Tuesday, June 1, 2021

جھوٹ ‏بولنے ‏والے ‏کا ‏منہ ‏کالا ‏ہو

اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے
........
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
....... 
‏شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہے :
"فالكذِبُ على الشَّخصِ حرامٌ كُلُّه، سَواءٌ كانَ الرجُلُ مسلمًا أو كافرًا، بَرًّا أو فاجِرًا؛ لكنّ الافتراءَ على المؤمنِ أشدُّ". 
آج شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے مخالفین ومعاندین ان کی تواضع گالیوں اور تکفیر سے کر رہے ہیں، اور دنیا بھر میں ان کو بدنام کرنے کے لئے انہوں نے جھوٹے الزامات کا ایک طوفان برپا کر رکھا ہے(اور ماضی میں بھی انہوں نے یہی کام کیا ہے) ، مگر وہ وقت دور نہیں جب دنیا اس داعیِ حق کی تعریفوں سے گونج اٹھے گی، اور جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا ہوجائے گا !
ابن تیمیہ کے دشمنوں کی سوانح عمریاں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض نے امام موصوف کی مخالفت محض تعصب کی بنا پر کیا ہے، ان ہی متعصبين اور معاندین میں سے ایک تقی الدین حصنی شافعی اشعری ہیں، جنہوں نے اپنی کتاب "دفع شبه من شبه وتمرد" کے اندر متعدد مقامات پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہے، ایک جگہ لکھا ہے :
"وكان الشيخ زين الدين ابن رجب الحنبلي ممن يعتقد كفر ابن تيمية ،وله عليه الرد، وكان يقول بأعلى صوته في بعض المجالس: معذور السبكي! يعني في تكفيره!!".
" یعنی ابن رجب الحنبلی ان لوگوں میں سے تھے جو ابن تیمیہ کے کفر کا اعتقاد رکھتے تھے، اور ان کا رد کیا کرتے تھے ،وہ اپنی بعض مجلسوں میں بآواز بلند کہا کرتے تھے :سبکی ان کی تکفیر کرنے میں معذور ہیں".
حصنی شافعی اشعری کے اس کلام کو مشہور جہمی ، صوفی ،قبوری ،خرافی ،حنفی ،ماتریدی اور گستاخِ ائمہ محمد زاہد کوثری نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے جس کے دل میں ابن تیمیہ اور ابن قیم کے خلاف بغض وحسد کی آگ جل رہی تھی ،چنانچہ اس نے اپنی کتاب "الإشفاق" میں لکھا ہے:
" كان الحافظ ابن رجب الحنبلي من أتبع الحنابلة منذ صغره لابن قيم، وشيخه، ثم تيقن ضلالهما في كثير من المسائل، ورد قولهما في هذه المسأله في كتاب سماه "بيان مشكل الأحاديث الواردة في أن الطلاق الثلاث واحدة".
حافظ ابن رجب الحنبلی بچپن ہی سے حنابلہ میں سب سے زیادہ ابن قیم اور ان کے استاد ابن تیمیہ سے متاثر تھے، پھر ان کو یقین ہو گیا کہ یہ دونوں بہت سارے مسائل میں راہِ راست سے بھٹک گئے ہیں ، اور انہوں نے طلاق ثلاثہ کے مسئلے پر ان دونوں پر رد لکھا ہے".
جائزہ :
1 - تقی الدین الحصنی اشعری[ت:829ھ] نے اپنی مذکورہ کتاب میں کوئی حوالہ پیش نہیں کیا کہ ابن رجب الحنبلی[ت:803ھ] نے کہاں لکھا ہے کہ وہ ابن تیمیہ کو کافر سمجھتے تھے ! اور مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ تقی الدین الحصنی ابن رجب الحنبلی سے کبھی ملا بھی نہیں ہے! پھر انہوں نے کس طرح اس سفید جھوٹ کا انتساب ایک جلیل القدر، متورع اور بزرگ عالم حافظ ابن رجب کی طرف کیا ہے - عامله الله بعدله. 
2 - دراصل یہ شخص یعنی تقی الدین الحصنی ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا سخت مخالف تھا، مسلکی تعصب نے ان کو اندھا کر دیا تھا، مورخین نے لکھا ہے کہ یہ آدمی عموماً حنابلہ اور خصوصاً ابن تیمیہ سے حد درجہ عداوت رکھتا تھا، وقد شهد عليه بهذا عدد كبير من العلماء والمؤرخين، ملاحظہ کیجئے چند علما کے اقوال:
أ - ابن قاضی شہبہ نے لکھا ہے :
"كان أشعريّا منحرفا على الحنابلة يطلق لسانه فيهم، ويُبالغُ في الحَطّ على ابن تيمية". 
ب - سخاوی نے لکھا ہے :
"كان شديد التعصب للأشاعرة، منحرفا عن الحنابلة انحرافا يخرج به عن الحد ،فكانت له معهم بدمشق أمور عديدة، وتفحش في حق ابن تيمية وتجهير بتكفيره من غير احتشام بل يصرح بذلك في الجوامع والمجامع بحيث تلقى ذلك عنه أتباعه واقتدوا به جريا على عادة أهل زماننا في تقليد من اعتقدوه وسيعرضان على الله الذي يعلم المفسد من المصلح ولم يزل على ذلك حتى مات رحمه الله ". 
رہی بات شیخ زاہد کوثری کی تو اس کا تعصب جگ ظاہر ہے، اسی لئے علما نے ان کو "مجنون ابی حنیفہ" کا لقب دیا ہے!
یہ عصبیت بہت بری چیز ہے، اس مرض میں مبتلا لوگوں نے احادیث تک گڑھ نے سے دریغ نہیں کیا، مثلاً امام شافعی [ت:204ھ] نے جب امام ابو حنیفہ[ت:150ھ] کی مخالفت کی تو بعض حنفیوں نے امام ابوحنیفہ کی شان اور امام شافعی کی مذمت میں حدیث وضع کرکے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا: 
"يكون في أمتي رجل يقال له محمد بن ادريس أَضر على أُمتي من إِبليس ويكون في أُمتي رجل يقال له أبو حنيفة هو سراج أمتي هو سراج امتي".
بہرحال ایسے متعصبين کے اقوال ان کے مخالفین کے بارے میں علما کے نزدیک معتبر نہیں.
پھر کہاں تقی الدین ابن تیمیہ اور کہاں یہ تقی الدین الحصنی! محدثِ حلب علامہ برہان الدین ابراہیم سبط العجمی نے تقی الدین حصنی شافعی اشعری کے بارے میں خوب کہا ہے :
