"فیاضی اور خیرات کا جو عمدہ طریقہ یہاں(فرانس) اور یورپ کے تمام ممالک میں جاری ہے وہ خاص کر لحاظ کے قابل ہے، ایشیائی ممالک فیاضی کے لئے مشہور ہیں لیکن فیاضی کا طریقہ ایسا ابتر ہے جس کی وجہ سے قوم گدائی اور دریوزہ گری میں مبتلا ہوگئی ہے، اچھے خاصے، توانا اور مضبوط آدمی بھیک مانگتے پھرتے ہیں، مولوی، صوفی، درویش نذر ونیاز کے بہانے بے تکلف گدائی کرتے ہیں لیکن یورپ کا طریقہ بالکل جدا ہے، کوئی شخص کسی شخص کے آگے دست طلب دراز نہیں کرتا، نہ کوئی شخص کسی شخص کو کچھ دے سکتا ہے، جو کچھ جس کو دینا ہوتا ہے خیراتی کارخانوں کے حوالہ کرتا ہے، وہاں سے نہایت احتیاط کے ساتھ وہ رقم ان لوگوں کو پہنچا دی جاتی ہے جو درحقیقت مستحق ہوتے ہیں، فرانس میں اس قسم کی کمیٹیاں اور خیراتی کارخانے جس کثرت سے ہیں ان کا شمار نہیں ہوسکتا، مصنف نے بہت سی کمیٹیوں کے نام لئے ہیں جن کی غرضیں مختلف ہیں، مثلاً یتیموں کی پرورش، غریب حاملہ عورتوں کی مدد، بیکار پیشہ وروں کے لئے کام کی تلاش، کنواری عورتوں کے لئے شادی کا انتظام وغیرہ وغیرہ، جن کی مجموعی تعداد 245 ہے لیکن باوجود اس کے قوم میں گداگری کی صفت کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا".
[السفر إلى المؤتمر /احمد زكی آفندی بحوالہ مقالات شبلی 126/4]
Sunday, January 27, 2019
قابل تقلید عمل
Monday, January 14, 2019
تفسير بغوی کے متعلق ابن تیمیہ کی رائی
[ تفسير بغوی کے متعلق ابن تیمیہ کی رائی اور اس پر محاکمہ]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
"بغوی کی تفسیر ثعلبی کی تفسیر کا اختصار ہے، لیکن انہوں نے اپنی تفسیر کو ثعلبی کے برعکس موضوع احادیث اور مبتدعانہ اقوال و آرا سے محفوظ رکھا ہے" [مقدمة في أصول التفسير].
اسی طرح وہ اپنے فتاوی میں ایک سوال کے جواب میں جس میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ زمخشری، قرطبی اور بغوی میں سے کس کی تفسیر کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ نزدیک نزدیک ہے؟اس استفتا کے جواب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں :
"تینوں کتابیں جن کے بارے پوچھا گیا ہے ان میں سب سے زیادہ بدعت سے محفوظ اور احادیث ضعیفہ وموضوعہ سے پاک بغوی کی تفسیر ہے، حالانکہ بغوی کی تفسیر ثعلبی کی تفسیر کا اختصار ہے لیکن انہوں اپنی کتاب میں ثعلبی کی مبتدعانہ آراء اور احادیث موضوعہ کو حذف کر دیا ہے، اس طرح اور بھی بہت سی غیر ضروری چیزیں امام بغوی نے اس میں سے نکال دی ہیں "[فتاوی ابن تیمیہ 193/2]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے مذکورہ بیان پر محاکمہ:
1علامہ کتانی لکھتے ہیں :
"معالم التنزيل(یعنی تفسیر بغوی) میں ایسے مندرجات وحکایات موجود ہیں جن کو ضعیف وموضوع کہا جا سکتا ہے"[الرسالة المستطرفة ص/19]
چونکہ"معالم التنزيل" ثعلبی کی تفسیر "الكشف والبيان عن تفسير القرآن" کا اختصار ہے، اور ثعلبی کی تفسیر کا امتیاز ہی یہ تھا کہ وہ حاطب اللیل ہیں اور اپنی تفسیر میں انہوں نے احادیث ضعیفہ اور موضوعہ،نیز اسرائیلیات کا انبار جمع کردیا ہے،اس لئے بغوی کی تفسیر کا مکمل طور سے ان خرافات سے پاک ہونا تو ناممکن تھااور یہی ہوا.
