ محمد حیات سندھی تقلید کے قائل نہیں تھے، بلکہ براہ راست کتاب وسنت کو بنیاد عمل قرار دیتے تھے،اور اس کی روشنی میں اجتہاد کو صحیح قرار دیتے تھے.
اس کتاب کے متعلق پہلے سے جانکاری حاصل تھی لیکن گذشتہ رات کو کتاب نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھا، کتاب بہت مفید ہے.
اس سے پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا مشہور رسالہ"رفع الملام عن أئمة الأعلام" پڑھ چکا تھا،اس میں بھی امام نے تفصیل اور جامعیت سے اس موضوع پر بحث کی ہے.
ان کے تلمیذ رشید حافظ ابن قیم نے بھی اپنی مشہور تصنیف "إعلام الموقعين" میں اس اہم موضوع کی عمدہ انداز سے وضاحت کی ہے.
شیخ محمد حیات سندھی نے"الإيقاف على سبب الاختلاف میں ان دونوں بزرگوں سے استفادہ کیا ہے.
شیخ محمد حیات سندھی کے ہم عصر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی اپنی کتاب" الإنصاف في بيان سبب الاختلاف"میں اس موضوع پر گفتگو کی ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ نہایت عمدگی سے اس کے متعلقہ پہلوؤں کو واضح کیا ہے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے "حجة الله البالغة" کے المبحث السابع میں بھی اس پر مدلل اور مبرہن بحث فرمائی ہے، اہل علم کے لئے اس موضوع سے متعلق ان تمام کتابوں اور بحثوں کا مطالعہ دلچسپی اور اضافہ معلومات کا باعث ہوگا.

Thursday, December 20, 2018

ابن حزم الظاهري

میں جن علما سے متاثر ہوں ان میں سے ایک امام ابن حزم ظاہری اندلسی رحمہ اللہ[ت:456ھ] بھی ہیں،اس نے اپنی کتاب "المحلی"کے اندر امام اہل سنت احمد بن حنبل کے علاوہ کسی کو نہیں بخشا،بہت زبان دراز(سلیط اللسان) تھے،ان کے بارے میں مشہور ہے:"كان لسان ابن حزم وسيف الحجاج شقيقين".
اس کا سبب یہ کہ ہے، اندلس کے مقلدین نے ان کو خوب ستایا تھا،ان کی کتابوں کو جلا دیا تھا،ان کو ہر طرح سے ایذا پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی.
خیر ابن حزم رحمہ اللہ بھی انسان تھے ان سے بھی چوک ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں اور خشونتوں کو درگذر فرمائے.
جب میں ان کی مشہور کتاب" الفصل في الملل والنحل" کا دراسہ کر رہا تھا، تو مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ جناب"اسما وصفات" کے باب میں راہ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں،اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ اسمائے الہی، صفات الہی پر دلالت نہیں کرتے.
اس مسئلہ کی طرف شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی بعض کتابوں میں اشارہ بھی کیا ہے جیسے" مقدمہ اصول تفسیر" اور "منہاج السنہ النبویہ".
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے "منہاج السنۃ النبویۃ"میں اس پر تفصیل سے لیکن معقول اور سنجیدہ رد کرتے ہوئے ان کی طرف سے عذر بھی بیان کیا ہے، چنانچہ "منہاج السنہ النبویہ" میں رقمطراز ہیں:
"فإنه من نفاة الصفات مع تعظيمه للحديث والإمام أحمد وغلطه في ذلك بسبب أنه أخذ شيئاً من أقوال الفلاسفة والمعتزلة عن بعض شيوخه.... "
" ابن حزم صفات باری تعالیٰ کی نفی کرنے والوں میں سے ہیں، حالانکہ حدیث وسنت اور امام احمد کی بڑی عظمت کرتے ہیں،ان کی اس غلطی کا باعث یہ ہے کہ اپنے بعض اساتذہ سے یونانی فلاسفہ اور معتزلہ کے اقوال ان کو ملے، جن سے وہ متاثر ہوگئے،... ".
عبداللہ بن محمد بن خضر الزہرانی نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتابوں سے ابن حزم کے عقائد کو جمع کر کے اس پر دراسہ کیا ہے بہت ہی دلچسپ کتاب ہے جو" آراء ابن حزم الاعتقادية من خلال مؤلفات شيخ الإسلام ابن تيمية"کے نام سے بازار میں دستیاب ہے.
ابن حزم رحمہ اللہ چار اماموں میں امام احمد کی بڑی تعظیم کرتے تھے، انہوں نے" المحلی"کے اندر کہیں بھی امام احمد پر کلام نہیں کیا ہے، علما اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ امام احمد ان کے نزدیک فقیہ نہیں محدث تھے!