"... أن شيوخه الذين تلقى عنهم العلم كانوا عبيداً لابن تيمية أو عبيداً لعبيده".
یہ شخص جن مشائخ سے علم حاصل کیا ہے وہ ابن تیمیہ یا ان کے شاگردوں کی جوتیاں سیدھی کرتا تھا! 
3 - تقی الدین حصنی شافعی اشعری کا یہ لکھنا :
"كان ابن رجب ممن يعتقد كفر ابن تيمية"
اور محمد زاہد کوثری حنفی ماتریدی کا یہ کہنا :
"ثم تيقن ضلالهما في كثير من المسائل" کئی وجوہات کی بنا پر مردود اور ناقابل قبول ہے:
پہلی وجہ :
دونوں کی مذکورہ بالا باتیں حقیقت کے برخلاف ہے، اس لئے کہ حافظ ابن رجب حنبلی امام ابن تیمیہ سے اس قدر متاثر تھے کہ بعض مورخین نے ان کو ابن تیمیہ کے شاگردوں میں شمار کیا ہے، مولانا علی میاں ندوی نے ان کو تلامذہ ابن تیمیہ کے زمرے میں ذکر کیا ہے، پھر حاشیہ میں لکھا ہے :
"حافظ ابن رجب اگرچہ براہِ راست شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے شاگرد نہیں ہیں، اور وہ ان کی وفات کے 8 سال بعد پیدا ہوئے مگر وہ حافظ ابن قیم کے شاگرد اور عام طور پر ابن تیمیہ وابن قیم سے متاثر تھے، اور چند مسائل کے علاوہ عمومی طور پر وہ ان کے ہم مسلک اور ان کے رجال میں سمجھے جاتے ہیں ". 
دوسری وجہ :
"ذيل طبقات الحنابلة" کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا نام ادب واحترام سے لیا ہے، ان کو "امام" اور "مشيخة الإسلام" سے یاد کیا ہے، اسی طرح ان کو "الأئمة الكبار الحفاظ" میں بھی شمار کیا ہے،ملاحظہ کیجئے:
"أحمد بن عبد الحليم بن عبد السلام... بن تيمية الحراني، الإمام الفقيه ،المجتهد المحدث ،الحافظ المفسر،الأصولي الزاهد.
تقي الدين أبوالعباس ،شيخ الإسلام وعلم الأعلام ،وشهرته تغني عن الإطناب فعب ذكره، والإسلام في أمره... قال الذهبي في معجم شيوخه:... شيخنا وشيخ الإسلام ،وفريد لعصره علما ومعرفة، وشجاعة وذكاء.... ".
اسی طرح انہوں نے حضرت امام کی تصنیفات وتحریرات کے بارے میں لکھا ہے : 
"واما تصانيفه - رحمه الله - فهي أشهر من أن تذكر، وأعرف من أن تنكر سارت مسير الشمس في الأقطار، وامتلأت بها البلاد والأمصار، قد جاوزت حد الكثرة، فلايمكن أحد حصرها، ولايتسع هذا المكان لعد المعروف منها، ولا ذكرها، ولنذكر نبذه من أسماء أعيان المصنفات الكبار... ثم ذكرها".
د - حافظ ابن رجب نے "ذيل طبقات الحنابلة" میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے بارے میں لکھا ہے :
"‏وصلى على ‎ابن تيمية صلاة الغائب في غالب بلاد الإسلام القريبة والبعيدة حتى في بلاد اليمن والصين، وأخبر المسافرون أَنه نُودي بأقصى الصين للصلاة عليه يوم الجمعة، الصلاة على ترجمان القرآن".
" یعنی امام ابن تیمیہ نے جب وفات پائی تو اکثر بلاد اسلام میں ان کے لئے نماز جنازہ غائب پڑھی گئی، حتی کہ یمن اور چین میں، اور سیاحوں کی زبانی معلوم ہوا کہ چین کے نہایت بعید گوشوں میں جمعہ کے دن منادی کرنے والے نے پکارا" ترجمان القرآن" کے لئے نماز جنازہ پڑھی جائے گی".
حافظ ابن رجب الحنبلی نے یقیناً شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے انتقال کے بعد ہی یہ لکھا ہوگا، اگر وہ امام موصوف کو گمراہ اور کافر سمجھتے تھے تو ایک کافر وگمراہ شخص کی نمازِ جنازہ کی کیفیت کس شوق سے انہوں نے بیان کیا ہے! .
4 - چند مسائل میں اگر ابن رجب نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے اختلاف کیا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ان کو گمراہ اور کافر خیال کرتے تھے! 
اگر چند مسائل میں اختلاف کی وجہ سے ابن تیمیہ حافظ ابن رجب کے نزدیک گمراہ ہو گئے، تو پھر امام محمد الشیبانی اور امام ابويوسف کے نزدیک امام ابو حنیفہ بھی کافر اور گمراہ شمار ہونگے، اس لئے کہ بہت سارے مسائل میں ان دونوں نے اپنے استاد سے بھی اختلاف کیا ہے!
اور پھر دنیا کے کونسے ایسے عالم ہیں جن کے اپنے کچھ تفردات، اجتہادات اور شذوذات نہیں ہیں!
5 - حافظ ابن حجر عسقلانی نے علامہ ابن رجب حنبلی کی سوانح عمری میں لکھا ہے: "ونُقم عليه إفتاؤه بمقالات ابن تيمية ،ثم أظهر الرجوع عن ذلك، فنافره التيميون ،فلم يكن مع هؤلاء ولا مع هؤلاء".
حافظ ابن حجر نے یہاں واضح نہیں کیا ہے کہ وہ کونسے مسائل ہیں جن سے حافظ ابن رجب نے رجوع کیا ہے.
شاید ان کا اشارہ مسئلہ طلاق ثلاثہ کی طرف ہے، یہ وہ مسئلہ ہے جس میں شیخ الاسلام نے دلائل کی بنیاد پر جمہور علماء سے اختلاف کیا ہے، اور الحمد للہ حق ان کے ساتھ ہے. 
آج زیادہ تر ممالک کی فتویٰ کمیٹیوں نے طوعاً وكرهاً اسے مانا ہے، ہندوستان میں بھی کئی بار مقلدین جامدین کی وجہ سے اسلام کی خوب فضیحت ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو صحیح سمجھ دے.
بہرحال اگر حافظ ابن رجب الحنبلی نے چند مسائل میں شیخ الاسلام سے اختلاف کیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں وہ ان سے نفرت کرتے تھے یا ان کے خلاف اپنے دل میں بغض رکھتے تھے یا وہ ان کو کافر سمجھتے تھے!
فليس كل من خالف شيخ الإسلام فيها يكون مبغضا له!
وهل يلزم الاتفاق في كل الفروع؟!
فأصحاب المذهب الواحد لايقولون بهذا، بل يختلفون في ترجيح الروايات عن الإمام نفسه، واختيار الصواب في المسائل.