ڈاکٹر محمد ابوشہبہ لکھتے ہیں:
"بغوی کی تفسیر میں صحیح اور ضعیف ہر طرح کی حدیثیں موجود ہیں، اور اسرائیلی روایات کی تو اپنی اصل یعنی تفسیر ثعلبی ہی کی طرح کثرت ہے، مثال کے طور پر قصۂ ہاروت وماروت، قصۂ داؤد وسلیمان وغیرہ دیکھیں، چنانچہ وہ آیت {ن والقلم وما يسطرون} - کے تحت لکھتے ہیں:" نون سے مراد مچھ ہے جس کی پیٹھ پر زمین واقع ہے" - اور بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ خرافات اور اسرائیلیات کی قبیل کی بات ہے"[الإسرائيليات والموضوعات، ص/128]
اسی طرح ڈاکٹر محمد حسین ذہبی فرماتے ہیں:
"اس تفسیر پر میرا تبصرہ یہ ہے کہ اس میں کلبی اور اس جیسے دوسرے ضعیف راویوں کی روایتیں لی گئی ہیں"[التفسير والمفسرون 238/1].
مزید لکھتے ہیں:
"اس تفسیر میں بعض مقامات پر مجھے ایسی اسرائیلی روایات بھی ملی ہیں جن کو انہوں نے ذکر تو کیا ہے، مگر اس پر کوئی نوٹ یا تبصرہ کئے بغیر گزر گئے ہیں"[التفسير والمفسرون 238/1].
تفصیل کے لئے دیکھئے[تفسيروں میں اسرائیلیات، ذکی الرحمن غازی مدنی ،ص/758-778]
3-شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہ کہنا کہ بغوی کی تفسیر احادیث ضعیفہ وموضوعہ سے پاک ہے تو بیشک اس سے ایک حدتک تو اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ سورتوں کے فضائل کے باب میں جو موضوع حدیثیں ثعلبی اور دیگر مفسرین کی کتابوں میں وارد ہوئی ہیں ان سے تفسیر بغوی خالی ہے،اس طرح ابن تیمیہ کے اس بیان کو بھی صحیح تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ بغوی کی تفسیر میں زمخشری اور قرطبی کے مقابلے میں مبتدعانہ آرا اور ضعیف اور موضوع احادیث نسبتاً کم ہیں، مگر شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہ کہنا کہ یہ کتاب ضعیف اور موضوع اور اسرائیلی روایات سے یکسر خالی ہے تو ان کی یہ بات ناقابل تسلیم ہے.
قادیانیت ،ایک مختصر تعارف
آج چند بوسیدہ کتابوں کو دھوپ دکھانے کے لئے نکالا تو اس میں"قادیانیت ،ایک مختصر تعارف" نامی کتابچہ بھی تھا.
یہ فضیلۃ الشيخ حضرۃ العلام محمد عطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ کی تصنیف ہے، اس میں انہوں نے قادیانیوں کے غلط عقائد وخیالاتِ فاسدہ کا پردہ فاش کیا ہے،قادیانیت پر شیخ کی تین کتابیں ہیں،یہ اسی تردیدی سلسلے کی ایک کڑی ہے.
شیخ جامعہ اسلامیہ مدینہ سے فراغت کے بعد سن 1968ء تا 1978ء کے درمیان سعودی عرب کی جانب سے مبعوث کی حیثیت سے نائجیریا میں تبلیغِ دین واشاعتِ اسلام کا فریضہ انجام دے رہے تھے،چونکہ وہاں بھی احمدیہ /قادیانی تحریک نائجیریا کے لوگوں کو جھوٹ وفریب دہی کے ذریعہ گمراہ کر رہی تھی،لہذا شیخ نے تقریروں کے ذریعہ اور کچھ کتابیں تیار کر کے نائجیریا کے طول و عرض میں نیز اس کے پڑوسی ملکوں میں مفت تقسیم کراکے قادیانیت کی حقیقت اور اس کی گمراہی وجھوٹ کی قلعی کھولنے کے لئے بھر پور کوشش کی تھی.