Saturday, December 8, 2018

{ حسبك الله ومن اتبعك من المؤمنين} - كا معنی:

[181]
{حَسْبُكَ اللهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ المؤمنينَ} کا معنی:
................
..........
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
.....................
.....................
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :{يَاأيُّهَا النَبِيُّ حَسْبُكَ اللهُ ومن اتَّبَعَكَ مِنَ المؤمنينَ} [الأنفال :64]
...........
پہلے آیت کریمہ کا ترجمہ دیکھئے :
1-پہلا ترجمہ:(مولانا تقی عثمانی) :
"اے نبی! تمہارے لئے تو بس اللہ اور وہ مومن لوگ کافی ہیں جنہوں نے تمہاری پیروی کی".
آیت کریمہ کا یہی معنی مولانا احمد رضا خاں بریلوی،مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا طاہر القادری، مولانا عبدالماجد دریاآبادی،خالد سیف اللہ رحمانی وغیرہم نے بھی لکھا ہے.
2-دوسرا ترجمہ:(مولانا مودودی) :
"اے نبی! تمہارے لئے اور تمہارے پیرو اہل ایمان کے لئے تو بس اللہ کافی ہے".
یہی ترجمہ مولانا جالندھری،امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ،مولانا محمد جوناگڑھی،ڈاکٹر لقمان السلفی وغیرہم نے بھی کیا ہے.
وضاحت:
اس آیت کریمہ کی تفسیر ومعنی میں بہت سارے لوگوں نے زبردست ٹھوکر کھائی ہے،اور کہا ہے کہ: "اللہ تعالیٰ اور مومنین آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے کافی ہیں"(جیساکہ ابھی ترجمہ میں گذرا).
ایک صاحب نے اپنی تفسیر میں آیت کا پہلا ترجمہ لکھ کر اس کی تفسیر میں لکھا ہے:
"بعض لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ{ومن اتبعك} - کا عطف، {اللہ} - پر ماننے سے شرک کا پہلو پیدا ہوتا ہے، لیکن یہ خیال کلام کے سیاق و سباق پر غور نہ کرنے سے پیدا ہوتا ہے، ہم نے جو تاویل کی ہے وہ بالکل واضح، قرآن کے نظائر کے مطابق اور شرک کے ہر شائبہ سے پاک ہے".
ایک اور صاحب نے لکھا ہے:
" مرتبہ حقیقی میں صرف اللہ، اور درجہ ظاہری میں مومنین متبعین بھی".
میں کہتا ہوں یہ سب تاویلات باردہ ہیں،یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم نے اپنی متعدد کتابوں میں اس معنی کو باطل قرار دیا ہے،ابن قیم نے"زاد المعاد" کے اندر اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی متعدد کتابوں میں اس کا پر زور رد کیا ہے.
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب" الرد على الشاذلي ص/39"میں مذکورہ آیت کا درست معنی لکھ کر پھر اس مذکورہ غلط معنی کو لکھ کر اس کی پر زور تردید کی ہے،لکھتے ہیں:
"أي:حسبك وحسب من اتبعك من المؤمنين.
ومن ظن أن المعنى :أن الله ومن اتبعك حسبك، فقد غَلِط غلطاً عظيماً".
ابن تیمیہ نے اس پر تفصیل سے لکھا ہے دیکھو:
[منهاج السنة النبوية 201/7،ومجموع الفتاوى 293/1]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن قیم اور دوسرے مفسرین نے جو معنی لکھا ہے وہی معنی ومفہوم کتاب وسنت کے موافق اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شان کے مطابق ہے.
1-اس لئے کہ توکل ،تقوی، عبادت کی طرح "کفایت" بھی اللہ کے ساتھ خاص ہے،جہاں تک تائید کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی تائید کبھی خود کرتا ہے اور کبھی مومنوں کے ذریعہ کراتا ہے، اسی لئے اس آیت سے پہلے آیت نمبر(62)میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:{وإن يريدوا أن يخدعوك فإن حسبك الله} -
یعنی اگر ان کا ارادہ یہ ہے کہ تجھے دھوکا دیں تو (کوئی اندیشہ کی بات نہیں) اللہ تعالیٰ کی ذات تیرے لئے کافی ہے.
اس کے بعد فرمایا:{هو الذي أيدك بنصره بالمؤمنين} - یعنی اللہ نے اپنی مددگاری سے آپ کی تائید خود بھی کی اور مومنوں کی جماعت سے بھی تیری تائید کرائی.
2-دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ کے جن اہل توحید اور اہل توکل بندوں نے صرف اللہ کو اپنے لئے کافی مانا، اللہ نے سورہ آل عمران کی آیت (173)میں ان کی تعریف کی، اور فرمایا وہ لوگ جن سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کر لئے ہیں تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے ان کا ایمان بڑھا دیا اور کہنے لگے:" ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کار ساز ہے".
