Saturday, April 28, 2018

الأغاني لأبي الفرج الأصفهاني

[کتاب الأغاني لأبي الفرج الأصفهاني]

..............

ابوالفرج علی بن حسین الاصفہانی[ت:356ھ]کی کتاب"الأغاني"عربی ادب کا لافانی شاہکار ہے'یہ تصنیف ان کی پچاس سالوں کی محنتوں کا نتیجہ ہے اس کتاب میں شعر ونغمہ کی ان مجلسوں کا تذکرہ ہے جو عباسی خلفا کے محل میں ہوتی تھیں۔لیکن جو شخص بھی بنظر غائر اس کتاب کا مطالعہ کرے گا اسے بے شمار منکر چیزیں نظر آئیں گی۔توحید الوہیت'توحید ربوبیت'توحید اسما وصفات'ایمان بالیوم الآخر'ایمان بالرسل'حلال وحرام اور الاستھزا بالدین جیسے سنگین مسائل میں ان کی لن ترانیاں آپ کو پڑھنے کو ملیں گی۔امام ذہبی نے"السیر"میں"ابوالفرج اصفہانی"کے متعلق لکھا ہے:"والعجب أنه أموي شيعي"-"تعجب کی بات ہے یہ شخص اموی ہونے کے باوجود شیعہ ہے".

کتاب الاغانی پر پی ایچ ڈی:

جامعہ امیرہ نورہ کی ایک طالبہ نے"المخالفات العقدية في كتاب الأغاني"کے نام سے رسالہ لکھ کر پی.ایچ.ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔

Wednesday, April 25, 2018

امام بخاری کی فقاہت اور ان کا نرالا انداز استدلال

امام بخاری کی فقاہت  اور ان کا عجیب انداز استدلال:

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے اندر"کتاب التوحید"کے ضمن میں ایک باب باندھا ہے۔"بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:﴿وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا بَصِيرًا﴾"-اس کے تحت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یہ مشہور حدیث  لائی ہے:
«أَنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يَا رَسُولَ اللَّهِ،عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلاَتِي،قَالَ:«قُلِ اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ،فَاغْفِرْ لِي مِنْ عِنْدِكَ مَغْفِرَةً إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ»-"حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:اے اللہ کے رسول ! مجھے ایک ایسی دعا سکھائے دیجئے جو میں نماز میں اسے پڑھا کروں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دعا پڑھا کرو۔اے اللہ ! میں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیا ہے۔اور تیرے سوا کوئی اور گناہ کو نہیں بخشتا،پس میرے گناہ تو اپنے پاس سے بخش دے،بلاشبہ تو بڑا  بخشنے والا،بڑا رحم کرنے والا ہے"۔
شراحِ حدیث پریشان ہیں اور کہتے ہیں کہ:"اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے بہت مشکل ہے"۔
لیکن میں کہتا ہوں اکابر علما وفضلا اور اساطین علم وفن نے امام بخاری کو ایسے ہی"امیر المومنین"کا لقب نہیں دیدیا ہے۔جب تم گیرائی اور گہرائی میں جاوگے تو تم امام بخاری کی فقاہت اور باریکی فہم پر اچھل پڑوگے اور منہ سے نکل جائے گا سبحان اللہ! دراصل امام بخاری نے"بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:﴿وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا بَصِيرًا﴾"کے ضمن میں اس حدیث کو لاکر یہ کہنا چاہا ہےکہ اللہ کوپکارنا اور اس سے دعا کرنا ہے۔دعا کرنا اور پکارنا اسی وقت فائدہ دے گا جب وہ سنتا اور دیکھتا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ دعا مانگنے کا حکم دیا جس سے معلوم ہوا کہ وہ سنتا اور دیکھتا ہے۔
"سننا"اور"دیکھنا" یہ صفاتِ کمال میں سے ہے جو سنتا،دیکھتا اور بولتا نہیں وہ معبود نہیں ہوسکتا جیسا کہ اللہ تعالی نے خود کہا ہے:﴿إِذْ قَالَ لأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ وَلا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئاً﴾[مريم: 42]- "ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان! آپ ان کی پوجا پاٹ کیوں کررہے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں؟نہ آپ کو کچھ بھی فائدہ پہنچا سکیں
بنی اسرائیل نے جب گوسلہ پرستی شروع کی تواللہ نے فرمایا:﴿وّاتَّخَذَ قَومٌ مُّوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِم عِجْلاً جَسَداً لَهُ خُوَارٌ أَلَمْ يَرَوا أَنَّهُ لاَ يُكَلِّمُهُم وَلاَ يَهْدِيهُم سَبِيلاً اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ﴾[سورة الأعراف: 148]
حقیقی معبود تو اللہ ہے۔جو نہ سوتا ہے اور نہ ہی اسے اونگھ آتی ہے۔وہ کلام بھی فرماتا ہے اور ہزاروں کروڑوں لوگوں کی مختلف زبانوں کو بیک وقت سن بھی سکتا ہے اور اسے دیکھ بھی رہا ہے:﴿اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ﴾[البقرة: 255]﴿وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيماً﴾[النساء:164]﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ﴾[الشورى:11]