شیخ لکھتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے پھر بعض مبعوث بھائیوں کے تعاون سے ہم نائجیریا کے لوگوں کو جو احمدیت /قادیانیت قبول کر چکے تھے اور جن کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی،قادیانیت سے توبہ کرلینے اور اسے چھوڑ دینے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوگئے، چنانچہ انہوں نے احمدیت /قادیانیت سے توبہ کرلی اور اجتماعی قرار داد کے ذریعہ اپنی جماعت کا نام (احمدیہ موومنٹ اِن اسلام) کو ختم کرکے (جماعت انوار الاسلام) رکھ لیا،فالحمد للہ علی ذلک - آپ ان کی یہ انگریزی قرار داد اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں"[قادیانیت ایک مختصر تعارف ص/2].
قادیانیت کے تعلق سے ان کا قسط وار مضمون پیامِ توحید (جامعہ الإمام البخاری کشن گنج کا ماہنامہ) میں بھی مدت تک چھپتا رہا.
شیخ محمد عطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ کا تعلق کٹیہار بہار سے ہے، جمعیت اہل حدیث ہند کے ناظم اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں، لمبے عرصے تک ان کا قیام دہلی میں رہا، فی الحال کشن گنج میں اقامت پزیر ہیں.
شیخ کو میں بچپن سے جانتا ہوں، چونکہ آپ میرے بھائی شیخ نظام الدین علیگ کے سسر ہیں، جب وہ دہلی میں رہتے تھے تب بھی ان کا کشن گنج آنا جانا لگا رہتا تھا، چونکہ شیخ عبدالمتین بن عبد الرحمن السلفی مؤسس جامعۃ الامام البخاری(ت:2010) بھی ان کے داماد تھے.
شیخ محمد عطاء الرحمن مدنی حفظہ اللہ 1933ء میں گواگاچھی، کٹیہار میں پیدا ہوئے،ان کو کئی زبانوں پر مہارت حاصل ہے، بنگلہ، اردو،ہندی، عربی اور انگریزی میں مختلف علوم وفنون پر ان کی پچاس زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں، ان کی خود نوشت سوانح"سمندر میں چھلانگ" نہایت دلچسپ ہے.
کچھ دن پہلے میں نے فیس بک پر ڈاکٹر بہاء الدین حفظہ اللہ سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ کو اپنی کتاب میں اس بزرگ شخصیت کو ضرور جگہ دینی چاہیے، ڈاکٹر صاحب نے یقین دلایا اور کہا ضرور آپ تفصیلات لکھ کر بھجیج دیں، لیکن افسوس کہ میں اب تک اس کے لئے وقت نہیں نکال سکا، آج شیخ کی اس کتاب پر نظر پڑی تو قلم سے یہ سطور نکل گئے.
Thursday, January 10, 2019
ایک غلط فہمی اور اس کا ازالہ
[امام ابن جریر طبری کے تعلق سے ایک غلط فہمی]
...................
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے سلسلے میں ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ وہ شعیہ تھے، اور روافض کے لئے حدیثیں وضع کرتے تھے ،اس قول کے قائل مشہور محدث احمد بن علی سلیمانی ہیں، مگر دراصل محدث سلیمانی کو اس سلسلے میں سہو ہوگیا ہے، یا ان کی مراد ٹھیک سے سمجھی نہیں جا سکی کیونکہ امام ابن جریر طبری صاحب"جامع البيان في تأويل القرآن" کے معاصر اور ہم نام ایک اور صاحب ہیں، جن کا پورا نام محمد بن جعفر بن رستم طبری ہے، وہ رافضی شیعہ تھے اور روافض کے لئے حدیثیں گھڑا کرتے تھے.