Thursday, May 21, 2020

صدقہ ‏فطر ‏میں ‏کیا ‏نکالیں

[صدقہ فطر میں کیا نکالیں؟]
......... 
1 - صدقہ فطر صرف انسانی خوراک سے ادا کیا جائے :
تمام اشیا (تمام ایسی اجناس جو لوگوں کا طعام یعنی خوراک ہیں) سے ایک صاع فطرانہ نکالا جائے، کتب فقہ میں لکھا ہے کہ : "هي صاع من القوت المعتاد عن كل فرد" - "یعنی روزمرہ کی خوراک/غذا میں سے ایک صاع ہر فرد کی طرف سے ادا کیا جائے". 
اس کے دلائل :
پہلی دلیل :- حضرت ابن عمر - رضی اللہ عنہما - سے مروی ہے کہ :
"فرض رسول الله - صلى الله عليه وسلم - زكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير". 
"یعنی رسول اکرم - صلی اللہ علیہ وسلم - نے رمضان کا صدقۃ الفطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَوْ فرض کیا تھا". 
دوسری دلیل :- حضرت ابوسعید الخدری - رضی اللہ عنہ - سے مروی ہے کہ : 
" كنا نخرج يوم الفطر في عهد النبي - صلى الله عليه وسلم - صاعا من طعام وكان طعامنا الشعير والزبيب والأقط والتمر". 
"یعنی اللہ کے رسول - صلی اللہ علیہ وسلم - کے زمانے میں ہم لوگ صدقہ فطر کھانے کی چیزوں سے نکالا کرتے تھے، اور ہمارا کھانا جَوْ، منقی(خشک انگور/کشمش)، پنیر (Cheese/Cottage Cheese) اور کھجور جیسی چیزیں تھیں".
تیسری دلیل : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ - سے مروی ہے کہ: " فرض رسول الله - صلى الله عليه وسلم - زكاة الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساكين".
" یعنی رسول کریم - صلی اللہ علیہ وسلم - نے صدقہ فطر روزہ دار کی لغو بات اور فحش گوئی سے روزے کو پاک کرنے کے لئے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لئے فرض کیا". 
2- معلوم ہوا اللہ کے رسول - صلی اللہ علیہ وسلم - کے زمانے میں لوگوں کا عام طعام(قوت/کھانا) یہ چیزیں تھیں :
جَوْ، گیہوں/گندم، کھجور، پنیر، اور خشک انگور.
اب اگر کسی علاقے کی غذا ان چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہو تو اس سے بھی صدقہ فطر نکال سکتے ہیں، لہذا جن علاقوں میں :
چاول، آٹا، چنا، دال، مٹر، مکئی، باجرہ اور گوشت(بعض فقہا کے قول کے مطابق) وغیرہ بطور غذا استعمال ہوتے ہوں تو وہاں کے لوگ ان اجناس /اشیا سے بھی فطرانہ ادا کر سکتے ہیں. 
3-ایسی چیز جو انسانی غذا نہ ہو بلکہ جانور کی خوراک ہو اس کا نکالنا کافی نہیں ہوگا.
4- اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسان کا طعام (خوراک/غذا /قوت) زمان(زمانہ) اور مکان (جگہ) کے اعتبار (اختلاف /بدلنے) سے مختلف ہو سکتا ہے.
مثلاً "جَوْ" اللہ کے رسول - صلی اللہ علیہ وسلم - کے عہد مبارک(بلکہ کچھ دہائیاں قبل ہندوستان)میں عام لوگوں کی خوراک تھی، لیکن اب یہ خلیجی ممالک میں جانور کی خوراک ہے، لہذا اب اس کا نکالنا کافی نہیں.
اسی طرح "مکئی" کی کھیتی ہمارے علاقے میں خوب ہوتی ہے، لیکن بہت ہی کم لوگ اس کی روٹی یا ستو کھاتے ہیں، بلکہ سارے لوگ اسے بیچ دیتے ہیں یا کچھ جانور(گائے اور بھینس) کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں، لہذا اس کا فطرانہ نکالنے سے پہلے انسان کو غور کر لینا چاہیے.
5- فطرانہ میں کپڑا لتا، تھالی برتن اور عام سامان کے نکالنے سے صدقہ فطر ادا نہ ہوگا ،اس لئے کہ یہ چیزیں انسانی غذا میں سے نہیں ہیں، اور رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - نے صدقہ فطر کھانا میں سے فرض کیا ہے. 
6-خوراک کے بدلے قیمت دینا بھی کافی نہیں:
أ- احادیث میں منصوص غلہ کی قیمت نکالنا رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - کی کھلی مخالفت ہے، اور حدیث میں آیا ہے: "من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد" - "یعنی جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا عمل نہیں تو اس کا عمل مردود اور ناقابل قبول ہے".
ب-خوراک کی قیمت نکالنے میں صحابہ کرام کے عمل کی بھی مخالفت لازم آتی ہے، اور حدیث میں آیا ہے :"عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي".
ج- قیمت کی ادائیگی میں معین جنس سے غیر معین جنس کی طرف عدول ہے.