اللہ کے ان نیک بندوں نے "حسبنا الله ورسوله" یعنی "اللہ اور اس کا رسول ہمارے لئے کافی ہے" نہیں کہا، بلکہ یہ کہا:{حسبنا الله} - کہ صرف ہمارے لئے اللہ کافی ہے.
چنانچہ ابراهيم علیہ السلام نے آگ میں پھینکے جانے کے وقت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ نے احد کے بعد کفار کے جمع ہوکر دوبارہ حملہ آور ہونے کے موقع پر{حسبنا الله ونعم الوكيل} - کہا، [دیکھو:صحیح البخاری، التفسير، سورہ آل عمران :4563].
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ اور میرے ساتھی کافی ہیں.
خود اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا :{فإن تولوا فقل حسبي الله لا إله إلا هو عليه توكلت وهو رب العرش العظيم} - [التوبة:129]
بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{إن ينصركم الله فلا غالب لكم وإن يخذلكم فمن ذا الذي ينصركم من بعده} [آل عمران :160].
3- اس آیت سے پہلے فرمایا تھا کہ اللہ تعالٰی آپ کو کافی ہے، اس سے شاید کوئی خیال کرتا کہ اللہ تعالٰی کی تائید صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خاص ہے،اس لئے یہاں دوبارہ اس جملے کو لا کر نبی کے ساتھ مومنین کا بھی اضافہ کردیا کہ اللہ تعالٰی آپ کو اور آپ کی پیروی کرنے والے تمام مومنوں کو کافی ہے.
4-پورے قرآن وحدیث میں صرف اللہ تعالیٰ ہی پر توکل کرنے اور اسی کو کافی سمجھنے کا حکم دیا گیا ہے، قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر صرف اللہ تعالیٰ پر توکل کا حکم ہے.
5-مخلوق تو خود اپنے لئے کافی نہیں، وہ دوسروں کو کیا کفایت کرے گی، ولله در من قال:
سنبھلتا نہیں جن سے اپنا دو پٹا
سنبھالیں گے کیا وہ کلیجہ کسی کا.
6-{ومن اتبعك} - میں "واؤ" کا عطف {حسبك} - کے"کاف" - پر ہے ،یعنی اللہ تعالیٰ تجھے اور تیرے پیچھے چلنے والے مومنوں کو کافی ہے.
یہ" واؤ"بمعنی"مع"بھی ہوسکتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو مع آپ کے ساتھیوں کے سب کو کافی ہے.
7-صوفیوں،شیعوں اور بعض اہل سنت کے لوگوں نے اس"واؤ"کا عطف لفظ{ الله}-پر ڈالا ہے، اس صورت میں ترجمہ ہوگا کہ" تجھے اللہ کافی ہے اور وہ مومن کافی ہیں جو تیرے پیروکار ہیں" .
مگر یہ عطف اور ترجمہ سراسر غلط ہے جیسا کہ اوپر اس کی تفصیل گذر چکی ہے.
8-امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے:
"اے پیغمبر! اللہ تیرے لئے کفایت کرتا ہے اور ان مومنوں کو بھی جو تیرے پیچھے چلنے والے ہیں".
پھر حاشیہ میں لکھا ہے:
"اس آیت کا صحیح ترجمہ یہی ہے اگرچہ بصرہ کے ائمہ نحو اس کے خلاف گئے ہیں، وما كان سيبويه نبي النحو ولا معصوما" [دیکھو :ترجمان القرآن 118/2]
کیا قیمتی بات لکھ گئے ہیں، جزاہ اللہ عنا خير الجزاء
9-آیت کریمہ میں وارد لفظ"الحسب" کے معنی ہیں"الكافي"،پس اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی ہے، جیساکہ دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{أليس الله بكاف عبده} [الزمر:36]-
یہاں اس آیت کریمہ میں اس بات کو نہایت قوت اور زور سے بیان کرنے کے لئے اسے سوالیہ انداز میں بیان فرمایا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟ یقیناً وہ اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے اور اپنے ہر بندے کے لئے کافی ہے.
10-پریشانی اور مشکلات کے وقت"حسبي الله/حسبنا الله" اور"الله حسبي" کہنا سنت ہے،اور یہ کتاب وسنت سے ثابت ہے.
لیکن"حسبي من سؤالي علمه بحالي" یہ الفاظ کسی معروف سند سے ثابت نہیں.
تفصیل کے لئے دیکھو[الرد على الشاذلي لشيخ الإسلام ابن تيمية ص/38-43]
امام بغوی نے اپنی تفسیر"معالم التنزيل" میں صیغۂ تمریض کے ساتھ اس کو ذکر کیا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے "مجموع الفتاوى" کے اندر اسے باطل قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ اس کی نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کرنا سرار غلط ہے.
ابن عراق [تنزيه الشريعة 250/1]کے اندر اسے "موضوع" قرار دیا ہے، تفصیل کے لئے دیکھو:(كشف الخفاء 427-428/1،السلسة الضعيفة، رقم الحدیث:21]

