انسانی زندگی پر توحید کے اثرات:
سورۂ نور میں اللہ تعالی کا ارشادہے:﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ
وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وليبدلنهم من بعد خوفهِم
أمنا يَعبُدونَني وَلَا يشركُونَ بِي شَيْئا﴾-"تم میں سے ان لوگوں سے جو
ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالی وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور
زمین مین خلیفہ بنائےگا جیسے ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا۔جو ان سے پہلے تھے،اور
یقینا ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دیگا جسے ان کے کئے
پسند فرما چکا ہے۔اور ان کے اس خوف وخطر کو وہ امن وامان سے بدل دیگا۔وہ میری
عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے"[النور:55]
آیت کا خلاصہ:
-اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ مومنوں کو ضرور زمین میں خلیفہ بنائےگا۔
-اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ مومنوں کو ضرور زمین میں خلیفہ بنائےگا۔
-دین اسلام کو دیگر مذاہب پر غلبہ عطا فرمائےگا۔
-خوف وخطر کو امن وامان میں بدل دے گا۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے:﴿الَّذِينَ
آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الأمْن﴾-"جو لوگ ایمان رکھتے ہین
اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ خلط ملط نہیں کرتے'ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی
راہ راست پر چل رہے ہیں"[الأنعام:82]۔
آیت کا خلاصہ:
-آیت میں یہاں﴿ بِظُلْمٍ ﴾سے مراد شرک ہے۔
-توحید پرست کے لئے دنیا اور
آخرت میں"امن"ہے؛اس لئے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں اور امن کے زیادہ یہی
مستحق ہیں۔جیساکہ ارشاد ہے:﴿وَكَيف أَخَاف مَا أشركتم وَلَا تخافون أَنكُمْ أشركتم بِاللَّه
مَا لم ينزل بِهِ عَلَيْكُم سُلْطَانا فَأَي الْفَرِيقَيْنِ أَحَق بالأمن إِن كُنْتُم
تعلمُونَ﴾-"اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن
کو تم نے شریک بنایا ہے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ
ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالی نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی،سو
ان دو جماعتوں میں سے امن کا کا زیادہ مستحق کون ہے اگر تم خبر رکھتے ہو"۔[الأنعام:81]
امن وامان کی اہمیت:
مذکورہ آیات میں"امن"کا
ذکر آیا ہے'اس لئے کہ یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔اس کا اندازہ ابراہیم علیہ
السلام کی اس دعا ﴿رب اجْعَل هَذَا
الْبَلَد آمنا واجنبني وَبني أَن نعْبد الْأَصْنَام﴾-"اے
میرے پروردگا! تو شہرِ مکہ کو امن والا
بنادے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے"۔[الإبراهيم:35]
سے لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے دیگر
دعاؤں(اس دعا کے بعد بھی کئی چیزیں انہونے اللہ سے مانگی ہے)سے قبل یہ دعا کی
کہ"مکہ کو امن والا شہر بنادے"اس لئے کہ امن ہوگا تو لوگ دوسری نعمتوں سے بھی صحیح معنوں میں
متمتع ہوسکیں گے'ورنہ امن وسکون کے بغیر تمام آسائشوں اور سہولتوں کے باوجود 'خوف
اور دہشت کے سائے انسان کو مضطرب اور پریشان رکھتے ہیں'جیسے آج کل کے عام معاشروں کا حال ہے۔گذشتہ
آیات میں اللہ نے جو وعدہ کیا ہے ۔یہ وعدۂ الہی ہر دور اور ہر زمانے کے لئے ہے کسی
زمانے کے ساتھ اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔
No comments:
Post a Comment