جس طرح صدقہ فطر ادا کرنے کا وقت متعین ہے اسی طرح اس کی اجناس بھی متعین ہیں، اگر کوئی غیر معین وقت میں اس کو نکالتا ہے تو وہ صدقہ فطر شمار نہیں ہوگا بلکہ عام صدقہ شمار کیا جائے گا، اسی طرح اگر کوئی معین جنس(جو اہل بلد کا طعام ہے) سے عدول کرتا ہے اور غیر معین جنس (جیسے اس کی قیمت) ادا کرتا ہے تو اس سے صدقہ فطر ادا نہ ہوگا.
د-اللہ کے رسول - صلی اللہ علیہ وسلم - نے مختلف اجناس (انسانی خوراک) متعین کر دیئے ہیں اور ان کی قیمتوں کے درمیان آسمان وزمین کا فرق ہے، اب کس جنس کی قیمت معتبر ہوگی؟ یہی وجہ ہے کہ ہر سال ہمارے گاؤں میں اسے لے کر ہنگامہ ہوتا ہے!
ھ- قیمت نکالنے میں صدقہ فطر کا جو مقصد ہے وہ فوت ہو جاتا ہے، اناج نکالنا اور غریبوں میں تقسیم کرنا ظاہری صدقہ ہے اور ہر چھوٹا بڑا مسلمان اسے ناپبتے اور بانٹتے دیکھتا ہے جبکہ اس کی قیمت نکالنا خفیہ صدقہ ہے، دینے اور لینے والے ہی کے درمیان محدود رہتا ہے.
ز- صدقہ فطر اور زکوۃ کے درمیان فرق ہے، زکوٰۃ میں انسان نقدی دیتا ہے جبکہ صدقہ فطر میں غلہ(خوراک) نکالنے کا حکم ہے.
ح- یہ کہنا کہ : "مساکین کو کھلانا مقصود ہے اور وہ قیمت سے بھی ممکن ہے لہذا ایسا کرنا بھی درست ہے".
ہم ان سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کیا یہ مقصد اللہ کے رسول - صلی اللہ علیہ وسلم - کو معلوم نہیں تھا، کیا اس زمانے میں دینار ودرہم کا وجود نہیں تھا، کیا دینار ودرہم سے اس زمانے کے فقرا اپنی حاجت پوری نہیں کر سکتے تھے! 
بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ اس زمانے میں غلہ سے زیادہ پیسوں کی قیمت تھی ، لہذا اللہ کے رسول - صلی اللہ علیہ - سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کیجئے. 
ط- کہتے ہیں :"پیسہ فقرا کے لئے اناج سے زیادہ مفید ہے". 
میں کہتا ہوں اناج کا نکالنا آپ کے لئے زیادہ مفید ہے، اور فقیر کے لیے بھی زیادہ نفع بخش ہے، کون ہے جو اناج خرید کر نہیں کھاتا؟! اچھا چاول،اچھی گیہوں اور اچھا آٹا سب کو چاہئے، ردی چیزیں نہ نکالا کریں!
ی-آپ کو یہ کہا گیا ہے کہ آپ کو صرف عید کے دن فقیر کو دردر کی ٹھوکر کھانے سے بے نیاز کرنا ہے ، لہذا آپ ان کے لئے اس دن کا بندوبست کر دیجئے، اور یہی صدقہ فطر کا مقصد ہے. 
مزید تعاون کرنا چاہتے ہیں تو صدقہ وخیرات اور زکوۃ کے پیسوں سے ان کی مدد کیجئے. 
ک- حدیث میں صدقہ فطر کی علت یہ بیان کی گئی ہے کہ لغو باتوں اور بیہودہ کاموں سے روزے دار کے روزوں کی پاکی اور مسکینوں کے لئے کھانا ہے.
اور ظاہر بات ہے یہ دونوں امر اسی وقت متحقق ہوسکتے ہیں جب صدقہ فطر غلہ کی شکل میں ادا کیا جائے، کیونکہ جن انسانی کوتاہیوں اور غلطیوں کا کفارہ شریعت میں مسکینوں کو کھانا کھلانے کی شکل میں مقرر ہے، جیسے : قسم کا کفارہ، ظہار کا کفارہ، رمضان میں جماع کا کفارہ اور حج میں فدیہ وغیرہ، ان میں کھانا کھلانا ہی متعین ہے، وہاں کفارہ نقد کی شکل میں دینا جائز نہ ہوگا. 
ل- بہرے حال فقہا نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے، میں یہاں کچھ علما کے اقوال لکھ دیتا ہوں:
أ- امام مالک، امام شافعی اور امام احمد - رحمہم اللہ - کے نزدیک اجناس کے عوض قیمت دینا جائز نہیں.
ب- امام ابو حنیفہ - رحمہ اللہ - کے نزدیک قیمت دینا جائز ہے.
ج- امام شوکانی - رحمہ اللہ - کے نزدیک کسی عذر کی وجہ سے قیمت دینا جائز ہے. 
د- امام ابن حزم - رحمہ اللہ - کے نزدیک اجناس کی قیمت کفایت نہیں کرتی.
ھ- شیخ الاسلام ابن تیمیہ - رحمہ اللہ - کے نزدیک صدقہ فطر روز مرہ کی خوراک سے ادا کیا جائے.
و- شیخ ابن عثيمين کے نزدیک قیمت کفایت نہیں کرتی.
ز-شیخ البانی کا بھی یہی رجحان ہے، شیخ البانی نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ پڑھ کر رونکٹے کھڑے ہو جاتے ہیں :
"فانحراف بعض الناس عن تطبيق النص إلى البديل الذي هو النقد ، هذا اتهام للشارع بأنه لم يحسن التشريع؛ لأن تشريعهم أفضل وأنفع للفقير هذا لو قصده ، كفر به لكنهم لا يقصدون هذا الشيء". انظر: [سلسلة الهدى والنور شريط رقم :٢٧٤]. 