الريحان کا معنی

[ 180]
{الرَّيْحَان}-کا معنی:
........
............
📝ابوتقی الدين ضیاء الحق سیف الدین
...............
سورہ رحمن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{وَالحَبُّ ذُوالعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ} [الرحمن:12]
.............
آیت کریمہ کا ترجمہ دیکھئے:
1-پہلا ترجمہ:(مولانا مودودی) :
"طرح طرح کے غلے ہیں جن میں بھوسا بھی ہوتا ہے اور دانہ بھی".
یعنی مولانا مودودی کے نزدیک{الريحان} - کا معنی "دانہ" ہے.
2-دوسرا ترجمہ:(اکثر لوگوں نے لکھا ہے) :
"اور دانے جو بھس والے ہیں اور خوشبو دار پھول".
یعنی ان لوگوں کے نزدیک{الريحان} - کا معنی "خوشبو دار پھول"کے ہیں.
3-تیسرا ترجمہ:(مولانا عبد الماجد دریاآبادی) :
"اور (اس میں) غلہ بھی بھوسہ والا( اور) غذا کی چیز بھی".
یعنی مولانا دریاآبادی نے{الريحان} - كا معنی"غذا کی چیز" لکھا ہے.
4-چوتھا ترجمہ:(تفسیر جلالین) :
اس میں {الريحان} کا معنی لکھا ہے" الورق المشموم" یعنی"خوشبو دار پتے".
وضاحت:
آج ہم کچھ نہیں لکھیں گے بلکہ قارئین کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ کمنٹ باکس میں لکھیں کہ یہاں آیت کریمہ میں وارد لفظ {الريحان} - کے مذکورہ معانی میں سے کونسا معنی موزوں اور مناسب ہے، تا کہ وہ اپنے کو پرکھ سکے وہ قرآن کو کتنا سمجھ کر پڑھتے ہیں.
بس آپ لوگوں کی آسانی کے لئے اتنا لکھ دیتا ہوں کہ:
1-یہ لفظ قرآن مجید میں دو جگہوں میں آیا ہے ایک سورہ رحمن میں اور دوسری جگہ سورہ واقعہ میں.
2-{الريحان} كا لفظ"روح"سے مشتق ہے،"ریحان"- "فعلان" کے وزن پر ہے،اصل میں"رویحان" بروزن "فعیلان" تھا، "واؤ" کو "یاء" سے بدل کر "یاء" کو "یاء" میں ادغام کردیا، پھر "یاء" کی تخفیف کردی، بعض اہل لغت کے نزدیک "ریحان" کی اصل"روحان" تھی،"واؤ"کو تخفیفا "یاء" سے بدل دیا گیا.
3-میں جہاں رہتا ہوں یہاں" تلسی" کے پتوں پر"الریحان" کا اطلاق ہوتا ہے، اس کو "الحبق" بھی کہتے ہیں.

جھوٹ ‏بولنے ‏والے ‏کا ‏منہ ‏کالا ‏ہو

اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین .......  ‏شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...