Saturday, April 21, 2018

توحید کے اثرات

انسانی زندگی پر توحید کے اثرات:
سورۂ نور میں اللہ تعالی کا ارشادہے:﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وليبدلنهم من بعد خوفهِم أمنا يَعبُدونَني وَلَا يشركُونَ بِي شَيْئا﴾-"تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالی وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین مین خلیفہ بنائےگا جیسے ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا۔جو ان سے پہلے تھے،اور یقینا ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دیگا جسے ان کے کئے پسند فرما چکا ہے۔اور ان کے اس خوف وخطر کو وہ امن وامان سے بدل دیگا۔وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے"[النور:55]
آیت کا خلاصہ:
 -اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ مومنوں کو ضرور زمین میں خلیفہ بنائےگا۔
-دین اسلام کو دیگر مذاہب پر غلبہ عطا فرمائےگا۔                         
-خوف وخطر کو امن وامان میں بدل دے گا۔       
دوسرے مقام پر ارشاد ہے:﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الأمْن﴾-"جو لوگ ایمان رکھتے ہین اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ خلط ملط نہیں کرتے'ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر چل رہے ہیں"[الأنعام:82]۔  
آیت کا خلاصہ:  
-آیت میں یہاں﴿ بِظُلْمٍ ﴾سے مراد شرک ہے۔
-توحید پرست کے لئے دنیا اور آخرت میں"امن"ہے؛اس لئے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں اور امن کے زیادہ یہی مستحق ہیں۔جیساکہ ارشاد ہے:﴿وَكَيف أَخَاف مَا أشركتم وَلَا تخافون أَنكُمْ أشركتم بِاللَّه مَا لم ينزل بِهِ عَلَيْكُم سُلْطَانا فَأَي الْفَرِيقَيْنِ أَحَق بالأمن إِن كُنْتُم تعلمُونَ﴾-"اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالی نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی،سو ان دو جماعتوں میں سے امن کا کا زیادہ مستحق کون ہے اگر تم خبر رکھتے ہو"۔[الأنعام:81]
امن وامان کی اہمیت:
 مذکورہ آیات میں"امن"کا ذکر آیا ہے'اس لئے کہ یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔اس کا اندازہ ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا ﴿رب اجْعَل هَذَا الْبَلَد آمنا واجنبني وَبني أَن نعْبد الْأَصْنَام﴾-"اے میرے پروردگا!  تو شہرِ مکہ کو امن والا بنادے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے"۔[الإبراهيم:35]
سے لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے دیگر دعاؤں(اس دعا کے بعد بھی کئی چیزیں انہونے اللہ سے مانگی ہے)سے قبل یہ دعا کی کہ"مکہ کو امن والا شہر بنادے"اس لئے کہ امن ہوگا  تو لوگ دوسری نعمتوں سے بھی صحیح معنوں میں متمتع ہوسکیں گے'ورنہ امن وسکون کے بغیر تمام آسائشوں اور سہولتوں کے باوجود 'خوف اور دہشت کے سائے انسان کو مضطرب اور پریشان رکھتے ہیں'جیسے آج کل کے عام معاشروں کا حال ہے۔گذشتہ آیات میں اللہ نے جو وعدہ کیا ہے ۔یہ وعدۂ الہی ہر دور اور ہر زمانے کے لئے ہے کسی زمانے کے ساتھ اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔

جھوٹ ‏بولنے ‏والے ‏کا ‏منہ ‏کالا ‏ہو

اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین .......  ‏شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...