اخیر میں یہی کہونگا کہ اناج(جیسے چاول، آٹا وغیرہ ) نکالنے میں سارے علما کا اتفاق ہے لہذا انہیں چیزوں کو نکالئے اور جن میں شک اور اختلاف ہے اس سے بچئیے.
(واللہ اعلم) 
 وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم 

🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین

Saturday, April 25, 2020


کچھ تو ایسا کر کہ عالم بھر افسانہ رہے

[کچھ تو ایسا کر کہ عالم بھر میں افسانہ رہے]
................. 
1 -امام ابن جریر طبری - رحمہ اللہ - کی سوانح عمری میں حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے :
"رُوي عنه أنه مكث أربعين سنة يكتب وكل يوم يكتب أربعين ورقة" - "یعنی وہ مسلسل چالیس سال تک لکھتے رہے اور روزانہ چالیس ورق لکھتے تھے". 
2-ام فخر الدین رازی کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ایک سو سے کم نہ ہوگی۔ صرف تفسیر کبیر تیس جلدوں میں ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کھانے پینے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے میں ہمیشہ اس پر افسوس کرتا ہوں۔
"تفسیر کبیر /تفسیر رازی" ان کی مشہور کتاب ہے، اس کا کل زمانۂ تصنیف کم وبیش آٹھ برس ہے، تصنیف کا زمانہ نہایت پریشانی اور بے سروسامانی کی حالت میں گزرا ہے.
(جس کی تفصیل ایک مضمون میں بیان کر چکا ہوں). 
تصنیف کی روزانہ مقدار:
اس تصنیف کی روزانہ مقدار حیرت انگیز ہے، اکثر سورتوں کے خاتمہ سے تصنیف کی مدت کا پتہ لگتا ہے، مثلاً سورہ انفال کے اخیر میں لکھا ہے کہ رمضان 601ھ میں تمام ہوئی، اس کے بعد سورہ توبہ کی تفسیر شروع ہوتی ہے اس کے خاتمہ میں لکھتے ہیں کہ 14 رمضان میں تمام ہوئی یعنی زیادہ سے زیادہ دو ہفتے صرف ہوئے، سورہ کی تفسیر مصری چھاپے کے نسخے میں 193 صفحوں میں آئی ہے، ہر صفحہ میں 31 سطریں ہیں اور نہایت باریک خط اور درآورد کتابت ہے، اس حساب سے روزانہ کم وبیش بیس صفحے ہوتے ہیں، اس قدر آج کوئی شخص کتابت نہیں کر سکتا، یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ تصنیف کے زمانہ میں اور بھی بہت سے کام یعنی درس، تدریس، افتا، وعظ وپند روزانہ جاری رہتے تھے اور دن کا بڑا حصہ ان مشغلوں میں صرف ہوتا ہے.
3- علامہ ابن الجوزی - رحمہ اللہ - فرماتے ہیں کہ :
میری پہلی تصنیف اس وقت ہوئی جب میری عمر تقریباً تیرہ برس تھی. 
آپ کے پوتے ابوالمظفر کہتے ہیں میں نے اپنے دادا سے آخری عمر میں منبر پر یہ کہتے سنا ہے کہ میری ان انگلیوں نے دوہزار جلدیں لکھیں ہیں، میرے ہاتھ پر ایک لاکھ آدمیوں نے توبہ کی ہے اور بیس ہزار یہود ونصاری مسلمان ہوئے ہیں. 
علامہ موصوف کی تصانیف کو دیکھ کر علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ کسی عالم نے ایسی تصانیف کیں جیسی آپ نے کیں. 
جن قلموں سے علامہ ابن الجوزی نے کتابیں لکھی تھی، ان کا تراشہ جمع کرتے گئے تھے، جب وہ وفات پانے لگے تو وصیت کی کہ میرے غسل کا پانی اسی تراشے سے گرم کیا جائے، چنانچہ جس پانی سے ان کو غسل دیا گیا اس کے نیچے وہی تراشے بطور ایندھن کے جلایا گیا تھا.
4- مشہور عالم دین مولانا عبد الحئی فرنگی محلی - رحمہ اللہ - ہر فن میں دسترس رکھتے تھے، علم حدیث، علم اسناد ورجال، تفسير، فقہ وفتاوی ،فلسفہ ،ریاضی وہیئت جیسے علوم میں آپ کی بیش بہا تصانیف موجود ہیں جن کی تعداد ایک سو بیس ہے، اور آپ کی عمر صرف 39 سال ہے، اتنی قلیل عمر میں دوسرے مشاغل کے ساتھ اس قدر تصانیف عطیہ الہی ہے، آپ کی سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر آپ کی تصانیف کے صفحات کو آپ کے ایام زندگی پر تقسیم کیا جائے تو صفحات کتب ایام زندگی پر فوقیت لے جائیں گے. 
5- شیخ الاسلام ابن تیمیہ - رحمہ اللہ - کو کون نہیں جانتا، ان کی زندگی کے آخری تین سال مختلف ہنگاموں سے پر رہے، یہی وہ زمانہ تھا کہ ان کی زبان اور ان کا قلم رات دن چلتا تھا اور تھکنے کا نام نہیں لیتا تھا.
ابن تیمیہ کسی ایک جگہ پر مقیم نہیں رہے اس لئے ان کی تحریروں کو ایک جگہ جمع کرکے نہیں رکھا گیا، کسی کو بھی اس کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے کتنا لکھا اور ان کی تصنیفات کی تعداد کیا ہے، بعض نے پانچ سو اور بعض نے ایک ہزار سے زیادہ تصنیفات کا اندازہ لگایا ہے، مگر سب اپنا اپنا اندازہ ہے. 
اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ بہت تیز لکھا کرتے تھے، ان کے سامنے حوالے کی کتابیں نہیں ہوتی تھیں ،ان کا دماغ خود ایک بہت بڑا کتب خانہ تھا جس کی بنا پر ان کو حوالوں کے تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھی، اکثر ایسا ہوتا تھا کہ کوئی ان کے پاس سوال لے کر آتا اور وہ وہیں بیٹھے بیٹھے تھوڑی دیر میں اس کا جواب لکھ کر دے دیتے تھے، "العقيدة الحموية الكبرى" ڈیڑھ سو صفحوں کی ایک کتاب ہے، جس کو انہوں نے ظہر اور عصر کی نماز کے درمیان لکھا تھا، اسی طرح "العقیدة الواسطية" ساٹھ صفحوں کا ایک رسالہ ہے جس کو انہوں نے عصر اور مغرب کی نماز درمیان لکھا تھا.
اسی طرح ایک شخص حروف قرآن کے قدیم یا حادث ہونے کے متعلق سوال لے کر آیا اور چاہتا تھا کہ اسی وقت اس کا جواب مل جائے تو انہوں نے ایک ہی نشست میں چون صفحوں کا جواب لکھ کر اس کے حوالے کر دیا. 
امام موصوف نے آخری قید میں بہت کچھ لکھا جس پر حریفوں نے قبضہ کر لیا تھا، یہ کل چودہ بستے (گھٹریاں) تھے، انہی میں سے ایک قرآن مجید کی مشکل آیتوں کی تفسیر بھی تھی، ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ اس کی چالیس جلدیں تھیں، بعض نے پچاس کا اندازہ لگایا ہے.
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تقریباً ساری مطبوعہ کتابیں میرے پاس ہے، ان کی کتابیں پڑھ کر ان کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہے. 
میں نے بہت پہلے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا "شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتابوں کی اہمیت اور ان کی مطبوعہ کتابوں کی فہرست". 
لہٰذا تفصیل وہاں دیکھنی چاہیے.
..... 
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین 