صاحب "لسان الميزان" حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ:
"ابن جریر راست گفتار اور ثقہ تھے، مگر آپ میں کسی حد تک تشیع پایا جاتا ہے جو چنداں ضرر رساں نہیں، احمد بن علی سلیمانی نے امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی شان میں یہ کہہ کر گستاخی کی ہے کہ آپ شیعہ کے لئے حدیثیں وضع کیا کرتے تھے، یہ بدگمانی، سفید چھوٹ اور بے بنیاد بات ہے، بہ خلاف ازیں ابن جریر کبار ائمہ اسلام میں سے تھے، اگرچہ ہم آپ کو معصوم قرار نہیں دیتے، تاہم ان پر غلط الزام عائد کرنا بھی روا نہیں سمجھتے، عالم دین کو دوسرے عالم دین پر تنقید کرتے وقت نرمی سے کام لینا آئے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ محدث سلیمانی نے جس طبری کے حق میں یہ الفاظ کہے ہوں وہ محمد بن جرير بن رستم طبری رافضی ہو، بلکہ اگر میں اس بات پر قسم بھی کھالوں تو حانث نہیں ہو گا، کی ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ محدث سلیمانی ایک ثقہ اور باعتماد محدث ہیں اور اس طرح کی غلط بات امام اہل سنت ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے بارے میں وہ نہیں کہہ سکتے ہیں"[لسان الميزان 100/5-1003]
میں کہتا ہوں اسی طرح کی غلط فہمی ماضی قریب کے بڑے بڑے علما کو شیخ الاسلام محمد بن عبدالوهاب کے سلسلے میں بھی ہوگئی ہے، ہم کبھی اس پر لکھیں گے.
Thursday, January 3, 2019
کتابوں پر نوٹ لکھنے کی اہمیت
[کتابوں پر نوٹ]
مولانا ابوالکلام آزاد کہتے ہیں:
"والد مرحوم ہمیشہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ بلا نوٹ کرنے کے کبھی مطالعہ نہ کرو، اگر لکھنے کے لئے کوئی بیاض نہ ہو تو کتاب کے صفحے پر ہی لکھو، صفحے میں لکھنے کے لئے گنجائش نہ ہو تو صرف ایک نشان ہی دے دو، مگر کوئی قلم کا عمل ضرور کرو،اس طرح کتاب کے تمام مباحث ہمیشہ کے لئے محفوظ رہیں گے، خود والد مرحوم کا مدت العمر یہی طریقہ رہا، ان کے کاغذات میں صدہا بیاضیں محض مطالعے کے نوٹ ہیں، وہ اتنے مختصر ہیں کہ اب بدقت سمجھ میں آسکتے ہیں، تاہم نوٹ ہیں اور ان کے تعجب انگیز استحضار وعظ کا اصلی بھید انہی میں پنہاں ہے، اس کے بعد میری بھی یہ عادت ہوگئی کہ جب کبھی کسی چیز کو یاد رکھنا چاہا، تو ایک مرتبہ لکھ لیا، پھر وہ چیز محفوظ ہو گئی... "
[آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی]
مولانا آزاد کے زیر مطالعہ کتابوں(عربی،اردو، فارسی، انگریزی وغیرہ) پر ان کے قلم سے جو نوٹ لکھے ہوئے تھے، بعد میں سید مسیح الحسن نے ان کو جمع کرکے "حواشی ابوالکلام آزاد زیر مطالعہ کتابوں پر" کے نام سے شائع کردیا ہے،جو تقریباً 600 صفحات مشتمل ہیں.
جھوٹ بولنے والے کا منہ کالا ہو
اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کا منہ کالا کرے ........ 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین ....... شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ایک جگہ لکھا ہ...
-
[قرآن کریم میں وارد"فتیل"-"نقیر"-اور"قطمیر"کا معنی] کل شام کی بات ہے ایک بھائی نے مجھ سے"نقیر"...
-
صفة اليدين : [ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں،اللہ تعالی کی یہ ایک ذاتی صفت ہے ]: اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَان﴾[...
-
[تصنيف وتالیف کی اہمیت اور اس میں اہل علم کا منہج] : .............. 🖊️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین ............. 1 -اما...