Monday, April 13, 2020

افراتفری کے ماحول میں تصنیف وتسوید کا مشغلہ

[افراتفری کے ماحول میں تصنیف وتسوید کا مشغلہ] 
........................ 
کورونا وائرس/Coronavirus کی وجہ سے پوری دنیا میں سناٹا چھایا ہوا ہے، دنیا کی رفتار رک سی گئی ہے، ہر گھر قید خانہ بن گیا ہے اور لوگ اس میں بند ہیں. 
اسی بیچ امریکہ سے ایک رپورٹ آئی ہے کہ اس تالہ بندی یعنی lockdown کے دور میں وہاں کے گھروں میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑا اور ٹکراؤ عروج پر ہے.
میں کہتا ہوں :جب فارغ ہو کر بیٹھیں گے تو یہ ہونا لازمی ہے. 
1 -مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں :
"8/جولائی 1916ء کو یکا یک حکومت ہند نے میری نظر بندی کے احکام جاری کر دیئے... ، نظر بندی کے بعد کوئی موقع باقی نہیں رہا کہ باہر کی دنیا سے کسی طرح کا علاقہ رکھ سکوں.
اب میرے اختیار میں صرف ایک ہی کام رہ گیا تھا، یعنی تصنیف وتسوید کا مشغلہ، نظر بندی کی انیس دفعات میں سے کوئی دفعہ بھی مجھے اس سے نہیں روکتی تھی، میں نے اس پر قناعت کی، اتنا ہی نہیں، بلکہ میں نے خیال کیا، اگر زندگی کی تمام آزادیوں سے محروم ہونے پر بھی لکھنے پڑھنے کی آزادی سے محروم نہیں ہوں اور اس کے نتائج محفوظ ہیں، تو زندگی کی راحتوں میں سے کوئی راحت بھی مجھ سے الگ نہیں ہوئی، میں اس عالم میں پوری زندگی بسر کر دے سکتا ہوں". 
2- کہتے ہیں حافظ ابن حجر عسقلانی کی تین صاحبزادیوں کی موت طاعون سے ہوئی، ایسی نازک حالت میں بھی ان کا  قلم رکا نہیں اور "بذل الماعون في فضل الطاعون" جیسی کتاب لکھ ڈالی.
3 - امام فخر الدین رازی کی" تفسیر کبیر /تفسیر رازی" کا کل زمانۂ تصنیف کم وبیش آٹھ برس ہے، تصنیف کا زمانہ جس پریشانی اور بے سروسامانی کی حالت میں گزرا ہے اس کا اندازہ اس سے ہوگا کہ مختلف ممالک میں لکھے گئے ہیں مثلاً سورہ ابراہیم کی تفسیر آخر شعبان 601 ھ میں، بغداد کے صحرا میں تمام کی، سورہ بنی اسرائیل کی تفسیر 601ھ میں غزنین میں ختم ہوئی، ایک موقع پر لکھا ہے کہ سلطنت کی برہمی اور طوائف الملوکی کی خانہ جنگیوں کی وجہ سے نہایت بے اطمینانی اور پریشانی ہے، ان سب سے بڑھ کر یہ کہ چوتھی جلد یعنی یونس کی تفسیر لکھنے کے زمانہ میں 601ھ میں ان کے سب سے عزیز فرزند محمد نے انتقال کیا، اس واقعہ نے ان کو سخت صدمہ پہنچایا، خود لکھتے ہیں :
ختمت تفسير هذه السورة يوم السبت من شهر الله الأصم رجب سنة إحدى وستمائة وكنت ضيق الصدر كثير الحزن بسبب وفاة الولد الصالح محمد
"یعنی میں نے اس سورہ کی تفسیر ہفتہ کے دن رجب ٦٠١ھ میں ختم کی اور میں فرزند صالح محمد کی وفات کی وجہ سے سخت غمگین اور تنگ دل ہوں".
جوان اور صالح بیٹے کا یہ داغ تھا کہ متعدد سورتوں کے خاتمہ میں بار بار روتے ہیں اور دوسروں کو رلاتے ہیں یہاں تک کہ سورہ یوسف کی تفسیر کے خاتمہ میں ایک پردرد مرثیہ لکھا ہے اور تفسیر میں شامل کیا ہے، اس کے اشعار یہ ہیں :

فَلَوْ كانَتِ الأقْدارُ مُنْقادَةً لَنا
فَدَيْناكَ مِن حِماكَ بِالرُّوحِ والجِسْمِ

ولَوْ كانَتِ الأمْلاكُ تُؤْخَذُ رِشْوَةً
خَضَعْنا لَها بِالرِّقِّ في الحُكْمِ والِاسْمِ

ولَكِنَّهُ حُكْمٌ إذا حانَ حِينُهُ 
سَرى مِن مَقَرِّ العَرْشِ في لُجَّةِ اليَمِّ

سَأبْكِي عَلَيْكَ العُمْرَ بِالدَّمِ دائِمًا 
ولَمْ أنْحَرِفْ عَنْ ذاكَ في الكَيْفِ والكَمِّ

سَلامٌ عَلى قَبْرٍ دُفِنْتَ بِتُرْبِهِ 
وأتْحَفَكَ الرَّحْمَنُ بِالكَرَمِ الجَمِّ

وما صَدَّنِي عَنْ جَعْلِ جَفْنِي مَدْفَنًا 
لِجِسْمِكَ إلّا أنَّهُ أبَدًا يَهْمِي

وأُقْسِمُ إنْ مَسُّوا رُفاتِي ورِمَّتِي
أحَسُّوا بِنارِ الحُزْنِ في مَكْمَنِ العَظْمِ

حَياتِي ومَوْتِي واحِدٌ بَعْدَ بُعْدِكم 
بَلِ المَوْتُ أوْلى مِن مُداوَمَةِ الغَمِّ

رَضِيتُ بِما أمْضى الإلَهُ بِحُكْمِهِ 
لِعِلْمِي بِأنِّي لا يُجاوِزُنِي حُكْمِي

ابتدائے تصنیف کے زمانہ سے کبھی ایک جگہ چین سے رہنا نصیب نہیں ہوا، عالمگیر خونریزیوں سے جان اور مال کے لالے ہیں، جوان اور قابل بیٹا بے کسی اور غربت کی حالت میں مرچکا ہے، یہ سب کچھ ہے لیکن سلف کی یادگار پہلو میں ایک دل ہے جو ان تمام قیامت انگیز مصائب پر بھی نہیں دبتا، جوان اور لائق بیٹے کی لاش سامنے ہے لیکن مضامین
اسی زور، اسی بلندی، اسی شان کے ساتھ قلم سے نکلتے ہیں کہ گویا آسمان سے ملکوتی فوجیں اتر رہیں ہیں.
ذكرْتُكِ والخَطَىّ يخطِر بيننا
وقد نَهِلتْ منا المثقَّفةُ السُمْرُ
یعنی میں تجھ کو یاد کر رہا تھا اور حالت یہ تھی کہ برچھیاں جسم سے پار ہو رہی تھیں اور نیزے میرا خون پی کر سیراب ہو رہے تھے. 

4-امام اہل سنت حضرت امام احمد بن حنبل [164-241ھ]- رحمہ اللہ - کی پیٹھ پر جلاد تازیانے مار رہے تھے، خود المعتصم سر پر کھڑا تھا، تمام پیٹھ سے خون کے فوارے بہہ رہے تھے اور یہ کچھ صرف اتنی بات کے لئے ہو رہا تھا کہ قرآن کی نسبت ایک ایسے سوال کا جواب دے دیں جس کا جواب اللہ کے رسول - صلی اللہ علیہ و سلم - اور اس کے یاروں نے نہیں دیا ہے، اور نہ دینے کا حکم دیا ہے وہ سب کچھ سہہ رہے تھے مگر جواب نہیں دیتے تھے اگر کوئی صدا نکلتی بھی تھی تو یہی نکلتی:
"أعطوني شيئا من كتاب الله أو سنة رسوله حتى أقول" 
درے مارے نے سے کیا ہوتا ہے؟ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے ثابت کر دکھاؤ تو اقرار کر لوں، اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے جس کے آگے اتباع واقتدا کا سر جھک سکے!
مامون ومعتصم کے عہد میں بدعت اعتزال اور قول بخلق القرآن کی وجہ سے ایک فتنئہ عظیم برپا ہوا تھا، علماء سنۃ پر جو جو مظالم وشدائد ہوئے سب معلوم ہیں.
سب سے زیادہ ظلم وستم کا نشانہ امام احمد بن حنبل کو بنایا گیا تھا ، وقت کے بادشاہ مار مار کر جب ان سے اپنی بات منوا نہیں سکے تو پابند سلاسل کرکے قید خانہ میں ڈال دیا، امام احمد - رحمہ اللہ - نے اسی بغداد کے قید خانے میں "الرد على الزناقة والجهمية" جیسی قیمتی کتاب لکھ ڈالی. 
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ :
"إن الإمام أحمد ألّف الرسالة "الرد على الزناقة والجهمية" وهو في السجن، وتحت وطأة التعذيب". 
ابوالخطاب کلوذانی - رحمہ اللہ - نے لکھا ہے :
"أن الإمام أحمد ألفه في محبسه كما في التمهيد [2/101'136]".
شیخ الاسلام ابن تیمیہ - رحمہ اللہ - نے بھی لکھا ہے :
"أن الإمام أحمد ألفها في السجن" .
اس طرح کے واقعات کی تفصیل کے لیے میرے مضمون "قيد خانہ اور تصنیف " دیکھنا چاہئے.
🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین

Friday, October 11, 2019

استاد کے بغیر

استاد کے بغیر
ایک خاتون نے انگریزی پڑھی- ان کے والد مولوی تھے- ان کے گھر پر انگریزی کا ماحول نہ تھا- چنانچہ ایم اے( انگلش ) انہوں نے بمشکل تھرڈ نمبروں سے پاس کیا- ان کا شوق تھا کہ ان کو انگریزی لکھنا آ جائے- یہ کام ایک اچھے استاد کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا- لیکن ان کے گھر کے حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ کوئی استاد رکھیں اور اس کی مدد سے اپنے اندر انگریزی لکھنے کی صلاحیت پیدا کریں-
مگر جہاں تمام راستے بند ہوتے ہیں وہاں بھی ایک راستہ آدمی کے لئے کھلا ہوتا ہے- شرط صرف یہ ہے کہ آدمی کے اندر طلب ہو اور وہ اپنے مقصد کے حصول میں اپنی پوری طاقت لگا دے- خاتون نے استاد کے مسئلہ کا ایک نہایت کامیاب حل تلاش کر لیا- انہوں نے لندن کی ایک چھپی ہوئی ایک کتاب پڑھی- اس میں انگریز مصنف نے بیرونی ملکوں کے انگریزی طالب علموں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ انگریزی لکھنے کی مشق اس طرح کریں کہ کسی اہل زبان کی لکھی ہوئی کوئی کتاب لے لیں- اس کے بعد روزانہ اس سے چند صفحات لے کر پہلے اس کا اپنی زبان میں ترجمہ کریں پھر کتاب بند کر کے الگ رکھ دیں- اور اپنے ترجمہ کو بطور خود انگریزی میں منتقل کریں- جب ایسا کر لیں تو اس سے کے بعد دوبارہ کتاب کھولیں اور اس کی چھپی ہوئی عبارت سے اپنے انگریزی ترجمہ کا مقابلہ کریں- جہاں نظر آئے کہ انہوں نے کوئی غلطی کی ہے یا طریق اظہار میں کوتاہی ہوئی ہے اس کو اچھی طرح ذہن کی گرفت میں لائیں اور کتاب کی روشنی میں خود ہی اپنے مضمون کی اصلاح کریں-
خاتون نے اس بات کو پکڑ لیا- اب وہ روزانہ اس پر عمل کرنے لگیں- انگریزی اخبار یا رسالہ یا کسی کتاب سے انگریزی کا کوئی مضمون لے کر وہ روزانہ اس کو اردو میں ترجمہ کرتیں اور پهر اپنے اردو ترجمہ کو دوبارہ انگریزی میں منتقل کرتیں اور پهر اپنے انگریزی ترجمہ کو اصل عبارت سے ملا کر دیکھتیں کہ کہاں کہاں فرق ہے- کہاں کہاں ان سے کوئی کمی ہوئی ہے- اس طرح وہ روزانہ تقریباً دو سال تک کرتی رہیں- اس کے بعد ان کی انگریزی اتنی اچھی ہو گئی کہ وہ انگریزی میں مضامین لکھنے لگیں- ان کے مضامین انگریزی جرائد میں چھپنے لگے- ان کے بھائی نے ایکسپورٹ کا کام شروع کیا جس میں انگریزی خط و کتابت کی کافی ضرورت پڑتی تھی- خاتون نے انگریزی خط و کتابت کا پورا کام سنبھال لیا اور اس کو کامیابی کے ساتھ انجام دیا- مذکورہ خاتون نے جو تجربہ انگریزی زبان میں کیا وہی تجربہ دوسری زبانوں میں بھی کیا جا سکتا ہے-
ہماری دنیا کی ایک عجیب خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کسی کامیابی تک پہنچنے کے بہت سے ممکن طریقے ہوتے ہیں- کچھ دروازے آدمی کے اوپر بند ہو جائیں تب بھی کچهہ دوسرے دروازے کھلے ہوتے ہیں جن میں داخل ہو کر وہ اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے- یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی شخص کی ناکامی کا سبب ہمیشہ پست ہمتی ہوتا ہے نہ کہ اس کے لیے مواقع کا نہ ہونا-
راز حیات
مولانا وحیدالدین خان

Friday, September 27, 2019

الزوجات وإحراق الكتب

الزوجات وإحراق الكتب
1 - سيبويه :
قامت زوجته بإحراق كتبه لانه كان يشتغل عنها بهذه الكتب ، فلما علم بذلك أغشي عليه ثم فاق وطلقها .
2 - الليث بن المظفر :
كان مشتغلا عن زوجته بحفظ كتاب العين للفراهيدي ، فغارت من الكتاب فأحرقته .
3 - الامير محمود الدولة الآمري :
كان يقتني الكثير من الكتب ، فلما مات كانت زوجته تندبه وترمي بالكتب في بركة ماء وسط الدار لانه كان يشتغل عنها بهذه الكتب.
4- ابراهيم العياشي :
قضى ٢٠ سنة في تأليف كتاب حجرات النساء فأغاظ ذلك زوجته لانشغاله عنها كثيرا فأحرقت الكتاب فأصيب الرجل بالشلل .
5-محمد بن شهاب الزهري:
قالت له زوجته يوما والله لهذه الكتب اشد علي من ثلاث ضرائر .
اليوم يكثر الاشتغال بالهاتف فاستوصوا بالنساء خيرا وتحذروا لا يعق ويكسر..

جھوٹ ‏بولنے ‏والے ‏کا ‏منہ ‏کالا ‏ہو

اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین .......  ‏شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...